صوبائی حکومت بجلی منافع کے حصول کے لئے سرگرم

گو کہ نئے مالی سال کے لیے صوبہ کے پیش کردہ بجٹ میں بجلی کے خالص منافع کی سالانہ رقم میں اضافہ اور مزید...

فوٹو : فائل

گو کہ نئے مالی سال کے لیے صوبہ کے پیش کردہ بجٹ میں بجلی کے خالص منافع کی سالانہ رقم میں اضافہ اور مزید نئے بقایاجات کی وصولی کے لیے کسی قسم کے روڈ میپ کا کوئی تذکرہ نہیں ت۔

اہم صوبائی حکومت جون کے ختم ہوتے ہی اس سلسلے میں اپنی جدوجہد کا آغاز کردے گی کیونکہ بجلی کا منافع صوبہ کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے حوالے سے کوئی بھی حکومت نہ تو پیچھے ہٹ سکتی ہے اور نہ ہی اس معاملہ کو دوسری اور تیسری ترجیح میں ڈال سکتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ سالانہ منافع کی مد میں دو سالوں کے بقایاجات مرکز کے ذمے واجب الادا ہوں اور 2004-05 ء میں پندرہ سالوں کے بقایاجات کے حوالے سے ثالثی ٹریبونل کے ذریعے تصفیہ شدہ رقم کی بھی آنے والے سال میں آخری قسط ملنے جارہی ہو۔

جس کے بعد صوبہ کو لازمی طور پر مالی مشکلات درپیش ہوں گی ، یہی وجہ ہے جون کے ختم ہوتے ہی صوبائی حکومت آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہی ہے جس میں نہ صرف بجلی کے خالص منافع کے حوالے سے معاملات زیر بحث لائے جائیں گے بلکہ امن وامان کی صورت حال اور صوبہ کو درپیش دیگر امور کو بھی ان کے سامنے پیش کیاجائے گا تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت ہی سے مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کیاجائے اور یہ طریقہ کار صوبہ کے لیے کوئی نیا نہیں کیونکہ اس سے پہلی حکومتیں بھی یہی طریقہ کار اختیار کرتی آئی ہیں ۔

متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے بھی بجلی کے خالص منافع کے حصول کے لیے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا اکٹھ کیا تھا اور اس اکٹھ ہی کے نتیجے میں اس وقت کی ایم ایم اے کی حکومت اس قابل ہوئی تھی کہ وہ مرکزی حکومت اور واپڈا کو قائل کرسکے کہ وہ صوبہ کو بجلی منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کرے ،گو کہ اس وقت جو ثالثی ٹریبونل قائم کیا گیا تھا اس نے صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے 595 ارب روپے کے کیس کو تو تسلیم نہیں کیا تھا تاہم صوبہ کو 110 ارب روپے جاری کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور اس رقم کا حصول گزشتہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس وقت ممکن بنایاتھا جب ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے مرکز اور صوبوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری تھا ۔

چونکہ وہ ایک ایسا وقت تھا کہ کوئی بھی صوبہ اپنی کوئی بھی جائز شرط منوا سکتا تھا اس لیے خیبرپختونخوا کی اس وقت کی حکومت دو شرائط پر اڑ گئی تھی کہ ایک تو صوبہ کو بجلی کے منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کی جائے اور دوسرا صوبہ کے حصہ کا جو پانی دیگر صوبے استعمال کررہے ہیں اس کی رقم بھی صوبہ کو دی جائے اور اسی کے نتیجے میں مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا کو 110 ارب روپے کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، تاہم اب رواؓں مالی سال کے لیے اعلان کردہ بجٹ میں اس رقم کی آخری قسط مرکز کی جانب سے صوبہ کو ادا کی جائے گی۔

جس کے بعد لازمی طور پر صوبائی حکومت کو اپنے وسائل میں اضافہ کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی اوراسی مقصد کے لیے موجودہ چار جماعتی اتحاد پر مشتمل حکومت نے ایک مرتبہ پھر سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کی مشاورت ہی سے معاملات کو آگے بڑھایا جائے اور حکومت صرف یہ معاملہ آگے نہیں بڑھائے گی بلکہ معا ہدہ آب1991 ء کے تحت صوبہ کے حصہ کا وہ پانی جو اب تک دیگر صوبے استعمال کرتے آئے ہیں اس کی رقم کی وصولی کے لیے بھی کیس مرکز کے سامنے پیش کرنے جارہی ہے تاکہ اس رقم کا حصول یا اس کے بدلے کوئی سکیم مرکز سے حاصل کی جاسکے ۔

چونکہ مرکز میں مسلم لیگ(ن)اور صوبہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان اب تک باقاعدہ طور پر کسی معاملے میں نہ تو گفت وشنید ہوئی ہے اور نہ ہی ان کا ایک دوسرے کے ساتھ واسطہ پڑا ہے کہ جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ مرکز ،صوبہ کے ساتھ تعاون کرے گا یا نہیں یا صوبہ اپنا کیس کتنے مضبوط انداز میں پیش کرے گا ، تاہم صوبائی حکومت کے پاس مشترکہ مفادات کی کونسل کا آئینی فورم موجود ہے جہاں وہ اپنے صوبہ کے تمام ایسے جائز مسائل کو لے جاسکتا ہے جو دیگر فورمز پر یا تو حل نہیں ہوپارہے یا پھر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب فورم نہ مل رہا ہو۔


مشترکہ مفادات کی کونسل کا یہ فورم ایسا ہے کہ جس کی صدارت چونکہ خود وزیراعظم کررہے ہوتے ہیں اس لیے وہاں پر مسائل پہنچ کر ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکے جاسکتے بلکہ ان کو کسی نہ کسی منطقی انجام تک پہنچانا ہی پڑتا ہے اور اسی وجہ سے تحریک انصاف کی کیپٹن شپ میں کام کرنے والی خیبرپختونخوا کی حکومت بجلی منافع اور صوبہ کے حصہ کے استعمال شدہ پانی جیسے مسائل کو مشترکہ مفادات کی کونسل ہی میں لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے حوالے سے تیاریاں جاری ہیں اور کئی تجاویز بھی تیار کی جارہی ہیں۔

تاہم ان تجاویز کو سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت کے سامنے پیش کرنے اور ان کی آراء کو شامل کرنے کے بعد ہی مشترکہ مفادات کی کونسل اور دیگر فورمز تک لے جایا جائے گا کیونکہ موجودہ صوبائی حکومت ان معاملات کو حتمی شکل دینا چاہے گی جو گزشتہ حکومت یوسف رضاگیلانی کے ساتھ اچھے تعلقات میں بگاڑ کے خدشات اور راجہ پرویز اشرف کو ''تھوڑا وقت دینے''کی پالیسی پر گامزن ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکی تاہم موجودہ حکومت ایسا کوئی رسک نہیں لے گی ۔

موجودہ حکومت کے پہلے بجٹ سے کوئی بڑی امید باندھنا اس لیے عبث تھی کہ حکومت سنبھالتے ہی چار جماعتوں پر مشتمل حکومت کوئی ایسا بجٹ نہیں دے سکتی تھی کہ جس سے بڑی تبدیلی آئے اور جو بجٹ پیش کیا گیا اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان حالات میں ایسا بجٹ ہی پیش کیا جاسکتا تھا ۔

جس میں کئی سکیمیں اور منصوبے گزشتہ حکومت کے شروع کردہ ہیں، تاہم کچھ نئے منصوبے بھی شامل کیے گئے ہیں ۔ اس بجٹ کے حوالے سے دو اہم پیش رفت یہ ہیں کہ ایک جانب صوبہ نے جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی کا بیڑا خود اٹھالیا ہے اور دوسری جانب صوبہ کے انفراسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان اور دیگر ممالک کو لائے اور لے جانے والے سامان پر ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے ،مذکورہ تجویز کسی نہ کسی صورت میں کافی عرصہ سے گردش کررہی تھی تاہم اس کو وہ شکل نہیں مل پارہی تھی جو اب موجودہ حکومت نے دی تھی کیونکہ گزشتہ حکومت بھی افغانستان کے حوالے سے آمدورفت سے صوبہ کے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے وصولی کرنے کی خواہش مند تھی۔

تاہم وہ اس معاملہ میں مرکز کی جانب دیکھ رہی تھی، البتہ ان کی سوئی نیٹو سپلائی پر اٹکی ہوئی تھی تاہم موجودہ حکومت نے نیٹو کا معاملہ الگ رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور امپورٹ ایکسپورٹ کے دیگر معاملات پر اس ٹیکس کا نفاذ کردیا ہے جس سے یقینی طور پر صوبہ کی آمدن میں اضافہ ہوگا اور ایک مرتبہ یہ ٹیکس عائد ہوجانے کے بعد آنے والی حکومتوں کے لیے راستہ کھل جائے گا جو اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے وسائل کو بڑھا سکیں گی کیونکہ اب بھی صوبہ کو اپنے بجٹ کی تیاری کے سلسلے میں 90 فیصد وسائل کے لیے مرکز ہی کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور صوبہ اپنے پاؤں پر تبھی کھڑا ہوپائے گا کہ جب معاشی طور پر خود کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرے گا۔

تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو زکوٰۃ وعشر کے ساتھ مذہبی امور،اوقاف اور حج کے محکمے دیتے ہوئے مذہبی معاملات سارے کے سارے جماعت اسلامی کے حوالے تو کردیئے ہیں اور ان سے سماجی بہبود کا محکمہ لے کر اپنی ایک خاتون رکن کو مشیروں یا معاونین میں ایڈجیسٹ کرنے کی راہ بھی ہموار کردی ہے تاہم ابھی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان ایک اور پھڈا پڑنے کا امکان ہے کیونکہ تحریک انصاف نے بلدیات جیسا اہم محکمہ اپنی اتحادی جماعت اسلامی کے حوالے تو کردیا ہے۔

تاہم وہ اس محکمہ سے ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز کو کاٹ کر انھیں محکمہ ہاؤسنگ کے ساتھ جوڑنے کی خواہاں ہے لیکن جماعت اسلامی اس کے لیے کسی بھی طور تیار نہیں ہے کیونکہ گزشتہ حکومت میں بھی یہ اتھارٹیز بلدیات ہی کے محکمہ کے پاس تھیں جنھیں اس وقت کے سینئر وزیر بشیر بلور سنبھالے ہوئے تھے اور اب جماعت اسلامی کے عنایت اللہ ان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اس لیے ابھی دونوں جماعتوں میں لے ،دے ہونے کا عمل مزید جاری رہے گا اورایسا ہی اختلاف بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے قبل اس نظام کی تیاری کے حوالے سے بھی ہوگا کیونکہ دونوں پارٹیوں میں اس حوالے سے اختلاف بہر کیف موجود ہے ۔
Load Next Story