عورتیں اور مقامی حکومتیں
ہر سطح پر شاید بیک وقت تبدیلی نہ آسکے مگر ہمیں عورتوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش توکرنا ہوگی۔
حکمرانی اور فیصلہ سازی کی کسی بھی سطح پر عورتوں کی کم نمایندگی کا نتیجہ جمہوری خسارے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، یہ بات بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ متنوع گروپس زیادہ بہتر فیصلے کرتے ہیں۔خاص طور پر مقامی سطح پر شہریوں کی نمایندگی جیسے اہم مسئلے کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر صحیح ہے۔
ہاؤسنگ ، سیکیورٹی ، ٹرانسپورٹ اور معیشت کے حوالے سے مقامی حکومتیں عورتوں اور مردوں کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے فیصلے کرتی ہیں۔ لوکل گورنمنٹ کے ایجنڈا، پائیدار ترقیاتی مقاصدSDGs اور عورتوں کے مسائل کو ترجیح دینے کے لیے مقامی فیصلہ سازی میں عورتوں کی مساوی نمایندگی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ سماج میں صنفی توازن پیدا کرنے کے لیے لوکل کونسلز میں صنفی توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔
مقامی حکومتوں میں عورتوں کی موجودگی کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے SDG کے اشاریہ 5.5.1 b جسے یو این ویمن نے تیار کیا ہے کے ذریعے دنیا بھر میں مقامی حکومتوں میں عورتوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے گا اور یوں ہمیں دنیا بھر میں عورتوں کی سیاسی شراکت کے بارے میں آگاہی ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم مقامی سطح پر عورتوں کو منتخب کرانے کی حکمت عملی تیارکریں ۔
2018ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی توجہ کا مرکز بھی صنفی مساوات کا حصول اور دیہی عورتوں اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا ہے۔اس کے لیے مختلف ادارے مہم چلا رہے ہیں اور سیاستدانوں، ماہرین اور ریسرچرز سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ مقامی حکومتوں میں عورتوں کی نمایندگی بڑھائی جا سکے۔عورتوں کی سیاسی شراکت میں رکاوٹوں کے باعث دنیا بھر میں پارلیمنٹس اور فیصلہ ساز اداروں میں عورتوں کی نمایندگی کم ہے اور عورتیں سماجی و سیاسی لحاظ سے پیچھے ہیں۔ 2005ء تک دنیا بھر میں پارلیمنٹس میں عورتوں کی نشستوں کی تعداد بمشکل سولہ فی صد تھی ۔
عورتوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عوامل سماجی واقتصادی ترقی کی سطح، جغرافیائی حالات ، ثقافت اور سیاسی نظام کی نوعیت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں ۔عورتیں خود بھی ایک جیسی نہیں ہیں ۔ان میں بھی طبقے، نسل، زبان، ثقافتی پس منظر اور تعلیم کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عورتوں کو الگ تھلگ کر کے معاشرے میں جمہوری اصولوںکو پروان چڑھانا مشکل ہے، اس سے اقتصادی ترقی میں رکاوٹ پڑتی ہے اور صنفی مساوات کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، اگر مردوں کی سیاسی عمل پر اجارہ داری رہے گی اور سماج پر اثر انداز ہونے والے قوانین بنانے کا حق ان ہی کے پاس رہے گا تو عورتوں اور مردوں کے مفادات میں کبھی توازن پیدا نہیں ہو پائے گا ۔
یہ بات ملینیم ڈیولپمنٹ گولز میں بھی کہی گئی تھی اور SDGs میں بھی اس پر زور دیا گیا ہے کہ فیصلہ سازی میں عورتوں کی مساوی شراکت ان کے سیاسی شراکت کے بنیادی حقوق کی خود مختاری کا حق کا حصہ ہے ، یہ صنفی مساوات اور عورتوں کی خود مختاری کا لازمی جزو ہے۔ترقیاتی ایجنڈا طے کرنے میں عورتوں کی سرگرم شراکت بہت ضروری ہے، لیکن جب عورتیں سیاست کے میدان میں قدم رکھتی ہیں تو انھیں پتا چلتا ہے کہ سیاسی ، عوامی ، ثقافتی اور سماجی ماحول ان کے لیے سازگار نہیں ۔ آپ کسی بھی علاقے کے سیاسی فیصلہ سازوں پر نظر ڈال لیں تو آپ جان لیں گے کہ آج بھی عورتوں کو کتنی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
عورتوں کی با مقصد سیاسی شراکت کو تین سطح پر دیکھنا ہوگا۔
٭ انفرادی سطح پر۔
٭ اداروں کی سطح پر۔
٭ سماجی و ثقافتی سطح پر۔
ہر سطح پر شاید بیک وقت تبدیلی نہ آسکے مگر ہمیں عورتوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش توکرنا ہوگی، رکاوٹوں کو دورکرنا ہو گا اور عورتوں کے لیے مواقعے پیدا کرنا ہوں گے۔اس کے لیے ریاست، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی کمیونٹی کو مل کے کام کرنا ہوگا ۔ قانون ساز ہوں ، ایکٹوسٹس ہوں، مذہبی یا روایتی رہنما ہوں یا گھر والے، سب ہی عورتوں کی سیاسی شراکت میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ امتیازی قوانین ، ثقافتی رکاوٹیں، تعلیم، صحت کی سہولتوں اور وسائل تک غیر مساوی رسائی نے دنیا بھر میں عورتوں کو سیاست کے میدان میں پیچھے رکھا ہے۔آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی میں اور سیاست میں عورتوں کی شرکت کے حق کو یقینی بنایا جائے اور انھیں سپورٹ کیا جائے۔ اس کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:
٭... عبوری طریقہ کار کے طور پر صنفی کوٹا متعارف کرایا جائے۔
٭... قدرتی یا انسانوں کی پیدا کردہ آفات ، تنازعات کی روک تھام اور قیام امن میں عورتوں کے حقوق، سیفٹی اور شراکت کو فروغ دیا جائے۔
٭... نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو بھی پسماندہ آبادی میں شمارکیا جائے۔
٭... صنفی حساسیت کی تربیت اور اور قیادت کی راہ ہموار کی جائے۔
٭... سرکاری اور نجی شعبوں میں لیڈرشپ، شہری امور اور فیصلہ سازی میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی شامل کیا جائے۔
٭... سیاسی ماحول کو امتیاز اور تشدد سے پاک رکھا جائے۔
٭... فیصلہ سازی میں عورتوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔
ملکی ترقی کے لیے مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کرنا ضروری ہے۔