رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہم جتنے قرضوں میں ڈوبتے جائیں گے اپنی آزادی اور خود مختاری پر سودا اور سمجھوتہ کرتے جائیں گے۔
گوکہ موجودہ حکومت نے اپنے بلند بانگ دعوؤں کے برعکس معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے دیگر ذرایع کی بجائے صرف سہل اور آسان واحد طریقہ کار یعنی امداد اور قرض لینے پر ہی اکتفا کیوں کیا ؟ یہ بات اُن پاکستانیوں کے لیے انتہائی دکھ کی ہے جو اِس حکومت کو مقابلے میں ایک خوددار اورغیرت مند حکومت سمجھ بیٹھے تھے ۔ پہلی حکومتیں تو قرض لیتے ہوئے کچھ نہ کچھ شرمندگی کا اظہار بھی کیا کرتی تھیں ، لیکن خانصاحب کی حکومت قرض لینے پر پھولے نہیں سما رہی۔
عالمی سامراجی قوتوں کے لیے پاکستان کو جو سی پیک منصوبے کی وجہ سے ایک زبردست معاشی قوت بننے جا رہا تھا اُسے پھر قرضوں اور امداد کے دلدل میں پھنسا اپنا مقصد حاصل کرنا ہی بڑی کامیابی ہے ۔ خانصاحب اگرغورکریں تو احساس ہوگا کہ ملک کو مزید قرضوں میں جکڑ دینا کوئی بڑی کامیابی نہیں کہ جس پر شادیانے بجائے جائیں ۔
ہم جتنے قرضوں میں ڈوبتے جائیں گے اپنی آزادی اور خود مختاری پر سودا اور سمجھوتہ کرتے جائیں گے، آج سے پہلے خود خان صاحب کا بھی یہی مؤقف تھا ۔ اور قوم نے بھی یہی سمجھ کر انھیں حکمرانی کے مینڈیٹ سے نوازا تھا کہ خان صاحب ماضی کے دوسرے حکمرانوں کے برعکس کوئی نئی سوچ اور نیا ویژن لے کراُسے ترقی وخوشحالی کے ساتھ ساتھ آزادی اور خود مختاری کی منزلوں پر پہنچائیں گے۔
ملکی خزانے کے خالی ہونے کا رونا تو برسر اقتدار آنیوالی ہماری ہر نئی حکومت ہی رویاکرتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا واویلا اور آہ و بکا اِس سے پہلے کسی اور حکومت نے نہیں مچایا تھا جب کہ ماضی کی کئی حکومتوں کو خزانے کے خالی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی گھمبیر مسائل کا بھی سامنا رہا ہے۔ 2013ء میں برسر اقتدار آنے والی نواز حکومت کو زرداری صاحب کی پانچ سالہ حکومت کے بعد جن مصائب اور مشکلات کا سامنا تھا ،اگر آج خان صاحب کو بھی وہ درپیش ہوتیں تو نجانے وہ کیا کر بیٹھتے ۔ ایک طرف سولہ سولہ گھنٹے ملک میں اندھیروں کا راج تھا ۔
کوئی صنعت اورکوئی کارخانہ اپنی پوری استطاعت کو بروئے کار لاہی نہیں پارہا تھا۔ دوسری طرف ملک بھر میں خود کش حملہ آوروں اوردہشتگردوں کا راج تھا ۔ ہزاروں لوگ مارے جا رہے تھے۔ کراچی شہر اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا تھا ۔ خان صاحب کو شکر کرنا چاہیے کہ انھیں حکمرانی کے لیے ایسے حالات نہیں ملے، وہ اگر میاں صاحب کو اُس تمام مشکلات سے نکل کر ملک کو خوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کا کریڈٹ نہیں دے سکتے توکم ازکم دبے الفاظ میں اُس کااعتراف تو کریں ۔ یہ بجلی کا بحران کوئی ایسے ہی مفت میں حل نہیں ہوگیا ۔ توانائی کے بحران کے حل کے لیے جو کارخانے لگائے گئے اُن پر یقینا کوئی رقم خرچ ہوئی ہوگی ۔
اِس کے علاوہ ملک بھر میں سڑکوں اور شاہراہوں کی نئی تعمیر اور نئے انفرا اسٹرکچرکا قیام کوئی ایسے ہی کسی کی پھونک مارنے سے نہیں ممکن ہو پایا ہے ۔ خود خان صاحب کے اپنے صوبے''کے پی کے'' میں میٹرو بس منصوبے کا جو حال ہے وہ ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اِس کے علاوہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشتگردی کے آسیب سے نمٹنے کے لیے سابقہ نواز حکومت کو ضرب عضب آپریشن کے لیے بھی اربوں روپے خرچ کرنا پڑے تھے، اگر دیانتداری سے اِن رقوم کا آڈٹ کرایا جائے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ۔
حکمرانی کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔الزام تراشی او ر دشنام طرازی کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔کسی انسان کی قابلیت اور لیاقت کاپتہ اُسی وقت چلتا ہے جب اُسے پاکستان جیسے مشکل ترین ملک کی حکمرانی سونپ دی جائے۔ خان صاحب کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے ۔ اِس سے پہلے تو وہ اپوزیشن، اپوزیشن والا کھیل ہی کھیل رہے تھے۔ اپنی بائیس سالہ سیاست کو جسے وہ فخروغرورکے ساتھ ایک زبردست جدوجہد کا نام دیا کرتے ہیں وہ ساری کی ساری اپوزیشن والی سیاست پر ہی مبنی ہے۔کسی شخص کی دیانتداری اور پاکبازی کے سارے دعوؤں کی حقیقت تب ہی کھل کر سامنے آتی ہے جب اُسے اقتدار و اختیار کے منصب پر فائزکردیا جائے۔ اب اُس کے پاس کام نہ کرنے کا کوئی معقول بہانہ نہیں ہوتا۔
خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اب حکمراں بن چکے ہیں ۔ اُن کی سیاست ابھی تک ڈی چوک کے دھرنے سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ وہ دھمکیوں اور بڑھکوں کی سیاست سے خود کو ابھی تک باہر نہیں نکال پائے ہیں۔انھیں ابھی تک یہ پتہ نہیں ہے کہ حکمرانوں کا اصل کام کیا ہوا کرتا ہے۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ اب ایک ریاست کے وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ دنیا اُن کے اِس خطاب کو براہ راست دیکھ بھی رہی ہے اور سن بھی رہی ہے۔ یہ اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کا ٹاسک اب انھیں کسی اورکو دے دینا چاہیے۔
خان صاحب جب ملکی قرضوں سے متعلق اعداد و شمار قوم کے سامنے رکھتے ہیں تواُس میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے انھیں انتہائی گھمبیر اور خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں کہ فلاں دور میں ہمارے ملک پر اتنے ارب ڈالرزکا قرضہ تھا اور آج اتنے ہزار ارب کا ہوگیا، لیکن وہ اصل حقائق سے نظریں چرا کر قوم کے سامنے ایک غلط اورمبہم تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سترکی دہائی میں روزمرہ کی اشیاء کس دام ملا کرتی تھیں اور آج اُن کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہیں ۔ اُن دنوں سونا 175روپے تولہ ملاکرتا تھا آج وہی ایک تولہ سونا تقریبا 60000 ہزار روپے کا ہوچکا ہے۔
ایک ڈالر دو ڈھائی روپے کا ہواکرتا تھا آج 2018ء میں خان صاحب کے برسراقتدار آجانے کے بعد وہ 134روپے کا ہوچکا ہے۔اسی تناسب سے ہر چیز آج دنیا بھر میں مہنگی ہوچکی ہے۔ ماضی میں اگر ہماری حکومتوں نے قرضے لیے تو اُس وقت کی اپوزیشن بھی یہی شور مچایا کرتی تھی، لیکن آج خان صاحب قرضوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اگر دیکھاجائے تو بالواسطہ طور پر ماضی کی حکومتوں کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں۔
خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا سب سے بڑا ڈیم جسے ہم تربیلا ڈیم کے نام سے جانتے ہیں 1976ء میں مکمل ہوا تو اُس کی تعمیر پر خرچ ہونے والی ساری لاگت تقریباً1.5ارب ڈالر بنی تھی۔ کیا ہم آج اتنی رقم میں کوئی ایک چھوٹا سا ڈیم بھی بناسکتے ہیں، ہرگز نہیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ 1970ء میں ہمارے ملک پر غیرملکی قرضے 6 ارب ڈالر تھے اور جو آج بڑھ کر 30ہزار ارب ڈالرز ہوچکے ہیں حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
خان صاحب نے تو لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی باتیں کی تھیں ۔کسی سے بھیک نہ مانگنے کے دعوے کیے تھے۔ اقتدار ملتے ہی سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔آج وہ ہمارے لوگوں کو یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ اِس ملک میں پیدا ہونے والا ہر نیا بچہ اپنی پیدائش کے پہلے دن ہی سے کتنے ڈالر کا مقروض ہے۔قوم اب یہ سوچ کرخوفزدہ ہے کہ جب یہ حکمراں اپنے پانچ سال پورے کرکے جائیں گے تونجانے اورکتنے ہزار ارب ڈالرزکاقرضہ اگلی حکومت کے سر پر چھوڑ کرجائیں گے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
عالمی سامراجی قوتوں کے لیے پاکستان کو جو سی پیک منصوبے کی وجہ سے ایک زبردست معاشی قوت بننے جا رہا تھا اُسے پھر قرضوں اور امداد کے دلدل میں پھنسا اپنا مقصد حاصل کرنا ہی بڑی کامیابی ہے ۔ خانصاحب اگرغورکریں تو احساس ہوگا کہ ملک کو مزید قرضوں میں جکڑ دینا کوئی بڑی کامیابی نہیں کہ جس پر شادیانے بجائے جائیں ۔
ہم جتنے قرضوں میں ڈوبتے جائیں گے اپنی آزادی اور خود مختاری پر سودا اور سمجھوتہ کرتے جائیں گے، آج سے پہلے خود خان صاحب کا بھی یہی مؤقف تھا ۔ اور قوم نے بھی یہی سمجھ کر انھیں حکمرانی کے مینڈیٹ سے نوازا تھا کہ خان صاحب ماضی کے دوسرے حکمرانوں کے برعکس کوئی نئی سوچ اور نیا ویژن لے کراُسے ترقی وخوشحالی کے ساتھ ساتھ آزادی اور خود مختاری کی منزلوں پر پہنچائیں گے۔
ملکی خزانے کے خالی ہونے کا رونا تو برسر اقتدار آنیوالی ہماری ہر نئی حکومت ہی رویاکرتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا واویلا اور آہ و بکا اِس سے پہلے کسی اور حکومت نے نہیں مچایا تھا جب کہ ماضی کی کئی حکومتوں کو خزانے کے خالی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی گھمبیر مسائل کا بھی سامنا رہا ہے۔ 2013ء میں برسر اقتدار آنے والی نواز حکومت کو زرداری صاحب کی پانچ سالہ حکومت کے بعد جن مصائب اور مشکلات کا سامنا تھا ،اگر آج خان صاحب کو بھی وہ درپیش ہوتیں تو نجانے وہ کیا کر بیٹھتے ۔ ایک طرف سولہ سولہ گھنٹے ملک میں اندھیروں کا راج تھا ۔
کوئی صنعت اورکوئی کارخانہ اپنی پوری استطاعت کو بروئے کار لاہی نہیں پارہا تھا۔ دوسری طرف ملک بھر میں خود کش حملہ آوروں اوردہشتگردوں کا راج تھا ۔ ہزاروں لوگ مارے جا رہے تھے۔ کراچی شہر اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا تھا ۔ خان صاحب کو شکر کرنا چاہیے کہ انھیں حکمرانی کے لیے ایسے حالات نہیں ملے، وہ اگر میاں صاحب کو اُس تمام مشکلات سے نکل کر ملک کو خوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کا کریڈٹ نہیں دے سکتے توکم ازکم دبے الفاظ میں اُس کااعتراف تو کریں ۔ یہ بجلی کا بحران کوئی ایسے ہی مفت میں حل نہیں ہوگیا ۔ توانائی کے بحران کے حل کے لیے جو کارخانے لگائے گئے اُن پر یقینا کوئی رقم خرچ ہوئی ہوگی ۔
اِس کے علاوہ ملک بھر میں سڑکوں اور شاہراہوں کی نئی تعمیر اور نئے انفرا اسٹرکچرکا قیام کوئی ایسے ہی کسی کی پھونک مارنے سے نہیں ممکن ہو پایا ہے ۔ خود خان صاحب کے اپنے صوبے''کے پی کے'' میں میٹرو بس منصوبے کا جو حال ہے وہ ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اِس کے علاوہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشتگردی کے آسیب سے نمٹنے کے لیے سابقہ نواز حکومت کو ضرب عضب آپریشن کے لیے بھی اربوں روپے خرچ کرنا پڑے تھے، اگر دیانتداری سے اِن رقوم کا آڈٹ کرایا جائے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ۔
حکمرانی کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔الزام تراشی او ر دشنام طرازی کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔کسی انسان کی قابلیت اور لیاقت کاپتہ اُسی وقت چلتا ہے جب اُسے پاکستان جیسے مشکل ترین ملک کی حکمرانی سونپ دی جائے۔ خان صاحب کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے ۔ اِس سے پہلے تو وہ اپوزیشن، اپوزیشن والا کھیل ہی کھیل رہے تھے۔ اپنی بائیس سالہ سیاست کو جسے وہ فخروغرورکے ساتھ ایک زبردست جدوجہد کا نام دیا کرتے ہیں وہ ساری کی ساری اپوزیشن والی سیاست پر ہی مبنی ہے۔کسی شخص کی دیانتداری اور پاکبازی کے سارے دعوؤں کی حقیقت تب ہی کھل کر سامنے آتی ہے جب اُسے اقتدار و اختیار کے منصب پر فائزکردیا جائے۔ اب اُس کے پاس کام نہ کرنے کا کوئی معقول بہانہ نہیں ہوتا۔
خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اب حکمراں بن چکے ہیں ۔ اُن کی سیاست ابھی تک ڈی چوک کے دھرنے سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ وہ دھمکیوں اور بڑھکوں کی سیاست سے خود کو ابھی تک باہر نہیں نکال پائے ہیں۔انھیں ابھی تک یہ پتہ نہیں ہے کہ حکمرانوں کا اصل کام کیا ہوا کرتا ہے۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ اب ایک ریاست کے وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ دنیا اُن کے اِس خطاب کو براہ راست دیکھ بھی رہی ہے اور سن بھی رہی ہے۔ یہ اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کا ٹاسک اب انھیں کسی اورکو دے دینا چاہیے۔
خان صاحب جب ملکی قرضوں سے متعلق اعداد و شمار قوم کے سامنے رکھتے ہیں تواُس میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے انھیں انتہائی گھمبیر اور خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں کہ فلاں دور میں ہمارے ملک پر اتنے ارب ڈالرزکا قرضہ تھا اور آج اتنے ہزار ارب کا ہوگیا، لیکن وہ اصل حقائق سے نظریں چرا کر قوم کے سامنے ایک غلط اورمبہم تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سترکی دہائی میں روزمرہ کی اشیاء کس دام ملا کرتی تھیں اور آج اُن کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہیں ۔ اُن دنوں سونا 175روپے تولہ ملاکرتا تھا آج وہی ایک تولہ سونا تقریبا 60000 ہزار روپے کا ہوچکا ہے۔
ایک ڈالر دو ڈھائی روپے کا ہواکرتا تھا آج 2018ء میں خان صاحب کے برسراقتدار آجانے کے بعد وہ 134روپے کا ہوچکا ہے۔اسی تناسب سے ہر چیز آج دنیا بھر میں مہنگی ہوچکی ہے۔ ماضی میں اگر ہماری حکومتوں نے قرضے لیے تو اُس وقت کی اپوزیشن بھی یہی شور مچایا کرتی تھی، لیکن آج خان صاحب قرضوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اگر دیکھاجائے تو بالواسطہ طور پر ماضی کی حکومتوں کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں۔
خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا سب سے بڑا ڈیم جسے ہم تربیلا ڈیم کے نام سے جانتے ہیں 1976ء میں مکمل ہوا تو اُس کی تعمیر پر خرچ ہونے والی ساری لاگت تقریباً1.5ارب ڈالر بنی تھی۔ کیا ہم آج اتنی رقم میں کوئی ایک چھوٹا سا ڈیم بھی بناسکتے ہیں، ہرگز نہیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ 1970ء میں ہمارے ملک پر غیرملکی قرضے 6 ارب ڈالر تھے اور جو آج بڑھ کر 30ہزار ارب ڈالرز ہوچکے ہیں حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
خان صاحب نے تو لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی باتیں کی تھیں ۔کسی سے بھیک نہ مانگنے کے دعوے کیے تھے۔ اقتدار ملتے ہی سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔آج وہ ہمارے لوگوں کو یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ اِس ملک میں پیدا ہونے والا ہر نیا بچہ اپنی پیدائش کے پہلے دن ہی سے کتنے ڈالر کا مقروض ہے۔قوم اب یہ سوچ کرخوفزدہ ہے کہ جب یہ حکمراں اپنے پانچ سال پورے کرکے جائیں گے تونجانے اورکتنے ہزار ارب ڈالرزکاقرضہ اگلی حکومت کے سر پر چھوڑ کرجائیں گے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن