ہر شاخ پہ چوہا اور چوہوں کے بل 

آج کل ہماری تحقیق کا پراجیکٹ ایک ’’کھیت‘‘ پر ہے کہ پانی تو اس کے اندر جا رہا ہے لیکن فصل پھر بھی سوکھ رہی ہے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq October 31, 2018
[email protected]

یہ کبھی کبھی جو ہم پر محقق ہونے کا دورہ پڑ جاتا ہے، اصل میں یہی ہمارا اصل کام اور مزاج اور کوالی فیکشن ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارا مزاج ابتدا ہی سے ''محققانہ'' تھا۔ لیکن یہ کالم والم قلم ولم اور شاعری واعری تو ہم مجبوراً کرتے ہیں جو ایک طرح کی کاشتکاری ہے۔

کاغذ کے کھیت میں قلم کا ہل چلانا، پھول بونا اورکانٹے چننا۔ کیونکہ ہم رہنے والے اس دیار کے ہیں جہاں ستر سال سے ایک آندھی چل رہی ہے جس میں بڑ ے بڑے مرغولے، بگولے بھی اکثر اٹھتے رہتے ہیں، اس نے کسی کو بھی اپنی اصل جگہ پر نہیں چھوڑا ہے ۔لوہار سنار کا کام کر رہا ترکھان لوہا کوٹتا ہے، جلاہا لکڑی تراشتا ہے، موچی جوتوں کے بجائے ٹوپیاں سیتا ہے، کسان صنعت کار بنا ہوا ہے، صنعتکار رہنما بن رہا ہے، رہنما چوری کر رہا ہے، چور تھانیدار بنا ہوا ہے اور تھانیدار جرائم کرنے پر مجبور ہے۔

پہلے زمانوں میں تو ہر شاخ پر صرف اُلو بیٹھتے تھے جو کم از کم اُلو کے پٹھے اور پرندے تو ہوتے تھے، آج کل ہر شاخ پر چوہے بیٹھے ہوئے ہیں اور اسی شاخ کو کتر رہے ہیں جس پر بیٹھے ہیں ۔ چوہے بلیوں کا شکار کرتے، بلیاں کتوں پر جھپٹ رہی ہیں اورکتے انسان بنے ہوئے ہیں ،گھوڑے کے آگے گوشت کا ڈھیر ہے اور شیر کے آگے گھاس ڈالی گئی ہے۔ گدھا گوشت بنا ہوا ہے، بیوی شوہر اور شوہر بیوی کا شوفر بن چکا ہے، ساس بہو ہو گئی اور بہو نے ساس کا چلن اپنا لیا ہے، جو تخت کے قابل تھے وہ '' تختے '' پر ہیں اور جنھیں تختے پر ہونا چاہیے وہ تخت پر براجمان ہے۔

ایسے میں ''کون'' یا کیا اپنی اصل جگہ پر رہ سکتا ہے، بے شک یہ مٹی ذرا نم ہو تو بڑی زرخیز ہے لیکن یہ بات ساقی سے کہی گئی تھی اور ساقی نے ''ذرا نم'' کے بجائے پوری مشک یا مٹکا انڈیل دیا ہے جس سے سارا کھیت زرخیز ہونے کے بجائے ''کیچڑ خیز'' ہو گیا، جس میں ہر کوئی اپنی جگہ پھسل کر کسی اور جگہ پہنچ جاتا ہے۔ سو ہم بھی اگرچہ مزاج لڑکپن سے ''محققانہ'' رکھتے تھے لیکن آج کل احمقانہ کام میں لگے ہوئے ہیں، یہ احمقانہ کام نہیں کہ تو ''مرے ہوئوں'' کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں یا جان بوجھ کر جھوٹ موٹ کے سوے ہوئوں کو ۔ نہ جانے والوں کو پیٹھ پر لاد کر چلانے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں اور مسجد میں نماز پڑھنے والوں کو نماز کی تلقین کر رہے ہیں۔ خود کلمہ نہیں آتا لیکن دوسروں کو کلمہ پڑھا رہے ہیں۔

پانی بلو بلو کر مکھن کی توقع کر رہے، کریلے کو شربت ڈال ڈال کر میٹھا بناتے رہتے ہیں۔ خیر وہ تو ہوا چلی ہے اور اس میں بگولے، مرغولے اور بونڈر اب بھی چل رہے ہیں جس کا روکنا ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ لیکن اپنے اوپر تو ہمیں تھوڑا بہت اختیار ہے یعنی۔

ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

ہمیں یاد ہے جب چشم گل چشم عرف سوان فلو عرف قہر خداوندی کو اپنی گونگی بہری بیوی بقول علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے بقول ''نعمت عظمیٰ'' کے کہنے پر اس کے چار پیشہ ور بھائیوں یعنی ''سالوں'' نے اپنے اپنے پیشے کا تختہ مشق بنایا۔ یعنی جو قصائی تھا اس نے اس کی ہڈیوں کو ٹھیک ٹھیک مقامات پر توڑا۔ نانبائی نے اسے آٹے کی طرح گوندھا، کرکٹر نے اس پر اپنی سنچری مکمل کی اور فٹ بالر نے پنلٹی کِک مار کر چار گول گئے تو اس کے بعد قہر خداوندی نے ''نعمت عظمیٰ'' کے سامنے اپنے سارے ہتھیار ڈال دیے لیکن جب وہ میکے چلی جاتی تھی تو اس کی قیمص اتار کر زمین پر بچھا دیتا پہلے ہر طرح کے کند ہتھیاروں سے اسے پٹتا پھر جب تھک جاتا ہے تو اس کے اوپر کود کود کر گویاں قمیص والی کو روند تا۔

کچھ ایسا ہی طریقہ ہم نے بھی ایجاد کیا ہوا ہے، مستند اور بڑے قسم کے تحقیقی پراجیکٹ تو کوئی ہمیں نہیں دیتا کہ ان کو سرکاری لوگوں کے ذمے لگا یا گیا ہے۔ جن کو اپنے آپ کی بھی خبر نہیں ہوتی ڈگری جغرافیے کی لیتے ہیں اورکام کسی ادبی محکمے یا ادارے میں کرتے ہیں ماہر تو جنگلات کے ہوتے ہیں لیکن کام کلچر یا تعلیم کے محکمے میں کرتے ہیں ہوتے ریاضی کے ماہر ہیں اور بھرتی محکمے جنگلات میں ہوتے ہیں۔

ہمیں یاد ہے ایک مرتبہ ''آلوئوں'' پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والا گندم کی جڑوں میں گندم تلاش کر رہا تھا تو گندم پر اتھارٹی صاحب آلوئوں کے پتوں میں گندے کے سٹے ڈھونڈ رہا تھا۔ دانتوں کے ڈاکٹر کو آنتوں کا علاج تو اکثر کرتے ہیں لیکن ہم نے گھنٹوں کے ماہر کو گردوں، ایڑھیوں کے ماہر کو نفسیات اور جگر کے ماہرین کو جلد کا علاج کرتے بھی دیکھا ہے۔ مطلب یہ کہ تحقیق کے اصل مقامات تک تو ہماری رسائی ہے نہیں اس لیے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ لے کر اپنی محققانہ طبیعت کی تسکین کرتے رہتے ہیں۔

آج کل ہماری تحقیق کا پراجیکٹ ایک ''کھیت'' پر ہے کہ پانی تو اس کے اندر جا رہا ہے لیکن فصل پھر بھی سوکھ رہی ہے۔آخر وہ اتنا ڈھیر سارا پانی جاتا کہاں ہے کہ اپنے جو اصل ''آبی وسائل'' ہیں جو عوام کا لانعام کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں، اس کا پانی بھی اس کھیت میں غائب ہو رہا ہے اور یہاں وہاں سے بھی ہم پانی لاکر اس کھیت میں چھوڑ تے ہیں لیکن اتنا پانی پی پی کر بھی کھیت کی فصل سوکھ رہی ہے جب کہ گھاس پھوس خوب پھل پھول رہی ہے۔

اس تحقیق نے ہمیں بہت پریشان کیا ہوا تھا۔ سوچا بھلے ہی ہم نے اکیڈمیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ڈگریاں لے رکھی ہوں لیکن کھیت کلیان کا معاملہ ہے اس لیے کسی کسان سے رجوع کرنا چاہیے۔ حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے بغیر ڈگریوں کے ہمیں اس کی وجوہات بتا دیں۔ کہ ایک تو اس کھیت میں دیکھو کہیں چوہوں کے بل ہوں گے جن سے پانی چپکے چپکے نکل کر کسی اور کھیت میں جا رہا ہو گا۔ اور دوسرے یہ ''فصل'' زمین کی سوتیلی اولاد ہوتی ہے جب کہ گھاس پھوس اس کی اپنی اولاد ہوتی ہے۔

وجہ تو اس نے بتا دی ہے، اب ہمیں پورے کھیت میں ادھر ادھر پھر کر چوہوں کے بل تلاش کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں