2013 کی حکومت کے پہلے سو دن
درست ہے کہ کسی بھی حکومت کے جمنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔شروع شروع میں چندغلطیاں بھی ہوتی ہیں۔
کہرام برپا کردیا گیا ہے۔ نکتہ وہی دیرینہ کہ ہمارے سوا حکومت کیسے اورکیونکرکسی اورسیاسی جماعت کے پاس چلی گئی۔عمران خان کے خلاف پنتیس برس سے سیکھا ہوا ہرمنفی حربہ استعمال کیاجارہاہے۔ضیاء الحق کے جانشین یقین ہی نہیں کررہے کہ واقعی ن لیگ کو شکست ہوئی ہے۔
عرصہ درازکے بعد پنجاب ووٹ کی طاقت سے مسلم لیگ کے ہاتھ سے نکل گیاہے۔لہٰذا اب صرف ایک ہی یکسوئی سے کام ہورہاہے،کس طرح عمران خان کوایک ناتجربہ کار، ناپختہ اورخام وزیراعظم ثابت کیاجائے۔اس کی ہربات پرتنقید اورہرکام کوادنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں سیاسی لوگ،اینکرز، لکھاری، دانشور اور پرانے وفادارافسر،یعنی تمام عناصرشامل ہیں۔
ہرایک کااپناغم ہے،اپنادکھ ہے۔کسی کو ناجائزرزق کی بندش کا سامنا ہے۔ کسی جغادری کواحتساب اورجیل نظرآرہی ہے۔ کوئی اپنی چھینی ہوئی مراعات کویادکرکے ٹسوے بہارہاہے ،توکوئی مالی بالائی نہ ملنے پرپریشان ہے۔ ہرطبقہ فکرکے لوگ جن کے مفادات پرزَد پہنچی ہے،واویلامچانے میں مصروف ہیں۔مگردلیل کی روشنی میں دیکھاجائے تومعاملہ بالکل برعکس ہے۔
درست ہے کہ کسی بھی حکومت کے جمنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔شروع شروع میں چندغلطیاں بھی ہوتی ہیں۔مگراس سے یہ کیسے تعین کرلیاجائے کہ پانچ برس کے لیے آئی ہوئی حکومت بالکل ناکام ہوچکی۔تحریک انصاف کے خلاف یہ کھیل بھرپورطریقے سے کھیلا جارہا ہے۔ مگر اب گردبیٹھ رہی ہے۔معاملات بہترہورہے ہیں۔ ضرورت تعصب کی عینک اُتارکرصورتحال کو جذباتیت کے بغیر دیکھنے کی ہے۔
پہلے سودنوں کی بات ہوجائے۔ویسے ابھی عمران خان کی حکومت کے پہلے سودن پورے نہیں ہوئے۔تقابلی جائزے کے لیے،2013کے الیکشن کے بعدنوازشریف اور شہبازشریف کی حکومت کے پہلے سودنوں کوپرکھنابے حد ضروری ہے۔دیکھناہوگا ۔لوگوں کی یاداشت کے لیے چند حقائق سامنے رکھنے ضروری ہیں۔
اس معاملہ میں PILDATکی رپورٹ کے چندمندرجات کودیکھنابے حدضروری ہے۔ قطعاًعرض نہیں کررہاکہ2013میں حکومت بنانے کے بعدن لیگ نے کچھ نہیں کیا۔گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنے الیکشن منشورکے مطابق ایک قدم بھی آگے کی طرف نہ اُٹھایاگیا۔ دہشت گردی کے متعلق ن لیگ کی پالیسی کیاتھی؟ سوائے زبانی جمع خرچ کے پہلے سودنوں میں محترم وزیراعظم نے اس عفریب سے نجات دلانے کے لیے ایک بھی مضبوط قدم نہیں اُٹھایا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نامعلوم دبائوکے تحت محترم نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی تجویزپیش کردی۔وہ دہشت گرد، جنہوں نے ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری مارڈالے، جنہوں نے ہماری فوج کے اَن گنت جوان شہید کر دیے۔ محترم وزیراعظم ان سے مذاکرات کرناچاہتے تھے۔ خیر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ جنرل راحیل شریف کے احکامات پرشروع کی گئی۔
بہرحال پہلے سودنوں میں ن لیگ کی حکومت کادہشت گردوں کے خاتمے کے متعلق کوئی جان داربیانیہ سامنے نہیں آیا۔ یادرہے کہ اس وقت دہشت گردی نے پوری قوم کوعذاب میں مبتلاکررکھاتھا۔پہلے سودنوں میں اس پرتوجہ نہ دینا ایک غلطی نہیں بلکہ ظلم تھا۔
کسی کی بات پریقین نہ کیجیے۔مگرپلڈاٹ کی رپورٹ کاتنقیدی جائزہ2013کے حالات کوسب کے سامنے کھول کررکھ دیتا ہے۔یہ نکتہ بھی درست ہے کہ زرداری صاحب کی حکومت نے پورے پانچ برس ملک کی قسمت سے وہ کھلواڑکیاتھاکہ واقعی ہمالیہ روپڑاتھا۔ نواز شریف کو حکومت مشکل حالات میں ملی تھی۔مگردیکھناتویہ ہے کہ انھوں نے خودکیا اہم کام سرانجام دیے۔ پوری الیکشن مہم میں دونوں بھائی اعلان کرتے رہے کہ ہم آتے ہی ملکی معیشت کے راہزنوں کابے لاگ احتساب کرینگے۔
مگر سچ یہ ہے کہ پہلے سودنوں میں احتساب تودورکی بات،چیئرمین نیب کا تقررتک نہیں کیاگیا۔اگرحکمران واقعی احتساب کرنے میں سنجیدہ ہوتے توکم ازکم ایک غیرمتنازعہ آدمی کوچیئرمین نیب ہی لگادیتے۔مگرایساکچھ نہیں ہوا۔کیا کوئی جواب دینا پسند کرے گا کہ الیکشن کے وعدوں کے مطابق سودنوں میں اتنی اہم پوسٹ پرکیوں تعیناتی نہیں کی گئی ۔ احتساب کو صرف ایک انتخابی نعرے کے طورپراستعمال کیا گیا۔ 2013 کے الیکشن کے بعد،محترم نوازشریف، پہلے سودنوں میں اپنی کابینہ کی تشکیل تک مکمل نہیںکرپائے تھے۔یہی عالم پنجاب میں تھا۔
حقیقی اَمریہی ہے کہ وفاقی اورصوبائی سطح پرکابینہ جو مشاورت کاسب سے اہم اور مقدس فورم ہوتاہے،اس کو قصداًنامکمل رہنے دیاگیا۔کابینہ کے متعلق کیاگریہ کرنا۔ پہلے سودنوں میں ن لیگ کی حکومت،پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیاں تک تشکیل نہ کر سکی تھی۔قانون کے اعتبارسے یہ کام وزیراعظم بننے کے بعدصرف اورصرف تیس دنوں میں مکمل کرناتھا۔جونیم دلانہ طریقے سے کمیٹیاں بنابھی دی گئیں۔انھیں آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
الیکشن کے دوران باربار کہا گیا کہ وہ ایسی شاندار ٹیکس اصلاحات لائی جائیں گی کہ غربت میں کمی ہوگی۔ امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں پرخرچ کیا جائیگا۔ مگراصلاحات تودورکی بات،پہلے سودنوں میں حکومت نے دکھاوے کے طورپربھی ٹیکس اصلاحات کانام نہیں لیا۔ عملی فلسفہ یہی تھاکہ الیکشن کے نعروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ توصرف لوگوں کوبیوقوف بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
محترم نوازشریف نے قومی اسمبلی کے فلورپر جنرل پرویزمشرف کوقانون کے کٹہرے میں لانے کاوعدہ کیا تھا۔ صاحبِ علم لوگوں کواس وقت بھی معلوم تھاکہ یہ نہیں ہوپائیگا۔ مگرجوکچھ ہوا،وہ تاریخ کاحصہ ہے۔ہاں ایک اوربات وزیراعظم ایک باربھی ایوان بالامیں جانے کی تکلیف نہ کرسکے۔
پہلے سودنوں میں وفاقی کابینہ کے کتنے اجلاس ہوئے؟اہم امورپرکتنی مشاورت ہوئی؟پلڈاٹ کی 2013کی رپورٹ میں درج ہے ۔ چارپانچ لوگ فیصلے کرتے تھے ۔ پارلیمنٹ،سینیٹ،اسٹینڈنگ کمیٹیاں اور کابینہ دکھاوا تھا ۔ مالی معاملات صرف اورصرف اسحاق ڈار کے ذریعے طے ہونے لگے۔
مالیاتی اُمورکوکس طرح آگے بڑھناہے۔ان میں شفافیت کیسے لانی ہے۔اس پر کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اسکاخمیازہ آج پوری قوم قرضوں کی شکل میں بھگت رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے وزیرخارجہ عہدہ اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا میاں صاحب کے چارسالہ دورمیں ہماراملک سفارتی تنہائی کاشکارہوگیا۔
ہاں،2013میں حکومت میں آنے کے بعد،ایک زبردست کام ضرورہوا۔آڈیٹرجنرل سے آڈٹ کرائے بغیر،بجلی کے کارخانوں کے مالکان کووہ گردشی قرضہ ادا کر دیا گیا،جو انھوں نے مانگاہی نہیں تھا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ ن لیگ نے اپنے پہلے سودنوں میں ایک بھی ایساجاندارفیصلہ نہیں کیا،جس سے ملک کی سمت درست ہوسکے۔المیہ یہ ہے کہ اب محترم نوازشریف،اسفندیارولی،فضل الرحمن اور دیگر سیاسی لیڈر ،عمران خان کے ان سودنوں پر تنقیدکررہے ہیں جوابھی پورے ہی نہیں ہوئے۔
مولانافضل الرحمن صاحب کاغصہ دیدنی ہے۔ان کے لیے صرف دعاہی کی جاسکتی ہے۔میراخیال ہے کہ انھیں بھی2013کی حکومت کے پہلے سودن مکمل طور پریادہوںگے۔ تحریک انصاف پر ضرور تنقیدہونی چاہیے مگرسودن توگزرنے دیجیے!
عرصہ درازکے بعد پنجاب ووٹ کی طاقت سے مسلم لیگ کے ہاتھ سے نکل گیاہے۔لہٰذا اب صرف ایک ہی یکسوئی سے کام ہورہاہے،کس طرح عمران خان کوایک ناتجربہ کار، ناپختہ اورخام وزیراعظم ثابت کیاجائے۔اس کی ہربات پرتنقید اورہرکام کوادنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں سیاسی لوگ،اینکرز، لکھاری، دانشور اور پرانے وفادارافسر،یعنی تمام عناصرشامل ہیں۔
ہرایک کااپناغم ہے،اپنادکھ ہے۔کسی کو ناجائزرزق کی بندش کا سامنا ہے۔ کسی جغادری کواحتساب اورجیل نظرآرہی ہے۔ کوئی اپنی چھینی ہوئی مراعات کویادکرکے ٹسوے بہارہاہے ،توکوئی مالی بالائی نہ ملنے پرپریشان ہے۔ ہرطبقہ فکرکے لوگ جن کے مفادات پرزَد پہنچی ہے،واویلامچانے میں مصروف ہیں۔مگردلیل کی روشنی میں دیکھاجائے تومعاملہ بالکل برعکس ہے۔
درست ہے کہ کسی بھی حکومت کے جمنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔شروع شروع میں چندغلطیاں بھی ہوتی ہیں۔مگراس سے یہ کیسے تعین کرلیاجائے کہ پانچ برس کے لیے آئی ہوئی حکومت بالکل ناکام ہوچکی۔تحریک انصاف کے خلاف یہ کھیل بھرپورطریقے سے کھیلا جارہا ہے۔ مگر اب گردبیٹھ رہی ہے۔معاملات بہترہورہے ہیں۔ ضرورت تعصب کی عینک اُتارکرصورتحال کو جذباتیت کے بغیر دیکھنے کی ہے۔
پہلے سودنوں کی بات ہوجائے۔ویسے ابھی عمران خان کی حکومت کے پہلے سودن پورے نہیں ہوئے۔تقابلی جائزے کے لیے،2013کے الیکشن کے بعدنوازشریف اور شہبازشریف کی حکومت کے پہلے سودنوں کوپرکھنابے حد ضروری ہے۔دیکھناہوگا ۔لوگوں کی یاداشت کے لیے چند حقائق سامنے رکھنے ضروری ہیں۔
اس معاملہ میں PILDATکی رپورٹ کے چندمندرجات کودیکھنابے حدضروری ہے۔ قطعاًعرض نہیں کررہاکہ2013میں حکومت بنانے کے بعدن لیگ نے کچھ نہیں کیا۔گزارش صرف اتنی ہے کہ اپنے الیکشن منشورکے مطابق ایک قدم بھی آگے کی طرف نہ اُٹھایاگیا۔ دہشت گردی کے متعلق ن لیگ کی پالیسی کیاتھی؟ سوائے زبانی جمع خرچ کے پہلے سودنوں میں محترم وزیراعظم نے اس عفریب سے نجات دلانے کے لیے ایک بھی مضبوط قدم نہیں اُٹھایا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نامعلوم دبائوکے تحت محترم نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی تجویزپیش کردی۔وہ دہشت گرد، جنہوں نے ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری مارڈالے، جنہوں نے ہماری فوج کے اَن گنت جوان شہید کر دیے۔ محترم وزیراعظم ان سے مذاکرات کرناچاہتے تھے۔ خیر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ جنرل راحیل شریف کے احکامات پرشروع کی گئی۔
بہرحال پہلے سودنوں میں ن لیگ کی حکومت کادہشت گردوں کے خاتمے کے متعلق کوئی جان داربیانیہ سامنے نہیں آیا۔ یادرہے کہ اس وقت دہشت گردی نے پوری قوم کوعذاب میں مبتلاکررکھاتھا۔پہلے سودنوں میں اس پرتوجہ نہ دینا ایک غلطی نہیں بلکہ ظلم تھا۔
کسی کی بات پریقین نہ کیجیے۔مگرپلڈاٹ کی رپورٹ کاتنقیدی جائزہ2013کے حالات کوسب کے سامنے کھول کررکھ دیتا ہے۔یہ نکتہ بھی درست ہے کہ زرداری صاحب کی حکومت نے پورے پانچ برس ملک کی قسمت سے وہ کھلواڑکیاتھاکہ واقعی ہمالیہ روپڑاتھا۔ نواز شریف کو حکومت مشکل حالات میں ملی تھی۔مگردیکھناتویہ ہے کہ انھوں نے خودکیا اہم کام سرانجام دیے۔ پوری الیکشن مہم میں دونوں بھائی اعلان کرتے رہے کہ ہم آتے ہی ملکی معیشت کے راہزنوں کابے لاگ احتساب کرینگے۔
مگر سچ یہ ہے کہ پہلے سودنوں میں احتساب تودورکی بات،چیئرمین نیب کا تقررتک نہیں کیاگیا۔اگرحکمران واقعی احتساب کرنے میں سنجیدہ ہوتے توکم ازکم ایک غیرمتنازعہ آدمی کوچیئرمین نیب ہی لگادیتے۔مگرایساکچھ نہیں ہوا۔کیا کوئی جواب دینا پسند کرے گا کہ الیکشن کے وعدوں کے مطابق سودنوں میں اتنی اہم پوسٹ پرکیوں تعیناتی نہیں کی گئی ۔ احتساب کو صرف ایک انتخابی نعرے کے طورپراستعمال کیا گیا۔ 2013 کے الیکشن کے بعد،محترم نوازشریف، پہلے سودنوں میں اپنی کابینہ کی تشکیل تک مکمل نہیںکرپائے تھے۔یہی عالم پنجاب میں تھا۔
حقیقی اَمریہی ہے کہ وفاقی اورصوبائی سطح پرکابینہ جو مشاورت کاسب سے اہم اور مقدس فورم ہوتاہے،اس کو قصداًنامکمل رہنے دیاگیا۔کابینہ کے متعلق کیاگریہ کرنا۔ پہلے سودنوں میں ن لیگ کی حکومت،پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیاں تک تشکیل نہ کر سکی تھی۔قانون کے اعتبارسے یہ کام وزیراعظم بننے کے بعدصرف اورصرف تیس دنوں میں مکمل کرناتھا۔جونیم دلانہ طریقے سے کمیٹیاں بنابھی دی گئیں۔انھیں آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
الیکشن کے دوران باربار کہا گیا کہ وہ ایسی شاندار ٹیکس اصلاحات لائی جائیں گی کہ غربت میں کمی ہوگی۔ امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں پرخرچ کیا جائیگا۔ مگراصلاحات تودورکی بات،پہلے سودنوں میں حکومت نے دکھاوے کے طورپربھی ٹیکس اصلاحات کانام نہیں لیا۔ عملی فلسفہ یہی تھاکہ الیکشن کے نعروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ توصرف لوگوں کوبیوقوف بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
محترم نوازشریف نے قومی اسمبلی کے فلورپر جنرل پرویزمشرف کوقانون کے کٹہرے میں لانے کاوعدہ کیا تھا۔ صاحبِ علم لوگوں کواس وقت بھی معلوم تھاکہ یہ نہیں ہوپائیگا۔ مگرجوکچھ ہوا،وہ تاریخ کاحصہ ہے۔ہاں ایک اوربات وزیراعظم ایک باربھی ایوان بالامیں جانے کی تکلیف نہ کرسکے۔
پہلے سودنوں میں وفاقی کابینہ کے کتنے اجلاس ہوئے؟اہم امورپرکتنی مشاورت ہوئی؟پلڈاٹ کی 2013کی رپورٹ میں درج ہے ۔ چارپانچ لوگ فیصلے کرتے تھے ۔ پارلیمنٹ،سینیٹ،اسٹینڈنگ کمیٹیاں اور کابینہ دکھاوا تھا ۔ مالی معاملات صرف اورصرف اسحاق ڈار کے ذریعے طے ہونے لگے۔
مالیاتی اُمورکوکس طرح آگے بڑھناہے۔ان میں شفافیت کیسے لانی ہے۔اس پر کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اسکاخمیازہ آج پوری قوم قرضوں کی شکل میں بھگت رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے وزیرخارجہ عہدہ اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا میاں صاحب کے چارسالہ دورمیں ہماراملک سفارتی تنہائی کاشکارہوگیا۔
ہاں،2013میں حکومت میں آنے کے بعد،ایک زبردست کام ضرورہوا۔آڈیٹرجنرل سے آڈٹ کرائے بغیر،بجلی کے کارخانوں کے مالکان کووہ گردشی قرضہ ادا کر دیا گیا،جو انھوں نے مانگاہی نہیں تھا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ ن لیگ نے اپنے پہلے سودنوں میں ایک بھی ایساجاندارفیصلہ نہیں کیا،جس سے ملک کی سمت درست ہوسکے۔المیہ یہ ہے کہ اب محترم نوازشریف،اسفندیارولی،فضل الرحمن اور دیگر سیاسی لیڈر ،عمران خان کے ان سودنوں پر تنقیدکررہے ہیں جوابھی پورے ہی نہیں ہوئے۔
مولانافضل الرحمن صاحب کاغصہ دیدنی ہے۔ان کے لیے صرف دعاہی کی جاسکتی ہے۔میراخیال ہے کہ انھیں بھی2013کی حکومت کے پہلے سودن مکمل طور پریادہوںگے۔ تحریک انصاف پر ضرور تنقیدہونی چاہیے مگرسودن توگزرنے دیجیے!