جھوٹوں کو گھرتک پہنچانا ہوگا  

کب تک تصدیق شدہ جھوٹوں کو ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا رہے گا؟


اکرام سہگل October 31, 2018

انگریزی میں، عدالت کے سامنے حلف یا قسم اٹھا کر، جھوٹی گواہی دینے کو"perjury" کہا جاتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں اس لفظ کے درج معانی کے مطابق اس سے مراد جانتے بوجھتے خلاف حقیقت حلفیہ بیان دینا ہے۔ اسی لغت میں اس لفظ کی وضاحت میں ''دروغ گوئی، کذب، جعل سازی، فریب دہی، بد دیانتی، دوغلے پن'' وغیرہ جیسے مفاہیم بھی شامل کیے گئے ہیں۔

قسمیہ جھوٹ بولنے والا ایک مجرم ہے۔ باقاعدہ حلف یا قسم اٹھا کر یا اس کے بغیر جھوٹ بولنا جنوبی ایشیا میں وقت گزاری کا ( اور کسی حد تک منافع بخش) پسندیدہ ترین مشغلہ بن چکا ہے، خاص طور پر پاکستان میں یہ ایک فن اور باقاعدہ پیشے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ عدالتوں میں چلیں جائیں، آپ کو وہاں بہ آسانی عینی شاہدین دست یاب ہوجائیں گے، اگر کسی کی خدمات حاصل کرنا مقصود ہوں تو ایسے ٹاؤٹ موجود ہیں جو عدالت کے سامنے حلف اٹھا کر جھوٹ بولنے کی باقاعدہ مہارت رکھتے ہیں۔

تعزیرات پاکستان کے تحت جھوٹی گواہی دینا یا جعلی ثبوت پیش کرنا قابل سزا جرم ہے ، اور اس کے ارتکاب کی صورت میں دس سال تک کی قید یا قید بامشقت اور جرمانے کی سزائیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم اس قانون کا استعمال شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے اور عدالت کو گمراہ کرنے والے جھوٹے گواہ اور جعل ساز گرفت میں نہیں آپاتے۔

روزنامہ ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں اگست 2018میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے ایک معاملے پر داخل کیے گئے جواب کے مطابق ''سندھ ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوںمیں گزشتہ تین برسوں میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193اور 196کے تحت جھوٹی گواہی کے جرم میں ایک بھی سزا نہیں ہوئی۔''

ترقی یافتہ ممالک میں جھوٹی گواہی کو انتہائی سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ انصاف کے بنیادی ترین تقاضے، سچ کی بازیافت میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس حوالے سے چند انتہائی بارسوخ اور معروف افراد کی مثالیں موجود ہیں۔ عدالت کے سامنے غلط بیانی یا جھوٹی گواہی کے جرم میں سزا پانے والوں میں معروف اولمپئین میرئیون جونز جیسے لوگ بھی ہیں اور اسی بنا پر ہونے والے مواخذے سے بچنے کے لیے صدر نکسن نے استعفیٰ دیا۔ اسی طرح رکن پارلیمنٹ اور معروف لکھاری جیفری آرچر نے اس جرم میں قید کی سزا بھگتی۔ کسی دوسرے کو جھوٹی گواہی پر آمادہ کرنا بھی جرم تصور ہوتا ہے۔

ناقابل یقین حد تک ، پاکستان میں ہر تفتیشی عمل، عدالتی کارروائی اور مصالحت میں بے دریغ جعل سازی ہوتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عدالت سے نااہل ہونے والوں کو بھی کذب بیانی کے جرم کی سزا نہیں ملتی؟ ازالہ حیثیت عرفی سے متعلق ہمارے قوانین کے غیر مؤثر ہونے کا سبب بھی یہی ہے اور اسی وجہ سے لوگ حقائق کی تصدیق کے بغیر ہی ہرزہ سرائی کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کسی کو بدنام کرنا بھی تو جھوٹی گواہی اور جعل سازی کے زمرے میں آتا ہے۔

فروری 2010میں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ''بنیادی اور واضح بات یہ ہے کہ جھوٹی گواہ دینے والا مجرم ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک بھی ہونا چاہیے۔ کئی ممالک میں اس جرم کی عبرتناک سزائیں دی جاتی ہیں، یہ اس قدر سخت سزائیں ہوتی ہیں کہ کسی اور کو عدالت کے روبرو جھوٹ بولنے کی جرات ہی نہ ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ فوجداری مقدمات میں جھوٹی گواہی دینے والے کو وہی سزا دینی چاہیے جو ملزم کو شواہد درست ہونے کی صورت میں مل سکتی تھی۔ اگر کسی کی جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی شخص کو پھانسی ہوسکتی ہو تو کیا ایسا جھوٹ بولنے والے یا جعل سازی کرنے والوں کو بھی سولی نہیں چڑھا دینا چاہیے؟''۔ یہ بھی کسی مذاق سے کم نہیں کہ ایف آئی اے کے برخلاف نیب کو جھوٹی گواہی دینے والے یا جعل ساز کے خلاف کارروائی کا قانونی اختیار حاصل نہیں۔

حلف اٹھا کر جھوٹ بولنے والوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوتے ہیں کہ وہ نڈر ہوکر جعلی دستاویزات تیار کروا لیتے ہیں، اپنی ضرورت کے مطابق دستاویزات میں ردّوبدل ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور اپنی سہولت کے مطابق شواہد کو مسخ کرنا بھی ان کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ ''سفید جھوٹ'' کے ذریعے حقائق کو مسخ کرنا معمول بن چکا ہے۔ عدالت کو شواہد مسخ کرکے گمراہ کرنے کے کسی بھی عمل میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ملوث ہوتے ہیں، ایسے کسی اقدام میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو قید اور بھاری جرمانے کی سخت سزائیں ہونی چاہییں۔

اس کے ساتھ ہی وکلاء کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے مؤکل کے فراہم کردہ شواہد کی تسلی کے ساتھ جانچ پرکھ کریں اور صرف انھیں بچانے کے لیے عدالت میں جھوٹے ثبوت پیش نہ کریں۔ مثلاً کوئی بھی اکاؤنٹنگ فرم حسابات کی جانچ پڑتال کرکے بہ آسانہ رشوت ستانی کی نشان دہی کرسکتی ہے۔ احتساب کی گرفت سے فرار ہونے میں مدد فراہم کرنے والے قانونی مشیروں اور اکاؤنٹنگ فرمز کو ان لوگوں کی طرح بلیک لسٹ کردینا چاہیے، جنھیں قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے وہ ایسے کام کرتے ہیں۔

ہمارے کئی قانون ساز پارلیمنٹ تک پہنچنے اور ہماری تقدیر کے فیصلوں کا اختیار حاصل کرنے کے لیے جعلی کوائف کا استعمال کرتے ہیں۔ غیر قانونی اثاثے چھپانا اور ٹیکس چوری وبائی مرض بن چکے ہیں۔ متعدد بار اثاثوں کی ظاہر کردہ تفصیلات غلط ثابت ہوتی رہی ہیں۔ آج ہمارا پورا معاشی نظام مطلوبہ حد تک ٹیکس جمع نہ ہونے کے باعث ہونے والے خسارے کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اثاثوں اور آمدن سے متعلق غلط تفصیلات ظاہر کرنا اکثر ممالک میں انتہائی سنگین جرم تصور ہوتا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں پر از خود جرمانے عائد ہوجاتے ہیں یا انھیں سزا ہوجاتی ہے۔ کئی سیاست دانوں، جاگیرداروں اور عام تنخواہ دار ملازمین کے ویلتھ ٹیکس اور انکم ٹیکس گوشواروں کا موازنہ کیا جائے تو شرم سے سر جھک جائیں۔

اگر حلف اٹھا کر بھی جھوٹی گواہی دینے والے جیل نہیں جاتے، تو کب تک تصدیق شدہ جھوٹوں کو ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا رہے گا؟ اس کی روک تھام کے لیے نیب کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، جن کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے اور جعل سازی کرنے والوں کو از خود سزااور جرمانے ہوجائیں، یہ قوانین کرپشن کے خاتمے کے اپنے مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے نیب کے معاون ثابت ہوں گے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں