کراچی میں بجلی کا بحران
کراچی میں بجلی کا مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے کہ حکومت بجلی کا نظام سنبھال لے۔
حسن امام صدیقی نے زندگی کا ایک بڑا حصہ کراچی کے شہریوں کی خدمت میں گزارا ۔ وہ محض بلدیہ کراچی کے افسر ہی نہیں تھے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ صحافتی تنظیمیں جب کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے شفاف انتخابات کرانے کا فیصلہ کرتی ہیں تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔
حسن امام ، پی ای سی ایچ ایس، سینٹرل کمرشل ایریا میں فلیٹ نمبر 653/C میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں۔یہ علاقے کراچی میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے کی چیرہ دستی کا شکار ہے۔ حسن امام نے ساری زندگی یوٹیلٹی بل ادا کیے ہیں اور ان بلوں کی ادائیگی کی مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی صد فی صد ہے۔ یوں یہ علاقہ لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہے مگر اس علاقے میں بجلی کا بند ہونا ایک معمول کی بات ہے۔
جب بھی بجلی کی فراہمی معطل ہوتی ہے تو ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے کہ مرمت کے کام کی بناء پر صبح 9:00 بجے سے شام 6:00 بجے تک بجلی معطل رہے گی۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ لوڈ مینیجمنٹ کی بناء پر سپلائی معطل ہے اور کبھی تکنیکی خرابی کا ذکر ہوتا ہے۔ 20 اکتوبر والے دن پی ای سی ایچ ایس علاقے سمیت شہر کے بیشتر علاقوں کی بجلی معطل ہوگئی۔ یہ معاملہ شام 5:00 بجے تک رہا۔ کہا گیا کہ نیشنل گرڈ سسٹم میں خرابی کی بناء پر بجلی کی سپلائی معطل ہوئی ہے۔ خوش قسمتی سے شام کو بجلی آ گئی۔
صدیقی صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ کچھ دیرکے لیے اپنے ایک عزیز سے ملنے گئے۔ جب وہ واپس گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ ایئرکنڈیشن، ریفریجریٹر اور تمام بجلی کے آلات جل گئے ہیں۔ یہ سب کچھ بجلی کی لائنوں میں ہائی وولٹیج کی بناء پر ہوا۔ پڑوسیوںسے پتہ چلا کہ ہرگھر کی یہی صورتحال ہے۔ ہر آدمی اچانک لاکھوں روپے مالیت کے بجلی کے آلات سے محروم ہوگیا۔ صدیقی صاحب نے کے الیکٹرک کے شکایت نمبر پر رابطہ کیا اور ٹیلیفون کال وصول کرنے والے کو نقصان سے آگاہ کیا۔ انھوں نے ہائی وولٹیج کی شکایت درج کرا رکھی ہے ۔
حسن امام صدیقی ہی واحد شہری نہیں بلکہ کراچی کے کروڑوں صارفین کو بجلی کے نظام سے مایوسی اور شکایات ہیں۔ جب سے کے الیکٹرک نے نظام سنبھالا ہے،کراچی شہر میں بجلی کے بحران میں اضافہ ہوا ہے۔ جیسے ہی درجہ حرارت بڑھتا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی میں تعطل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ امراء کے علاقوں میں اور متوسط طبقے کی بستیوں میں یہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی ۔ غریب طبقے کی بستیوں میں 10سے 12 گھنٹے تک بجلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ان بستیوں میں 12 گھنٹوں سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
جب سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں احتجاج کرتی ہیں تو ذرایع ابلاغ کو اس موضوع کی حساسیت کا احساس ہوتا ہے تو وفاقی حکومت مداخلت کرتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انتظامیہ کے فیصلے کے تحت کم بجلی پیدا کی جا رہی ہے کیونکہ کے الیکٹرک والے بجلی کے جنریٹر چلانے والے فرنس آئل کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔ سال میں ایک دو مہینے ایسے ہوتے ہیں جب کراچی شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہوتا ہے توکراچی والوں پر قیامت آتی ہے۔ امراء، متوسط طبقے، نچلے متوسط طبقہ کے علاقے اور کچی آبادیوں میں بجلی نایاب ہوجاتی ہے۔ جب بار بار اس صورتحال کی وجہ معلوم کی جاتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ پورے شہر میں لوڈ شیڈنگ شروع کردی گئی ہے۔
خورشید تنویر ایک سینئر صحافی ہیں۔ کراچی کے نچلے متوسط طبقہ کی بستی کوثر ٹاؤن میں رہتے ہیں جو ملیر کھوکھرا پار سے متصل علاقہ ہے۔کوثر ٹاؤن کے مکین تمام یوٹیلٹی بل کی ادائیگی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یوں اس علاقے میں بلنگ کا تناسب 96 فی صد ہے۔ خورشید تنویر کہتے ہیں کہ کوثر ٹاؤن میں ہر موسم میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 10 گھنٹوں سے زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوثر ٹاؤن کے مکینوں کو اس کے مضافاتی علاقے کی بناء پر سزا دی جاتی ہے۔ اس علاقے کے مضافاتی علاقے میں بجلی کے بل ادا کرنے کی شرح کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کے الیکٹرک کے عملے کی ملی بھگت سے وہاں کنڈا سسٹم اب بھی موجود ہے جس کا خمیازہ پورے علاقے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ خورشید تنویرکا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک نے شہر کو طبقاتی طور پر تقسیم کردیا ہے۔ اس طبقاتی سسٹم کی سزا نچلے متوسط طبقے اور غریبوں کو دی جاتی ہے۔
حکومت کو بجلی کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے۔ یہ یوٹیلٹی سروس ہے، ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اس کو بجلی میسر آئے مگر حکومت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی کی تقسیم کا ایک جامع نظام قائم کرسکتی ہے۔ ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق بجلی مہیا ہوجائے۔ غریبوں کے علاقے میں ہر گھر میں اتنی بجلی دی جائے کہ دو کمروں میں بلب،پنکھے، ٹی وی، ریفریجریٹر اور پانی کی مشین چل سکے۔
ان آلات کے لیے محدود بجلی فراہم کی جائے اور ان علاقے کے مکینوں کی محدود آمدنی کے مطابق ہر ماہ مقررہ رقم وصول کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پری پیڈ میٹر مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان میٹروں کو متحرک کرنے کے لیے کارڈ آسانی سے دستیاب ہو۔ اسی طرح متوسط طبقے اور امراء کے علاقوں میں ان کی آمدنی کے تناسب سے بجلی فراہم کی جائے۔ حکومت بجلی کے غیر ضروری آلات پر ٹیکس بڑھا دے تاکہ لوگ غوروفکر کے بعد ان آلات کو خریدیں اور ان کو چلانے کے لیے زیادہ رقم ادا کریں۔
کے الیکٹرک کی کارکردگی امراء کے علاقوں میں بہتر ہے۔ ایسی ہی صورتحال متوسط طبقے کی بستیوں کی ہے۔ ان علاقوں میں کے الیکٹرک کا عملہ کسی خرابی کو دور کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے مگر اسی کمپنی کا نچلے متوسط طبقے اور کچی آبادیوں میں کارکردگی کا معیار انتہائی مایوس کن ہے۔ اس علاقے کے لوگ بجلی نہ آنے کی شکایات درج کراتے کراتے تھک جاتے ہیں مگر محکمے کی گاڑی نہیں آتی۔لیاری میں سال ہا سال سے بدترین لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ کراچی کی مضافاتی بستیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ بجلی کی چوری اورکنڈا سسٹم کی ذمے داری کے الیکٹرک کے عملے پر عائد ہوتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں مافیا اتنی طاقتور ہے کہ کے الیکٹرک کا عملہ کارروائی کرتے خوف کا شکار ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے عملے کو تحفظ فراہم نہیں کرتے، یوں اس کی سزا ان شہریوں کو جھیلنی پڑتی ہے جو باقاعدہ سے بل ادا کرتے ہیں۔ الیکٹریکل انجنیئر رشید ابراہیم اس صورتحال کے بارے میں کہتے ہیں کہ بجلی بنیادی ضرورت ہے، اس کو مارکیٹ سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کے باوجود کراچی کے شہریوں کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کا معاملہ ہنوز حل نہ ہوسکا۔ اب بجلی کے نرخ مسلسل بڑھنے کے باوجود شہری بجلی سے محروم ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد بجلی کے نرخ آسمان تک پہنچ جائیں گے۔
کراچی میں بجلی کا مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے کہ حکومت بجلی کا نظام سنبھال لے۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ اس کی فراہمی اور بجلی کی مقدار اور اس کے نرخ کے بارے میں ایک جدید پالیسی تیار کی جائے۔ شاید اسی طرح حسن امام صدیقی اور خورشید تنویر جیسے شہریوں کی مشکلات حل ہوسکیں۔