شبنم نے مسلسل 27 برس بطور ہیروئن فلمی دنیا پر راج کیا
62ء میں فلم ’’چندا‘‘ میں معاون ہیروئن اور 63ء میں ’’تلاش‘‘کی ہیروئن بنیں
پاکستان کی ساٹھ سالہ فلمی تاریخ میں جس اداکارہ نے سب سے زیادہ عرصہ تک مسلسل ہیروئن آنے کا اعزازحاصل کیا وہ نام شبنم کا ہے جو پاکستان کی اردو فلموں کی سب سے کامیاب ترین فلمی ہیروئن ثابت ہوئیں۔
1962ء میں ہدایتکار احتشام کی فلم ''چندا'' میں معاون ہیروئن کا رول کرنے والی ''جھرنا'' شبنم کے نام سے بنگالی فلم سے فلمی کیرئیر کا آغاز کرچکی تھی، پہلی بار 1963ء میں ڈائریکٹر مستفیض کی اردو فلم ''تلاش'' میں رحمان کے مقابل مرکزی کردار ادا کیا تھا اور مسلسل 27 سال تک 1989ء میں ہدایتکارہ شمیم آراء کی اردو فلم ''لیڈی کمانڈو'' تک ہیروئن کے طور پر جلوہ گر ہوتی رہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد شبنم اور رحمان پاکستان ہی رہے اور مرکزی کرداروں میں دو فلموں ''چاہت'' اور ''دوساتھی'' میں کام کیا جن میں سے صرف ''چاہت '' کامیاب ہوسکی۔
ساٹھ کی دہائی میں شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش ڈھاکہ سے کراچی چلے آئے جہاں سب سے پہلے اداکار وفلمساز وحید مراد کی 1968ء میں فلم ''سمندر'' میں کام کیا۔ ابتدائی دور کی ڈیڑھ درجن فلموں میں صرف 1969ء ایک فلم ''عندلیب'' سپرہٹ ہوئی۔ اسی دور میں شبنم نے رانی کے مقابلے میں فلم ''شمع اور پروانہ'' 1970ء میں ثانوی رول قبول کیا جو اس کے 27سالہ کیرئیر کا واحد موقع تھا۔ اس دوران ان کی جوڑی وحید مراد کے ساتھ بنی جس کے ساتھ ''عندلیب'' ، ''جہاں تم وہاں ہم '' ، ''لاڈلا'' ، ''نصیب اپنا اپنا'' ، ''افشاں'' میں کام کیا لیکن 1972ء میں فلم ''بندگی'' کے بعد اپنے شوہر کے کہنے پر وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ۔چھ سال بعد وحیدمراد کے ساتھ ''سہیلی'' ، ''آواز'' ، ''نشانی'' اور ''پیاری'' جیسی فلموں میں کام کیا ۔
شبنم کو پہلی بڑی کامیابی اداکار وفلمساز اعجاز کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ''دوستی '' 1971ء سے ملی۔ 1973ء کی فلم ''انمول'' نے اسے سپراسٹار بنا دیا تھا جس میں پہلی بار شاہد شبنم کے ہیرو تھے۔ محمد علی کے ساتھ شبنم نے چالیس فلموں میں کام کیا تھا، اس جوڑی کی پہلی بڑی فلم ''میرے ہمسفر '' 1972ء تھی۔ لیکن شبنم کو جو مقبولیت ندیم کے ساتھ ملی وہ باکس آفس پر اردو فلموں کی کسی اور جوڑی کو نہ مل سکی۔ ان کی پہلی فلم ''تم میرے ہو'' 1968ء تھی لیکن ابتدائی دور کی کوئی بھی فلم قابل ذکر کامیابی سے محروم رہی تھی۔ 1974ء میں فلم ''دل لگی'' نے اس جوڑی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا ۔ شبنم اور ندیم کی سات فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، 3نے پلاٹینیم جوبلی، 9 گولڈن جوبلی اور 23 فلموں نے سلور جوبلی کی۔ 49 میں سے صرف سات فلمیں ناکام ہوئیں۔
1975ء میں اس جوڑی کی دو فلمیں ''پہچان'' اور ''اناڑی'' ایک ہی دن ریلیز ہوکر ڈائمنڈ جوبلی ہوئیں۔ 1986ء میں فلم ''فیصلہ'' اس جوڑی کی آخری کامیاب فلم تھی جب کہ اس کے بعد ''آوارگی '' اور ''اولاد کی قسم '' میں یہ جوڑی آخری بار نظر آئی ۔ شبنم نے اپنے فلمی کیرئیر کے اختتام پر 1987ء میں تین پنجابی فلموں ''بازی '' ، ''کالو'' اور ''مالکا'' میں یوسف خان اور سلطان راہی کے مقابل کام کیا لیکن ناکامی کے بعد اپنے آبائی وطن بنگلہ دیش میں چلی گئیں جہاں انھوں نے 1993ء میں بننے والی ایک کوپروڈکشن فلم ''رنجش'' میں رزاق کے مقابل ہیروئن کا کردار کیا لیکن یہ فلم پاکستان میں بری طرح ناکام ہوئی تھی ۔ ان کی آخری فلم ''رانی بیٹی راج کریگی'' 1994ء کو اردو اور پنجابی زبان میں ریلیز ہوئی تھی۔
1962ء میں ہدایتکار احتشام کی فلم ''چندا'' میں معاون ہیروئن کا رول کرنے والی ''جھرنا'' شبنم کے نام سے بنگالی فلم سے فلمی کیرئیر کا آغاز کرچکی تھی، پہلی بار 1963ء میں ڈائریکٹر مستفیض کی اردو فلم ''تلاش'' میں رحمان کے مقابل مرکزی کردار ادا کیا تھا اور مسلسل 27 سال تک 1989ء میں ہدایتکارہ شمیم آراء کی اردو فلم ''لیڈی کمانڈو'' تک ہیروئن کے طور پر جلوہ گر ہوتی رہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد شبنم اور رحمان پاکستان ہی رہے اور مرکزی کرداروں میں دو فلموں ''چاہت'' اور ''دوساتھی'' میں کام کیا جن میں سے صرف ''چاہت '' کامیاب ہوسکی۔
ساٹھ کی دہائی میں شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش ڈھاکہ سے کراچی چلے آئے جہاں سب سے پہلے اداکار وفلمساز وحید مراد کی 1968ء میں فلم ''سمندر'' میں کام کیا۔ ابتدائی دور کی ڈیڑھ درجن فلموں میں صرف 1969ء ایک فلم ''عندلیب'' سپرہٹ ہوئی۔ اسی دور میں شبنم نے رانی کے مقابلے میں فلم ''شمع اور پروانہ'' 1970ء میں ثانوی رول قبول کیا جو اس کے 27سالہ کیرئیر کا واحد موقع تھا۔ اس دوران ان کی جوڑی وحید مراد کے ساتھ بنی جس کے ساتھ ''عندلیب'' ، ''جہاں تم وہاں ہم '' ، ''لاڈلا'' ، ''نصیب اپنا اپنا'' ، ''افشاں'' میں کام کیا لیکن 1972ء میں فلم ''بندگی'' کے بعد اپنے شوہر کے کہنے پر وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ۔چھ سال بعد وحیدمراد کے ساتھ ''سہیلی'' ، ''آواز'' ، ''نشانی'' اور ''پیاری'' جیسی فلموں میں کام کیا ۔
شبنم کو پہلی بڑی کامیابی اداکار وفلمساز اعجاز کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ''دوستی '' 1971ء سے ملی۔ 1973ء کی فلم ''انمول'' نے اسے سپراسٹار بنا دیا تھا جس میں پہلی بار شاہد شبنم کے ہیرو تھے۔ محمد علی کے ساتھ شبنم نے چالیس فلموں میں کام کیا تھا، اس جوڑی کی پہلی بڑی فلم ''میرے ہمسفر '' 1972ء تھی۔ لیکن شبنم کو جو مقبولیت ندیم کے ساتھ ملی وہ باکس آفس پر اردو فلموں کی کسی اور جوڑی کو نہ مل سکی۔ ان کی پہلی فلم ''تم میرے ہو'' 1968ء تھی لیکن ابتدائی دور کی کوئی بھی فلم قابل ذکر کامیابی سے محروم رہی تھی۔ 1974ء میں فلم ''دل لگی'' نے اس جوڑی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا ۔ شبنم اور ندیم کی سات فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، 3نے پلاٹینیم جوبلی، 9 گولڈن جوبلی اور 23 فلموں نے سلور جوبلی کی۔ 49 میں سے صرف سات فلمیں ناکام ہوئیں۔
1975ء میں اس جوڑی کی دو فلمیں ''پہچان'' اور ''اناڑی'' ایک ہی دن ریلیز ہوکر ڈائمنڈ جوبلی ہوئیں۔ 1986ء میں فلم ''فیصلہ'' اس جوڑی کی آخری کامیاب فلم تھی جب کہ اس کے بعد ''آوارگی '' اور ''اولاد کی قسم '' میں یہ جوڑی آخری بار نظر آئی ۔ شبنم نے اپنے فلمی کیرئیر کے اختتام پر 1987ء میں تین پنجابی فلموں ''بازی '' ، ''کالو'' اور ''مالکا'' میں یوسف خان اور سلطان راہی کے مقابل کام کیا لیکن ناکامی کے بعد اپنے آبائی وطن بنگلہ دیش میں چلی گئیں جہاں انھوں نے 1993ء میں بننے والی ایک کوپروڈکشن فلم ''رنجش'' میں رزاق کے مقابل ہیروئن کا کردار کیا لیکن یہ فلم پاکستان میں بری طرح ناکام ہوئی تھی ۔ ان کی آخری فلم ''رانی بیٹی راج کریگی'' 1994ء کو اردو اور پنجابی زبان میں ریلیز ہوئی تھی۔