میثاق معیشت پر عملدرآمد کی ضرورت

ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے پارلیمان میں اتفاق رائے اور ایک پیج پر ہونے کی اشد ضرورت ہے۔


Editorial November 01, 2018
ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے پارلیمان میں اتفاق رائے اور ایک پیج پر ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

قومی اسمبلی میں حکومت کی طرف سے میثاق معیشت کی تجویز پر اپوزیشن کی جانب سے ابتدائی اتفاق رائے سامنے آیا۔ منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہوا۔ ایوان میں دیگر سیاسی امور پر بحث کے دوران تلخ بیانی بھی ہوئی تاہم ملک کی معاشی صورتحال پر بحث گفتگو کا محور رہی۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے واضح کیا کہ پاکستان کو 35 ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے، ہمارا سب سے بڑا تجارتی خسارہ چین کے ساتھ ہے، پچھلی حکومتوں نے 1200 ارب کے نئے نوٹ چھاپے اور بجٹ خسارہ 900 ارب روپے سالانہ بڑھ گیا، ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف پر سو فیصد انحصار نہیں کرنا چاہتی، بیل آؤٹ پیکیج کے بغیر پاکستانی معیشت بحران سے باہر نہیں نکل سکتی تاہم ہماری کوشش ہوگی یہ آخری پروگرام ہو۔

بلاشبہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے پارلیمان میں اتفاق رائے اور ایک پیج پر ہونے کی اشد ضرورت ہے، وقت ان باتوں میں ضایع نہیں ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا کوچہ ملامت میں قدم رکھنے کے مترادف ہے یا ملکی معیشت کے لیے آئی ایم ایف بیل آؤٹ ناگزیر ہے، تاہم یہ خوش آیند بات ہے کہ حکومت نے میثاق معیشت کی ضرورت کا ادراک کیا ہے اور اب اپوزیشن کا کام بھی حکومت کو اس ضمن میں زچ کرنے اور معاشی و اقتصادی معاملات میں درست رہنمائی اور اشتراک فکر و عمل میں قومی اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے صائب مشورہ دیا کہ ماضی میں جس طرح میثاق جمہوریت کیا تھا اسی طرح درپیش اقتصادی چیلنجوں سے نکلنے کے لیے میثاق معیشت کیا جائے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ سعودیہ نے مالی امداد کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے تناظر میں وزیراعظم کے مشیر صنعت وتجارت عبدالرزاق داؤد نے یاد دلایا کہ ہم سی پیک کو وسعت دینے کے لیے بیجنگ جارہے ہیں، چین کے ساتھ صنعت، زراعت اور ریسرچ کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے بات کرینگے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے آل پاکستان چائنیز انٹرپرائزز ایسوسی ایشن اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ادھر اطلاع ملی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک)کے تحت آزادکشمیر کے میرپور اقتصادی زون پرکام تیزی سے جاری ہے، میرپور اقتصادی زون کے لیے 1078 ایکڑ اراضی حاصل کرلی گئی ہے اور صنعتی بستی کے قیام کے لیے اقدامات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔

صنعتی بستی سے ائیرپورٹ کا فاصلہ 130 کلومیٹر، 22 کلومیٹر جی ٹی روڈ، 140 کلومیٹر سیالکوٹ سے، 5 کلومیٹر ڈرائی پورٹ، 2 کلومیٹر غیر فعال ریلوے اسٹیشن سے ہے۔ دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر 9 صنعتی زونز بنائے جائیں گے۔

حکام کے مطابق گوادر ایئرپورٹ کا کام بھی جلد شروع ہوگا۔ یوں معیشت کے استحکام اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے حکومت اقتصادی و مالیاتی امداد کے حصول کی ایک اسٹرٹیجی پر عمل پیرا تو ہے مگر ابھی اسے مزید مربوط اور نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ اور اپوزیشن رہنما اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ معیشت کے استحکام کو متنازع اور متحارب رویوں کو یرغمال کوئی نہ بنائے، اگر حکومت درپیش مالی اور اقتصادی بحران سے نمٹنے کی دانشمندانہ کوشش کررہی ہے تو اسے شاباش ملنی چاہیے اور اگر اس کی اقتصادی بحالی کی حکمت عملی میں جھول، تکنیکی مغالطے اور غیر حقیقت پسندانہ ترجیحات اور توقعات کی بھرمار ہے تو اسے قومی مفاد میں حزب اقتدار کو مخلصانہ مشورے دینے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے، اسی میں ملک کا فائدہ ہے۔

اگر معیشت درست سمت میں جاتی دکھائی دے تو اس مثبت پیش رفت کو غلط رنگ دینے سے بہتر ہے کہ سیاسی رواداری، کثیر جہتی خیر سگالی اور معاونت کے جذبہ سے کام لیا جائے اور حکومت اور اپوزیشن دونوں کو قوم کو درپیش مشکلات کا احساس کرنا چاہیے۔ وزیراعظم آج چین کے دورے پر جا رہے ہیں، یہ معاشی نشاۃ ثانیہ کے سیاق وسباق میں اٹھائے جانے والے وہ اقدامات ہیں جن پر دنیا کی معاشی قوتوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں، لہٰذا وقت کا تقاضا اور قومی ضرورت ہے کہ بدخواہوں کے گھناؤنے منصوبوں اور ناپاک عزائم کو دھول چٹا دی جائے۔

لیکن اس کے لیے شراکت داروں اور پی ٹی آئی حکومت کو زمینی معاشی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے قابل عمل اور عوام دوست معاشی روڈمیپ دینا چاہیے جس پر عمل کرکے ملک کو ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔ معاشی استحکام کے مشکل اور اعصاب شکن سفر میں چین اور ملائیشیا ہمارے منتظر ہیں، ہمیں دوراندیشی سے آگے بڑھنا چاہیے۔ معاشی ترقی کا ایجنڈا مشترکہ ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں