موسمیاتی تغیر چشم کشا حقائق
دنیا کے بہترین ماہرین کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ بھی روز بروز شدت اختیارکرتا جا رہا ہے۔
کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیوں اور تغیرات کا سلسلہ بہت تیزی سے چل نکلا ہے، عالمی ادارے اس پر مسلسل تحقیق کرنے اور بچاؤکے لیے تدابیر اختیارکر رہے ہیں۔ حال ہی میں زولوجیکل سوسائٹی آف لندن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اشتراک سے شایع ہونے والی لیونگ پلانیٹ رپورٹ نے پاکستان کو موسمیاتی تغیرکی فہرست میں ساتواں نمبر دیا ہے، جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، دنیا کے بہترین ماہرین کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ بھی روز بروز شدت اختیارکرتا جا رہا ہے۔
میٹھے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، سندھ میں 2010 کا سپرفلڈ بھی موسمیاتی تبدیلی کے سبب آیا،گرمیوں میں حدت بتدریج بڑھ رہی ہے، جب کہ سردیوں میں درجہ حرارت میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، پہاڑی علاقوں میں برف باری نومبر سے جنوری کے درمیان ہوتی تھی، بعدازاں کچی برف ، ٹھوس برف کے ذخائر میں تبدیل ہوجاتی تھی اور یہی میٹھے پانی کے ذخائر قدرتی جھیلوں،آب گاہوں اور دریاؤں میں شامل ہوکر پورے سال استعمال کیے جاتے تھے ۔
تجاہل سے کام لینا اور ناقص پالیسیاں بنانا ہماری حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے، ہم نے کبھی بحیثیت قوم اور ریاست کسی بھی مسئلے پر منصوبہ بندی نہیں کی ۔ نہ تو ہم ڈیمز بناسکے جہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکے، جنگلات نہ ہونے کے برابر رہ گئے، دنیا کا بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے لیکن اس کے باوجود زرعی زمینیں خشک سالی اور سیم و تھور اور سیلابوں کی زد میں آنے سے پیداوار میں کمی کا شکار ہوئی ہیں، شہرکنکریٹ کا جنگل بن گئے ہیں۔ ہم ہنگامی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں اور تغیرکے حوالے سے قومی ایکشن پلان بنا کر اس پر عمل کرنا ہوگا ، ورنہ آنے والا وقت مزید ہولناک منظر پیش کرے گا۔
میٹھے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، سندھ میں 2010 کا سپرفلڈ بھی موسمیاتی تبدیلی کے سبب آیا،گرمیوں میں حدت بتدریج بڑھ رہی ہے، جب کہ سردیوں میں درجہ حرارت میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، پہاڑی علاقوں میں برف باری نومبر سے جنوری کے درمیان ہوتی تھی، بعدازاں کچی برف ، ٹھوس برف کے ذخائر میں تبدیل ہوجاتی تھی اور یہی میٹھے پانی کے ذخائر قدرتی جھیلوں،آب گاہوں اور دریاؤں میں شامل ہوکر پورے سال استعمال کیے جاتے تھے ۔
تجاہل سے کام لینا اور ناقص پالیسیاں بنانا ہماری حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے، ہم نے کبھی بحیثیت قوم اور ریاست کسی بھی مسئلے پر منصوبہ بندی نہیں کی ۔ نہ تو ہم ڈیمز بناسکے جہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکے، جنگلات نہ ہونے کے برابر رہ گئے، دنیا کا بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے لیکن اس کے باوجود زرعی زمینیں خشک سالی اور سیم و تھور اور سیلابوں کی زد میں آنے سے پیداوار میں کمی کا شکار ہوئی ہیں، شہرکنکریٹ کا جنگل بن گئے ہیں۔ ہم ہنگامی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں اور تغیرکے حوالے سے قومی ایکشن پلان بنا کر اس پر عمل کرنا ہوگا ، ورنہ آنے والا وقت مزید ہولناک منظر پیش کرے گا۔