انسانی حقوق کا ازسرنو تعین
زندہ رہنے کا حق تو ہر جاندارکا حق ہے لیکن زندہ رہنے کے حق میں ایک آسودہ زندگی کا حق سرفہرست ہے۔
PARIS:
مغربی ممالک انسانوں کی بھلائی کے لیے انسانوں کے جن حقوق کا پروپیگنڈا کرتے ہیں ان میں انسانوں کے بنیادی حقوق سرفہرست ہیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی ممالک کس قدر حساس اور فکرمند رہتے ہیں، اس کا اندازہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی انسانی حقوق کی تنظیموں سے کیا جاسکتا ہے، لیکن اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ مغربی مفکرین نے ان حقوق کی نہ صحیح تعریف کی ہے نہ ان حقوق کے تحفظ کا کوئی معقول انتظام ہے، عموماً انسانی حقوق کی بات محض پروپیگنڈے کے لیے کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کے بنیادی حقوق کا تعین ضروری ہے۔ مثلاً زندہ رہنے کا حق جو انسان کے بنیادی حقوق میں اہم ترین حق ہے۔
زندہ رہنے کے حق میں صرف جان کی سلامتی کا حق ہی نہیں بلکہ زندہ رہنے کا حق اس قدر وسیع ہے کہ اسے گنوانے میں ہی کئی صفحے درکار ہوسکتے ہیں۔ زندہ رہنے کا حق تو ہر جاندارکا حق ہے لیکن زندہ رہنے کے حق میں ایک آسودہ زندگی کا حق سرفہرست ہے۔ کیا دنیا کے سات ارب انسانوں کو ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے؟ اس حق کا سرمایہ دارانہ نظام میں جو حشرکیا جاتا ہے اس کا اندازہ ہر سال بھوک سے مرنے والے لاکھوں انسانوں سے ہوسکتا ہے، ہر سال علاج سے محرومی سے مرنے والے لاکھوں انسانوں سے ہوسکتا ہے۔
اس حق کے حشر کا اندازہ ہر سال دودھ سے محرومی سے موت کا شکار ہونے والے لاکھوں بچوں کی المناک اموات سے ہوسکتا ہے۔ اس حق کی تذلیل کا اندازہ کم عمر اور معصوم بچیوں کو جبری آبرو ریزی کے بعد قتل کردینے سے ہوتا ہے۔ اس حق کی جس شدت سے خلاف ورزی ہندوستان اور پاکستان میں ہو رہی ہے وہ میڈیا میں دیکھی جاسکتی ہے ،کمسن بچیوں کی آبرو ریزی اور قتل اشرافیہ کی تفریح ہے، ہمارے ملک میں عزت کے نام پر قتل عام ہے کیا انسانی حقوق کے دعوے دار اس وحشت ناک قتل کو رکوا سکتے ہیں؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران لاکھوں انسان انتہائی بے دردی سے مارے گئے۔
کیا یہ انسانی جانوں کا زیاں نہیں ہے کیا یہ جرم ہے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔ کوریا، ویت نام، فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسان مارے گئے افغانستان میں اب بھی مارے جا رہے ہیں کیا یہ قتل وغارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر امریکا نے لاکھوں جاپانیوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ کیا یہ انسانی جانوں کے تحفظ کی تعریف میں آتا ہے ۔ بھارت میں پیٹ پالنے کے لیے 36 لاکھ لڑکیاں آبرو بیچتی ہیں کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے مگر یہاں بھی یہ گناہ ہوتا ہے۔ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، اگر ایک آسودہ زندگی گزارنا انسان کا حق ہے تو دنیا کے کس ملک کے غریب طبقات آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔
پسماندہ ملکوں کے پچاس فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا یہ انسانوں کے حقوق کی بدترین خلاف ورزی نہیں ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت سے وابستہ لاکھوں ہاری اورکسان غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں پاکستان کی صنعتی زندگی سے وابستہ کروڑوں لوگ صنعتی غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کو ملوں اور کارخانوں کا ملازم نہیں مانا جاتا۔ یہ لاکھوں مزدور ٹھیکیدار کے مزدور کہلاتے ہیں انھیں وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو قانوناً مزدوروں کو حاصل ہوتے ہیں انھیں ملوں اور کارخانوں کی طرف سے تقرر نامہ بھی نہیں دیا جاتا۔
کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ بھوک سے تنگ آکر بھیک مانگنا انتہائی شرمناک عمل ہے کیا یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تعریف میں آتا ہے؟ کہا جاتا ہے گداگری ایک غیر قانونی ہی نہیں انسانیت کی توہین کرنے والا پیشہ ہے لیکن ملک بھر میں لاکھوں گداگر ہر روز سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
بھیک مانگنا ایک ذلت آمیز انسانی حقوق پر کلنک ہے گداگر سے سب لوگ نفرت کرتے ہیں۔ لیکن اس انسانی حقوق کے توہین آمیز پیشے کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا گداگری انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، گداگری کوئی انڈرگراؤنڈ نہیں، صبح سے آدھی رات تک گداگر سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
قانون کے مطابق یہ انسانی حقوق کی توہین کرنے والا پیشہ ہے لیکن اس پیشے کے خلاف قانون اس لیے حرکت میں نہیں آتا اس پیشے کی سرپرستی کرنے والے ٹھیکیدار خود بھی لاکھوں روپے کماتے ہیں اور قانون کی جھولی میں بھی لاکھوں روپے ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے گداگری کے ٹھیکیدار محروم و مجبور لوگوں کو اندھا بنا دیتے ہیں، لنگڑا بنا دیتے ہیں، لولا بنا دیتے ہیں، گونگا بنا دیتے ہیں اور ہر روز صبح انھیں گاڑیوں میں بٹھا کر ان کے ٹھکانوں پر پہنچا دیتے ہیں۔
یہ سارا تماشا قانون کی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے لیکن انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی کے خلاف کوئی منظم اور موثر آواز نہیں اٹھائی جاتی اس لیے کہ یہ قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی منافع بخش کاروبار ہے اور سرمایہ دارانہ نظام منافعے کے پاؤں پر ہی کھڑا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں میں کام کرنے والے بڑے بے چارے ہیں، اگر انسانی حقوق کی پاسداری کرنا ہو تو انسانی حقوق کا حالات حاضرہ کی روشنی میں ازسرنو تعین کرنا ہوگا ۔
مغربی ممالک انسانوں کی بھلائی کے لیے انسانوں کے جن حقوق کا پروپیگنڈا کرتے ہیں ان میں انسانوں کے بنیادی حقوق سرفہرست ہیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی ممالک کس قدر حساس اور فکرمند رہتے ہیں، اس کا اندازہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی انسانی حقوق کی تنظیموں سے کیا جاسکتا ہے، لیکن اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ مغربی مفکرین نے ان حقوق کی نہ صحیح تعریف کی ہے نہ ان حقوق کے تحفظ کا کوئی معقول انتظام ہے، عموماً انسانی حقوق کی بات محض پروپیگنڈے کے لیے کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے انسان کے بنیادی حقوق کا تعین ضروری ہے۔ مثلاً زندہ رہنے کا حق جو انسان کے بنیادی حقوق میں اہم ترین حق ہے۔
زندہ رہنے کے حق میں صرف جان کی سلامتی کا حق ہی نہیں بلکہ زندہ رہنے کا حق اس قدر وسیع ہے کہ اسے گنوانے میں ہی کئی صفحے درکار ہوسکتے ہیں۔ زندہ رہنے کا حق تو ہر جاندارکا حق ہے لیکن زندہ رہنے کے حق میں ایک آسودہ زندگی کا حق سرفہرست ہے۔ کیا دنیا کے سات ارب انسانوں کو ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے؟ اس حق کا سرمایہ دارانہ نظام میں جو حشرکیا جاتا ہے اس کا اندازہ ہر سال بھوک سے مرنے والے لاکھوں انسانوں سے ہوسکتا ہے، ہر سال علاج سے محرومی سے مرنے والے لاکھوں انسانوں سے ہوسکتا ہے۔
اس حق کے حشر کا اندازہ ہر سال دودھ سے محرومی سے موت کا شکار ہونے والے لاکھوں بچوں کی المناک اموات سے ہوسکتا ہے۔ اس حق کی تذلیل کا اندازہ کم عمر اور معصوم بچیوں کو جبری آبرو ریزی کے بعد قتل کردینے سے ہوتا ہے۔ اس حق کی جس شدت سے خلاف ورزی ہندوستان اور پاکستان میں ہو رہی ہے وہ میڈیا میں دیکھی جاسکتی ہے ،کمسن بچیوں کی آبرو ریزی اور قتل اشرافیہ کی تفریح ہے، ہمارے ملک میں عزت کے نام پر قتل عام ہے کیا انسانی حقوق کے دعوے دار اس وحشت ناک قتل کو رکوا سکتے ہیں؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران لاکھوں انسان انتہائی بے دردی سے مارے گئے۔
کیا یہ انسانی جانوں کا زیاں نہیں ہے کیا یہ جرم ہے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔ کوریا، ویت نام، فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسان مارے گئے افغانستان میں اب بھی مارے جا رہے ہیں کیا یہ قتل وغارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر امریکا نے لاکھوں جاپانیوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ کیا یہ انسانی جانوں کے تحفظ کی تعریف میں آتا ہے ۔ بھارت میں پیٹ پالنے کے لیے 36 لاکھ لڑکیاں آبرو بیچتی ہیں کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے مگر یہاں بھی یہ گناہ ہوتا ہے۔ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، اگر ایک آسودہ زندگی گزارنا انسان کا حق ہے تو دنیا کے کس ملک کے غریب طبقات آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔
پسماندہ ملکوں کے پچاس فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا یہ انسانوں کے حقوق کی بدترین خلاف ورزی نہیں ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت سے وابستہ لاکھوں ہاری اورکسان غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں پاکستان کی صنعتی زندگی سے وابستہ کروڑوں لوگ صنعتی غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کو ملوں اور کارخانوں کا ملازم نہیں مانا جاتا۔ یہ لاکھوں مزدور ٹھیکیدار کے مزدور کہلاتے ہیں انھیں وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو قانوناً مزدوروں کو حاصل ہوتے ہیں انھیں ملوں اور کارخانوں کی طرف سے تقرر نامہ بھی نہیں دیا جاتا۔
کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ بھوک سے تنگ آکر بھیک مانگنا انتہائی شرمناک عمل ہے کیا یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تعریف میں آتا ہے؟ کہا جاتا ہے گداگری ایک غیر قانونی ہی نہیں انسانیت کی توہین کرنے والا پیشہ ہے لیکن ملک بھر میں لاکھوں گداگر ہر روز سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
بھیک مانگنا ایک ذلت آمیز انسانی حقوق پر کلنک ہے گداگر سے سب لوگ نفرت کرتے ہیں۔ لیکن اس انسانی حقوق کے توہین آمیز پیشے کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا گداگری انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، گداگری کوئی انڈرگراؤنڈ نہیں، صبح سے آدھی رات تک گداگر سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
قانون کے مطابق یہ انسانی حقوق کی توہین کرنے والا پیشہ ہے لیکن اس پیشے کے خلاف قانون اس لیے حرکت میں نہیں آتا اس پیشے کی سرپرستی کرنے والے ٹھیکیدار خود بھی لاکھوں روپے کماتے ہیں اور قانون کی جھولی میں بھی لاکھوں روپے ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے گداگری کے ٹھیکیدار محروم و مجبور لوگوں کو اندھا بنا دیتے ہیں، لنگڑا بنا دیتے ہیں، لولا بنا دیتے ہیں، گونگا بنا دیتے ہیں اور ہر روز صبح انھیں گاڑیوں میں بٹھا کر ان کے ٹھکانوں پر پہنچا دیتے ہیں۔
یہ سارا تماشا قانون کی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے لیکن انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی کے خلاف کوئی منظم اور موثر آواز نہیں اٹھائی جاتی اس لیے کہ یہ قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی منافع بخش کاروبار ہے اور سرمایہ دارانہ نظام منافعے کے پاؤں پر ہی کھڑا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں میں کام کرنے والے بڑے بے چارے ہیں، اگر انسانی حقوق کی پاسداری کرنا ہو تو انسانی حقوق کا حالات حاضرہ کی روشنی میں ازسرنو تعین کرنا ہوگا ۔