کیا ضمانت ہر ملزم کا حق نہیں
گرفتاری کے اس اختیار کے ناجائز استعمال نے پاکستان میں شاید لاقانونیت کا ایک بازار گرم کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں تفتیشی اداروں کو ملزمان کی گرفتاری کے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ جہاں ان اختیارات کا روزانہ جائز استعمال ہوتا ہے وہاں گمان ہے کہ اس کا غلط استعمال بھی ہوتا ہوگا۔ جہاں اچھائی ہوتی ہے وہاں برائی بھی ہوتی ہے،اچھے اور برے افراد ہر محکمے میں موجود ہوتے ہیں۔
قانون اور اصول کے مطابق کسی بھی تفتیشی افسر کو تب تک ملزم کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود نہ ہوں۔مغربی دنیا میں تفتیشی ادارے کسی بھی شخص کے بارے میں مکمل تحقیق کرتے اور ثبوت اکٹھے کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد ملزم پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں روزانہ ملزمان کو بے گناہ گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ گرفتاری کے اس اختیار کے ناجائز استعمال نے پاکستان میں شاید لاقانونیت کا ایک بازار گرم کیا ہوا ہے۔
بعض تفتیشی افسران خود کو زمینی خدا سمجھنے لگے ہیں جس کو جب اور جہاں چاہا،الزامات لگائے،ملزم کو پکڑااور عدالتوں میں گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اب آپ اعظم سواتی کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔خبر کے مطابق پولیس نے بیچارے بے گناہ غریب خاندان کو گرفتار کر کے فوری طور پر جیل بھیج دیا۔
کیا تفتیشی افسر کو گرفتاری سے پہلے تفتیش نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یہ ایک مثال ہے ملک بھر میں ایسا روز ہزاروں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ گرفتاری کے اس اختیار کے ناجائز استعمال نے ملک میں جھوٹے پرچوں جھوٹے مقدمات کا بھی ایک بازار گرم کیا ہوا ہے۔ لوگ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے پرچے اور مقدمہ درج کرواتے ہیں پھر ان کو اس میں گرفتار کروا کر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ اپنی طاقت کا ننگا ناچ دیکھتے ہیں۔ ایک بار ان کا سیاسی مخالف قابو میں آجائے وہ اس کو ایسا سبق سکھاتے ہیں کہ وہ ساری زندگی اسے یاد رکھتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں انصاف کا بول بالا اور نظام انصاف سے جھوٹے مقدمات کا بوجھ ختم کرنے کے لیے ملک میں ناجائز گرفتاریوں کی روک تھام کے لیے قانونی عدالتی اصلاحات کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ قانون میں صاف لکھا ہے کہ کوئی بھی تفتیشی افسر تب تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس تفتیش میں ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہ ہوں۔ ٹھوس ثبوت کی موجودگی ہی گرفتاری کی بنیاد بن سکتی ہے۔
لیکن ملک بھر میں روزانہ بغیر کسی ثبوت کے ہزاروں گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ کوئی بھی کسی تفتیشی افسر سے یہ نہیں پوچھتا کہ بھائی آپ نے اس شخص کو کیوں گرفتار کیا ہے۔ آپ کے پاس گرفتاری کی کیا وجہ ہے،آپ نے تمام شواہد اور ثبوت بھی اکٹھے کیے ہیں یا نہیں۔ صرف مقدمہ کا اندراج گرفتاری کی وجہ نہیں ہو سکتا۔ گرفتاری تفتیش میں سامنے آنے والے شواہد کی موجودگی میں ہی ہو سکتی ہے۔ جھوٹے مقدمات میں ہزاروں بے گناہوں کی گرفتاریاں پاکستان کے نظام انصاف کو بدنام کر رہی ہیں۔
ایک اہم نکتہ جس کے طرف توجہ دینے کی فی الفور ضرورت ہے کہ پاکستان میں جھوٹے مقدمات کی کوئی سزا نہیں ہے۔ جس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ روزانہ ہزاروں جھوٹے مقدمات اپنے مخالفین کے خلاف درج کرواتے ہیں۔ جھوٹے مقدمہ کی وجہ سے بے گناہ پہلے گرفتاری کی اذیت سے گزرتا ہے۔ پھر ضمانت کے کرب سے گزرتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر مدعی کی تسلی نہ ہو تو سالہا سال جھوٹے مقدمہ کا سامنا کرتا ہے۔ بعد میں بیچارے ملزم کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران زندگی اور سرمائے کا کتنا نقصان ہو جاتا ہے کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ جھوٹا مدعی آسانی سے گھر چلا جاتا ہے۔
جب عدالت ملزم کو بری کرتی ہے تو جھوٹے مدعی کو ساتھ ہی سزا کیوں نہیں دیتی۔ جس تفتیشی نے اس بے قصور کو گناہ گار لکھا ہوتا ہے اسے کوئی سزا نہیں ملتی۔ جس نے بے قصور گرفتار کیا ہوتا ہے اس کی کوئی پکڑ نہیں ہے۔ قانونی نظام میں یہ سقم دھوکے باز لوگوں کو شیر کر دیتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ساری تکلیف اور عذاب ان کا مخالف ہی بھگتے گا اور ان کا اپنا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ حوالات اور جیل میں بے گناہ کی ایک رات نظام انصاف کے منہ پر کسی طمانچہ سے کم نہیں ہے۔ لیکن کسی کو کوئی احساس نہیں۔ تفتیشی افسران کی بے پناہ من مانیاں ملک میں نا انصافی کا باعث ہیں۔ تفتیشی نظام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔
کیوں جج صاحبان گرفتاری کے وقت ملزم سے بے گناہی پوچھنے کے بجائے تفتیشی سے نہیں پوچھتے کہ اس کے پاس گرفتاری کا کیا جواز ہے۔ کیوں گرفتاری کے بعد ریمانڈ اور پھر جیوڈیشل کا کھیل شروع کر دیا جاتا ہے۔ کیوں ریمانڈ پر ریمانڈ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جب بغیر گرفتاری کے تفتیش ممکن ہوتی ہے تو گرفتاری کی حد تک جانے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔
ضمانت قبل از گرفتاری ملزم کا حق کیوں نہیں۔ جب ملزم تفتیش میں تعاون کے لیے تیار ہو تو گرفتاری کیوں کی جاتی ہے۔ جب ملزم پر تھرڈ ڈگری قانون کے تحت استعمال نہیں ہو سکتی تو پھر گرفتاری کیوں ضروری ہے۔ ہر وہ ملزم جو تفتیش میں تعاون کے لیے تیار ہو ضمانت قبل از گرفتاری اس کا حق ہونا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ ضمانتوں کے مقدمات سننے میں عدلیہ کا بھی بہت وقت ضایع ہوتا ہے۔ ہر روز عدالتوں میں صرف ضمانتوں کے ہزاروں مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ یہ سب وقت کا ضیاع ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے مقدمات کی باری نہیں آتی اور سیکڑوں لوگ تاریخوں پر تاریخیں بھگتے رہتے ہیں۔
ضمانت قبل از گرفتاری کو جیوڈیشل کے بجائے ایک ایڈمنسٹریٹو معاملہ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ ملزم کو ضمانت قبل از گرفتاری تفتیشی افسر سے ہی ملنی چاہیے۔ اس کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے عدلیہ پر بھی مقدمات کی بھرمار کا دباؤ کم ہوگا۔ خبر کے مطابق اعظم سواتی کے تنازعہ میں بھی دیکھیں ملزمان کو بغیر وجہ کے گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ہے۔ خواتین کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ معصوم بچوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ حتیٰ کے گھر کا سربراہ جو موقع پر موجود ہی نہیں تھا اس کو بھی جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ضمانت کے قانون میں مچلکوں کا بھی عجیب کھیل ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ مچلکوں کا ایک کاروبار عدالتوں میں گرم ہے۔ غریب آدمی کے لیے مچلکہ دینا ایک مشکل کام ہے۔ جو مچلکہ دینے کی استطاعت رکھتا ہے اس کو کون گرفتار کرتا ہے۔ زیادہ تر گرفتار ہی غریب اور بے سہارا لوگ ہوتے ہیں۔ کیا مجال ہے کسی کی جو کسی طاقتور کو گرفتار کر لے۔ جس کے پاس کوئی جائیداد نہیں۔ کوئی سفارش نہیں وہ مچلکوں کے کھیل سے کیسے نکلے۔ جعلی اور بوگس مچلکوں نے ضمانت کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ اس کی اہمیت اور وقعت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے اس پر بھی فوری توجہ دینی چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اس ضمن میں بہت سے نئے قواعد اور قانون بنا لیے ہیں۔
جن سے ضمانت کے طریقہ کار کو نہ صرف آسان بلکہ موثر بھی بنایا گیا ہے۔ دنیا میں اب ایسی کمپنیاں بن گئی ہیں جو ملزمان کی ضمانت دیتی ہیں، اور ملزم تفتیش اور ٹرائل میں موجود رہے گا اس کی وہ کمپنی ذمے داری اٹھاتی ہے۔ اس سے ملزم کو کافی ریلیف مل جاتا ہے۔ ایک زمانہ میں پاکستان میں بھی پولیس افسران کو تھانوں میں ضمانت لینے کا اختیار موجود تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ اختیار ختم کر دیا گیا۔ میں اس اختیار کی بحالی کے حق میں تو نہیں ہوں کیونکہ اس میں بھی بہت سی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اگر پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے اس قابل ہوں تو کوئی بے گناہ گرفتار ہی کیوں ہو۔ اس لیے اس کام کے لیے ایک الگ سسٹم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔
بے گناہ گرفتاریاں صرف پولیس نہیں کرتی بلکہ تمام ادارے اس جرم سے پاک نہیں ہیں۔ تمام ادارے اس میں برابر کے قصور وار ہیں۔ گرفتاری کو ایک کھیل اور مذاق بنا لیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر گرفتاری کو ایک حق سمجھتے ہیں۔ ایک سوچ بن گئی ہے کہ بس پہلے گرفتاری کی جائے مقدمہ کی تفتیش اس کے بعد ہی ممکن ہے۔ افسران بھی پہلے تفتیشی سے یہی پوچھتے ہیں کہ ملزم کو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ گرفتاری نہ کرنے کو تفتیشی کی بد نیتی سمجھا جاتا ہے۔
عدالتوں کو بھی یقینا اس بات کا احساس ہو گا کہ بے گناہ کی گرفتاری کا بڑے سے بڑے ظلم سے موازنہ بھی ممکن نہیں۔ بے گناہوں کی گرفتاریاں ملک میں بے انصافی کا دوسرا نام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر وہ شہری جو الزام کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے اس کو ضمانت ملنی چاہیے۔ قانون کو ملزم اور مجرم کے فرق کو واضح کرنا چاہیے۔
مجھے امید ہے کہ عدلیہ اس جانب توجہ دیں گی۔ ضمانت کے حصول کے طریقہ کار کو شفاف اور آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ اب تو بائیو میٹرک سسٹم کا دور آگیا ہے۔ اس سے عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ عدالتوں میں ضمانت کے صرف وہی مقدمات آنے چاہیے جب ملزم کے خلاف اتنے ثبوت آجائیں کہ تفتیشی افسر یہ سمجھے کہ اب ضمانت ملزم کا حق نہیں ہے۔ ورنہ ضمانت کا مقدمہ عدالت میں نہیں آنا چاہیے۔ ہماری قانونی نظام میں جو سقم ہیں انھیں جلد از جلد دور کیا جانا چاہیے تاکہ ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو۔