لیاری میں پانی کی قلت ایک جائزہ

لیاری میں قلت آب کا مسئلہ کراچی کے دیگرعلاقوں کے برعکس دیرینہ اور پچیدہ رہا ہے۔


Shabbir Ahmed Arman November 01, 2018
[email protected]

ہمیشہ کی طرح آج بھی کراچی کے مرکزی اور مضافاتی علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت ہے، پیاسے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی داد وفریاد واٹر بورڈکے درو دیوار سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہے، یہ سب کچھ شہرکراچی میں معمول کی باتیں ہیں۔آئیے! لیاری میں پینے کے پانی کی فراہم کا ایک جائزہ لیتے ہیں ۔

لیاری میں قلت آب کا مسئلہ کراچی کے دیگرعلاقوں کے برعکس دیرینہ اور پچیدہ رہا ہے۔اس ضمن میں اب تک کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی لاگت سے پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ہیں۔ ماضی قریب میں شہری حکومت کے ناظم مصطفیٰ کمال نے لیاری میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 29 کروڑ روپے کی لاگت سے علیحدہ پائپ لائن بچھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ چھ ماہ میں لیاری میں فراہمی آب کی صورت حال بہتر ہو جائے گی ۔ منصوبے کے مطابق 33 انچ قطر کی یہ پائپ لائن غریب آباد سے شروع ہو کر لیاری پر ختم ہونی تھی، اس لائن سے K-3 پروجیکٹ کا پانی سپلائی کیا جانا تھا۔

قبل ازیں سابق ٹاؤن ناظم لیاری عبدالخالق جمعہ نے واٹر بورڈ اور شہری حکومت کے اس وقت کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے لیاری کے لیے K-3 میں سے 10 ایم جی ڈی پانی کا حصہ منظورکروایا تھا اور یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ لیاری کے لیے گھارو سے لیاری تک 32 انچ کی سی او ڈی فلٹر پلانٹ لائن بچھائی جائے گی۔ پہلے یہ لائن میراں نالہ لیاری تک بچھانے کی تجویز تھی جس پر تقریبا 25 کروڑ روپے کی لاگت کاتخمینہ لگایا گیا تھا، اس لائن کی لمبائی 9 کلومیٹر تھی ۔

پانی کی اس پائپ لائن کوگھاروکے بجائے عزیزآباد سے ملایا گیا اور اس کے قطر میں ایک انچ کے اضافے کے ساتھ مجوزہ منصوبے کی لاگت میں ایک دم ایک کروڑ روپے کا مزید اضافہ کیا گیا تھا۔ K-3 منصوبے کے آغاز کے کافی عرصے بعد تک اس منصوبے کے ثمرات سے لیاری کے پیاسے لوگ محروم رہے ۔ 18مئی 2006ء کو سٹی ناظم مصطفی کمال نے لیاری ٹاؤن کے لیے 80 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا ۔ وہ رقم لیاری پر خرچ ہوئی یا نہیں؟ کچھ پتہ نہیں، لیاری کو اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے 45 ایم جی ڈی پانی درکار ہے ۔ واٹر بورڈ لیاری کو 14 ایم جی ڈی پانی سپلائی کرنے کا دعویدار ہے،جب کہ غیر قانونی کنکشنزکی بھرمارکی وجہ سے لیاری بھر میں 10 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔

قبل ازیں 1988ء میں پی پی پی کی حکومت نے لیاری کے بلدیاتی مسائل کے حل اور ترقی کے لیے لیاری کو پیرس بنانے کے مد میں 80 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی ۔ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے (دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم ) کے نام سے وفاقی حکومت کے تعاون سے گجوکینال سے لیاری تک 44 مربع انچ کی پائپ لائن بچھانے کے احکامات جاری کیے تھے ۔ جب مذکورہ کام کھارادر کے علاقے تک پہنچا تو حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور یہ کہہ کر اس منصوبے کو روک دیا گیا تھا کہ لیاری اونچائی پر واقع ہے اس لیے یہ پانی وہاں نہیں پہنچ سکتا۔اس طرح لیاری کے پیاسوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا اور وہ بورنگ کے پانی سے گزارہ کرنے لگے ۔

بینظیر بھٹو پھر برسر اقتدار آئیں تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر دی گریٹ لیاری واٹر اسکیم کے لیے خطیر رقم مختص کی جو اس مرتبہ 18 کروڑ روپے سے بڑھ کر 39 کروڑ روپے ہو گئی۔ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتے پہنچتے یہ رقم 48 کروڑ روپے سے تجاوز کرگئی۔اس کام کے ٹینڈرکے حوالے سے بدعنوانی کے قصے بھی زبان زد عام ہوئے ۔ معاملات تحقیقات، معطلی،گرفتاری، مقدمات اور عدالت تک جا پہنچے اور نتائج باعزت رہائی پر ختم ہوئے ۔

26 جون 1994ء کو سی او ڈی فلٹر پلانٹ گھارو سے لیاری کو80 لاکھ گیلن یومیہ اضافی پانی فراہم کرنے کے لیے بچھائی جانے والی 24 انچ قطر کی لائن کی تنصیب کے کام کا افتتاح اس وقت کے صوبائی وزیربلدیات اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیئرمین نواب میر نادر علی مگسی نے کیا، جب کہ بحیثیت وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے بدھ 3 جولائی 1996ء کو لی مارکیٹ پمپنگ اسٹیشن لیاری میں افتتاح کیا تھا۔

17 کلومیٹرکے فاصلے سے لیاری تک بچھائی گئی، اس لائن سے لیاری بھر میں 24 گھنٹے پینے کا پانی وافر مقدار میں سپلائی کیا جا رہا تھا کہ ایک مرتبہ پھر بینظیر حکومت کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ حسب روایت ایک مرتبہ پھر لیاری میں قلت آب کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔ لیاری کے لیے مختص اس پائپ لائن سے اس وقت سے لے کر اب تک دیگر علاقوں کوسیکڑوں ناجائزکنکشن دیے جا چکے ہیں ۔ قائداعظم کے مزار کے فوارے بھی اسی لائن سے لوگوں کو تفریح بہم پہنچا رہے ہیں۔

1977ء کے سیاسی منظرنامے کی تبدیلی کے بعد جنرل ضیاء الحق کی طویل حکمرانی کے دوران لیاری کی پوری آبادی مسلسل 11 سال تک پینے کے پانی کی بندش کا شکار رہی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زمین کا پانی بھی خشک ہوگیا۔ لیاری کے رہائشی مضر صحت بورنگ کا پانی پی پی کر آنتوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہوئے لقمہ اجل بنے۔ 1992ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید مظفر حسین شاہ نے صرف اور صرف لیاری کے لیے قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن کا افتتاح کیا۔ مذکورہ منصوبے پرکام تقریبا ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا، اس دعوے کے ساتھ کہ اس ذخیرہ آب سے پریشرکے ذریعے پانی چھوڑنے سے ضلع جنوبی کے آخری سرے تک پانی پہنچایا جاسکے گا ۔ مذکورہ اسکیم 28 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کاحصہ کہلائی تھی ، مگرلیاری کے لیے بنائے گئے اس منصوبے کو دیگر علاقوں میں بھی تقسیم کیا گیا ۔

بلدیہ جنوبی نے لیاری اور محمودآباد کے لیے 3.3، کلفٹن اور سٹی ریلوے اسٹیشن کے علاقوں کے لیے 1.1 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کی سپلائی طے کی ، آج تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ باقی 20 ملین گیلن پانی کا کیا مصرف تھا ؟ لیاری کے پیاسوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی یہ خوشی محض چند گھنٹوں پر محیط ہو گی ۔ٹھیک دوسرے دن یعنی 12 مارچ 1992ء کو ایک مرتبہ پھر لیاری کے لیے پانی کی بندش شروع ہو گئی ۔

یہ بندش کس کے اشارے پرکی گئی تھی اورکیوں ؟ یہ ایک سیاسی بحث ہے البتہ انتظامی حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن میں نقص پیدا ہو گیا ہے جس وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے ۔ یہ ایک ایسا نقص قرار پایا کہ آج تک دوبارہ قیوم آباد پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے لیاری میں پانی سپلائی نہیں کیا جا سکا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ شہر میں بننے والی کثیر المنزلہ کمرشل عمارتوں اور من پسند کاروباری علاقوں کو پینے کے پانی سے سیراب کیا جا رہا ہے ۔ یہ امتیاز کیوں ہے؟ وہ وال کہاں کہا ں نصب ہیں جہاں سے والومین اپنے افسران کی ہدایت کے مطابق جب چاہیں جہاں چاہیں پانی کی فراہمی شروع اور بند کر دیتے ہیں اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں