حویلی کے نواب سے ’’پنگا‘‘
گاؤں کے لوگوں نے ہر جگہ بھینس کو تلاش کیا لیکن بھینس کہیں نہیں ملی۔
بڑے بڑے ناموں ، اونچی اونچی حویلیوں سے ہم ویسے ہی پنگا نہیں لیتے ۔ بڑی بڑی گاڑیوں سے ہم اپنی اسکوٹر کو دور رکھتے ہیں کہ کہیں اسکریچ لگ گیا تو زندگی بھر کی کمائی غارت ہو جائے گی ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ۔گاؤں میں ایک بہت بڑی حویلی تھی ۔ لیکن اعظم سواتی صاحب کا تو محل ہے ۔جس میں ہم جیسے غریبوں کے دس پندرہ محلے آباد ہو سکتے ہیں۔
گاؤں میں مشہور تھا کہ وہاں ایک بوڑھا نواب رہتا ہے ۔ اس کی جن اور بھوتوں سے دوستی ہے ۔کہنے والے کہتے تھے کہ رات کے وقت خوبصورت چڑیلیں حویلی کے باہر گھومتی تھیں ۔اگر کوئی خوبصورت لڑکا وہاں سے گزرے تو اُسے آنکھ بھی مارتی تھی ۔
اگر کوئی انسان وہاں چلا جائے تو یہ جن اور بھوت اُس کا خون پی لیتے ہیں ۔ اس لیے گاؤں کا کوئی بھی مرد اور عورت اُس حویلی کا رخ نہیں کرتا تھا ۔ سب کو یہ معلوم تھا کہ وہاں جا کر کوئی بھی واپس نہیں آیا ۔ آج کل نیا پاکستان ہے تو یہاں جن اور بھوت بدل گئے ہیں ۔ جس کے جتنے بڑے تعلقات ہوتے ہیں وہ اتنی بڑی حویلی رکھ سکتا ہے ۔کسی چھوٹے سے مسئلے کے لیے آپ جتنے بڑے جن کو فون کر سکتے ہیں آپ اتنے ہی طاقتور نواب کہلائیں گے ۔ اور آپ کے محل کے باہر موجود چڑیلیں جتنے کمزوروں کا خون چوسیں گی آپ کی واہ واہ اتنی زیادہ ہو گی ۔
مجھے یہ قصہ کسی بات پر معین اختر بھائی نے سُنایا تھا ۔ معین بھائی اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ حویلی سے کچھ فاصلے پر گاؤں کے لوگ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ۔انھوں نے میرے پاؤں پر ہاتھ مارا اور زور سے کہنے لگے میاں ایسے لوگوں سے آج بھی دور دور کا سلام ہی رکھنا چاہیے ۔ اپنے پڑوس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے لڑکے تو یقین مان، اتنے سال ہو گئے جب سے مجھے پتہ چلا ہے کہ اس کی بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھک ہے تیرا بھائی پارک میں بھی دور دور سے سلام کرتا ہے ۔ پھرکچھ یاد کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا ہاں کیا کہہ رہا تھا میں ؟
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انھیں یاد آگیا اور کہنے لگے ایک کسان کے پاس ایک ہی بھینس تھی ۔ جس سے وہ دودھ نکال کر بچوں کو دیتا تھا ۔پتہ نہیں کب بھینس رسی توڑ کر بھاگ گئی ۔ میرے منہ سے نکل گیا ''گئی بھینس پانی میں '' ۔ معین بھائی کو میرا بیچ میں لقمہ دینا اچھا نہیں لگا ۔ اس لیے میں نے فوراً کہا جی معین بھائی پھر کیا ہوا ۔اور معین بھائی سگریٹ جلا کر پھر کہنے لگے ۔
گاؤں کے لوگوں نے ہر جگہ بھینس کو تلاش کیا لیکن بھینس کہیں نہیں ملی۔کاش ان کے پاس بھی کسی IG پولیس کا نمبر ہوتا اور یہ بھی ڈائریکٹ فون ملاتے ۔لیکن غریب کی بھینس واقعی پانی میں چلی جاتی ہے ۔ چندہ جمع کر کے ایک جاسوس کو برابر کے گاؤں سے بلایا گیا ۔ اُس نے پاؤں کے نشان سے یہ پتہ لگایا کہ بھینس حویلی کی طرف گئی ہے ۔ گاؤں میں کسی میں ہمت نہیں تھی کہ بھینس کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالے ۔ یہ تو آج کل کا پاگل سوشل میڈیا ہے جو اشاروں اشاروں میں بول دیتا ہے کہ دودھ میں مکھی منہ مار کر گئی ہے ۔کم سے کم سوشل میڈیا کے جعلی اکاؤنٹ کا یہ ہی فائدہ ہوتا ہے کہ شور بھی مچ جاتا ہے اور نام بھی نہیں آتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل کا جہاز بھی رسی توڑ کر انٹرنیٹ پر بھاگ کر پاکستان آگیا ہو گا۔ ورنہ نئے پاکستان کے پرانے وزیر خارجہ نے تو سیدھی سیدھی کروادی ہے ۔
معین بھائی قصہ روکنا نہیں چاہتے تھے کہنے لگے سب باتوں کو چھوڑو اور سنو کہ غریب کسان کے لیے بھینس زندگی کا سرمایہ تھی ۔ اُس نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ یہ بھینس میرے لیے زندگی ہے ۔اس کے بغیر میرے بچے مر جائینگے ۔ میں ہر صورت میں بھینس کو لینے حویلی میں جاؤنگا۔ میں ہوتا تو کہہ دیتا اپنی زندگی کو خطرے میں مت ڈالو وزیر اعظم ہاؤس میں بھینسیں برائے فروخت تھیں وہاں بولی لگا دو ۔ لیکن غریب کو وزیر اعظم ہاؤس جانے کے لیے بھی موبائل میں app ڈالنی پڑتی ۔ اور غریب کسان جس کے پاس کھانے کے پیسے نہ ہوں ، لکھنا آتا نہ ہو وہ موبائل خرید کر app ڈال کر حویلی کی شکایت کیسے کر سکتا ہے ۔ یہاں بھی جو شکایت کا ڈبہ رکھا گیا ہے وہ غریب کے قد سے اونچا رکھا گیا ہے ۔
معین اختر بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اپنی نجی محفل میں اکثر ڈانٹ دیا کرتے تھے ۔ مجھے کہنے لگے تمھیں معلوم ہے اُس کسان نے بوجھل دل کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کو وصیت کی کہ اگر مجھے کچھ بھی ہو جائے تو اُس کے بچوں کا خیال رکھا جائے ۔اس شخص کو بھی معلوم نہیں ہو گا کہ نئے پاکستان میں اگر وہ بھوک سے بچ گیا تو اُس کے گھر والوں کو سود پر گھرضرور ملے گا ۔ وہ شخص تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا حویلی کی طرف جانے لگا ۔
جیسے ہی وہ حویلی کے قریب پہنچااُسے بھینس کی آواز آنا شرو ع ہو گئی ۔ وہ بھاگتاہوا حویلی میں داخل ہوا تو بوڑھا نواب ہاتھ میں لاٹھی پکڑے بھینس کو مار رہا تھا ۔ اور چلا چلا کر کہہ رہا تھاتیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو میری حویلی میں داخل ہو ۔نا ہنجار ، بے عقل ۔۔۔ واقعی ، حویلی کانواب پاگل تھا ، کوئی جانور سے بھی پوچھتا ہے کہ تیری ہمت کیسے ہوئی ۔ سیدھا نیب کے حوالے کر دیتا وہ خود ہی کھوج لگا لیتے کہ یہ گمنام اکاؤنٹ کس کسان کا ہے ۔ کسان تیزی سے اُس کے قریب گیا ۔
بھینس اپنے مالک کو دیکھ کر رک گئی ۔ کسان نے بوڑھے کے ہاتھ سے لاٹھی لی اور ایک تاریخی جملہ کہا جو مجھے اعظم سواتی کے نئے پاکستان میں یاد آگیا ۔ کسان نے کہا کہ نواب صاحب ، آپ کی حویلی بہت بڑی ہے ۔ آپ کے جن اور بھوتوں سے تعلقات ہونگے ۔ لیکن یہ تو جانور ہے ۔ اس میں عقل نہیں تھی ۔ ورنہ آپ نے کبھی کسی انسان کو یہاں دیکھا ہے ۔ کہنے کی بات یہ ہے نیا پاکستان ضرور بن گیا ہے ۔ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آگئی ہے ۔
اس ملک میں جس غریب کو معلوم ہے کہ نواب کے تعلقات کتنے ہیں اور اس کے پاس کون کون سی چڑیلیں اور جن ہیں وہ پنگا نہیں لیتا ۔ اب جس میں عقل نہ ہو وہ ہی اس حویلی میں قدم رکھ سکتا ہے ۔ ہم جیسے لوگ تو حویلی کے نام سے ہی خوف کھا جاتے ہیں ۔کسان نے کہا کہ ایک بات ثابت ہو گئی کہ جس طرح آپ اس جانور کو مار رہے تھے ۔ آپکے ساتھ چڑیلیں ہی رہ سکتی ہے ۔ کیونکہ نہ اس جانور میں عقل ہے اور نہ آپ میں انسانیت ۔
گاؤں میں مشہور تھا کہ وہاں ایک بوڑھا نواب رہتا ہے ۔ اس کی جن اور بھوتوں سے دوستی ہے ۔کہنے والے کہتے تھے کہ رات کے وقت خوبصورت چڑیلیں حویلی کے باہر گھومتی تھیں ۔اگر کوئی خوبصورت لڑکا وہاں سے گزرے تو اُسے آنکھ بھی مارتی تھی ۔
اگر کوئی انسان وہاں چلا جائے تو یہ جن اور بھوت اُس کا خون پی لیتے ہیں ۔ اس لیے گاؤں کا کوئی بھی مرد اور عورت اُس حویلی کا رخ نہیں کرتا تھا ۔ سب کو یہ معلوم تھا کہ وہاں جا کر کوئی بھی واپس نہیں آیا ۔ آج کل نیا پاکستان ہے تو یہاں جن اور بھوت بدل گئے ہیں ۔ جس کے جتنے بڑے تعلقات ہوتے ہیں وہ اتنی بڑی حویلی رکھ سکتا ہے ۔کسی چھوٹے سے مسئلے کے لیے آپ جتنے بڑے جن کو فون کر سکتے ہیں آپ اتنے ہی طاقتور نواب کہلائیں گے ۔ اور آپ کے محل کے باہر موجود چڑیلیں جتنے کمزوروں کا خون چوسیں گی آپ کی واہ واہ اتنی زیادہ ہو گی ۔
مجھے یہ قصہ کسی بات پر معین اختر بھائی نے سُنایا تھا ۔ معین بھائی اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ حویلی سے کچھ فاصلے پر گاؤں کے لوگ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ۔انھوں نے میرے پاؤں پر ہاتھ مارا اور زور سے کہنے لگے میاں ایسے لوگوں سے آج بھی دور دور کا سلام ہی رکھنا چاہیے ۔ اپنے پڑوس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے لڑکے تو یقین مان، اتنے سال ہو گئے جب سے مجھے پتہ چلا ہے کہ اس کی بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھک ہے تیرا بھائی پارک میں بھی دور دور سے سلام کرتا ہے ۔ پھرکچھ یاد کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا ہاں کیا کہہ رہا تھا میں ؟
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انھیں یاد آگیا اور کہنے لگے ایک کسان کے پاس ایک ہی بھینس تھی ۔ جس سے وہ دودھ نکال کر بچوں کو دیتا تھا ۔پتہ نہیں کب بھینس رسی توڑ کر بھاگ گئی ۔ میرے منہ سے نکل گیا ''گئی بھینس پانی میں '' ۔ معین بھائی کو میرا بیچ میں لقمہ دینا اچھا نہیں لگا ۔ اس لیے میں نے فوراً کہا جی معین بھائی پھر کیا ہوا ۔اور معین بھائی سگریٹ جلا کر پھر کہنے لگے ۔
گاؤں کے لوگوں نے ہر جگہ بھینس کو تلاش کیا لیکن بھینس کہیں نہیں ملی۔کاش ان کے پاس بھی کسی IG پولیس کا نمبر ہوتا اور یہ بھی ڈائریکٹ فون ملاتے ۔لیکن غریب کی بھینس واقعی پانی میں چلی جاتی ہے ۔ چندہ جمع کر کے ایک جاسوس کو برابر کے گاؤں سے بلایا گیا ۔ اُس نے پاؤں کے نشان سے یہ پتہ لگایا کہ بھینس حویلی کی طرف گئی ہے ۔ گاؤں میں کسی میں ہمت نہیں تھی کہ بھینس کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالے ۔ یہ تو آج کل کا پاگل سوشل میڈیا ہے جو اشاروں اشاروں میں بول دیتا ہے کہ دودھ میں مکھی منہ مار کر گئی ہے ۔کم سے کم سوشل میڈیا کے جعلی اکاؤنٹ کا یہ ہی فائدہ ہوتا ہے کہ شور بھی مچ جاتا ہے اور نام بھی نہیں آتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل کا جہاز بھی رسی توڑ کر انٹرنیٹ پر بھاگ کر پاکستان آگیا ہو گا۔ ورنہ نئے پاکستان کے پرانے وزیر خارجہ نے تو سیدھی سیدھی کروادی ہے ۔
معین بھائی قصہ روکنا نہیں چاہتے تھے کہنے لگے سب باتوں کو چھوڑو اور سنو کہ غریب کسان کے لیے بھینس زندگی کا سرمایہ تھی ۔ اُس نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ یہ بھینس میرے لیے زندگی ہے ۔اس کے بغیر میرے بچے مر جائینگے ۔ میں ہر صورت میں بھینس کو لینے حویلی میں جاؤنگا۔ میں ہوتا تو کہہ دیتا اپنی زندگی کو خطرے میں مت ڈالو وزیر اعظم ہاؤس میں بھینسیں برائے فروخت تھیں وہاں بولی لگا دو ۔ لیکن غریب کو وزیر اعظم ہاؤس جانے کے لیے بھی موبائل میں app ڈالنی پڑتی ۔ اور غریب کسان جس کے پاس کھانے کے پیسے نہ ہوں ، لکھنا آتا نہ ہو وہ موبائل خرید کر app ڈال کر حویلی کی شکایت کیسے کر سکتا ہے ۔ یہاں بھی جو شکایت کا ڈبہ رکھا گیا ہے وہ غریب کے قد سے اونچا رکھا گیا ہے ۔
معین اختر بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اپنی نجی محفل میں اکثر ڈانٹ دیا کرتے تھے ۔ مجھے کہنے لگے تمھیں معلوم ہے اُس کسان نے بوجھل دل کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کو وصیت کی کہ اگر مجھے کچھ بھی ہو جائے تو اُس کے بچوں کا خیال رکھا جائے ۔اس شخص کو بھی معلوم نہیں ہو گا کہ نئے پاکستان میں اگر وہ بھوک سے بچ گیا تو اُس کے گھر والوں کو سود پر گھرضرور ملے گا ۔ وہ شخص تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا حویلی کی طرف جانے لگا ۔
جیسے ہی وہ حویلی کے قریب پہنچااُسے بھینس کی آواز آنا شرو ع ہو گئی ۔ وہ بھاگتاہوا حویلی میں داخل ہوا تو بوڑھا نواب ہاتھ میں لاٹھی پکڑے بھینس کو مار رہا تھا ۔ اور چلا چلا کر کہہ رہا تھاتیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو میری حویلی میں داخل ہو ۔نا ہنجار ، بے عقل ۔۔۔ واقعی ، حویلی کانواب پاگل تھا ، کوئی جانور سے بھی پوچھتا ہے کہ تیری ہمت کیسے ہوئی ۔ سیدھا نیب کے حوالے کر دیتا وہ خود ہی کھوج لگا لیتے کہ یہ گمنام اکاؤنٹ کس کسان کا ہے ۔ کسان تیزی سے اُس کے قریب گیا ۔
بھینس اپنے مالک کو دیکھ کر رک گئی ۔ کسان نے بوڑھے کے ہاتھ سے لاٹھی لی اور ایک تاریخی جملہ کہا جو مجھے اعظم سواتی کے نئے پاکستان میں یاد آگیا ۔ کسان نے کہا کہ نواب صاحب ، آپ کی حویلی بہت بڑی ہے ۔ آپ کے جن اور بھوتوں سے تعلقات ہونگے ۔ لیکن یہ تو جانور ہے ۔ اس میں عقل نہیں تھی ۔ ورنہ آپ نے کبھی کسی انسان کو یہاں دیکھا ہے ۔ کہنے کی بات یہ ہے نیا پاکستان ضرور بن گیا ہے ۔ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آگئی ہے ۔
اس ملک میں جس غریب کو معلوم ہے کہ نواب کے تعلقات کتنے ہیں اور اس کے پاس کون کون سی چڑیلیں اور جن ہیں وہ پنگا نہیں لیتا ۔ اب جس میں عقل نہ ہو وہ ہی اس حویلی میں قدم رکھ سکتا ہے ۔ ہم جیسے لوگ تو حویلی کے نام سے ہی خوف کھا جاتے ہیں ۔کسان نے کہا کہ ایک بات ثابت ہو گئی کہ جس طرح آپ اس جانور کو مار رہے تھے ۔ آپکے ساتھ چڑیلیں ہی رہ سکتی ہے ۔ کیونکہ نہ اس جانور میں عقل ہے اور نہ آپ میں انسانیت ۔