پرویز الٰہی دور کے ادھورے منصوبے
پنجاب اور سندھ میں درجنوں ایسے منصوبے ہیں جو سابق حکمرانوں نے اپنے ناموں کے ساتھ منسوب کیے ہیں۔
کروشیا یورپی یونین کی چھتری تلے دولت مند اور امیر ترین ممالک کے ساتھ جڑا ایک غریب ملک سمجھا جاتا ہے۔ جس کی 44لاکھ آبادی اور 56 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ ہے۔اس ملک میں 2014ء میں غریب قصاب کی بیٹی کولینڈا کروشیا کی صدر منتخب ہوئی تو دنیا یہ جاننے کے لیے بے تاب تھی کہ اس کے صدر بننے کے پیچھے کیا کہانی چھپی ہے۔
کولینڈا صدر بننے سے پہلے کروشیا کی وزیر خارجہ تھیں، اس نے اس حیثیت سے اسے یورپین یونین کا رکن بنوایا۔ جس سے سے روزگار اور تجارت کے بے پناہ مواقع میسر آئے۔وہ پہلی مرتبہ ATOکی خاتون اسسٹنٹ سیکریٹری منتخب ہوئی۔وہ امریکا میں اپنے ملک کی پہلی خاتون سفیر مقرر ہوئی۔
وزارت خارجہ کا مشکل فریضہ انتہائی خوبصورتی سے نبھایا۔ اور آج کروشیا یورپی ملکوں میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ اُس کی معیشت ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہی ہے، اس کی وجہ ماہرین اقتصادیات کے نزدیک کولینڈا کی معاشی پالیسیاں ہیں ۔ اور اس کے ساتھ کولینڈا کی وہ پالیسیاں سب سے زیادہ موضوع بحث ہیں اور قابل تعریف سمجھی جا رہی ہیں۔
جن میں سابقہ حکومت کے منصوبوں کو اُس نے بغیر کسی بہانے کے جاری رکھنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اُس نے انھیں پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔ اُس کا کہنا ہے کہ جس منصوبے میں عوام کا ایک یورو بھی خرچ ہوا ہے وہ ضرور مکمل ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر سابقہ حکومت نے کچھ منصوبوں کو غلط ڈیزائن کیا ہے تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے؟ ہم اُس 'ڈیزائن' کو ٹھیک کرکے آگے چلیں گے۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کولینڈا کو سب سے زیادہ شہرت اُس وقت ملی جب رواں سال کروشیا فٹ بال ورلڈ کپ میں فتح حاصل کر رہا تھااور صدر کولینڈا اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر میچ میں موجود ہوتی تھیں۔ جب اُس کی ٹیم کو فرانس کے ہاتھوں شکست ہوئی تو دنیا نے اُسے کپتان کے ساتھ گلے لگ کر دھاڑیں مارتے روتے دیکھا۔
کروشیا کی صدر کی یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدانوں میں اس قدر حب الوطنی ہے؟ کیا ہمارے سیاستدانوں کے اندر اس قدر ظرف ہے کہ وہ سابقہ حکومت کے منصوبوں کو آگے لے کر چلیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے، کیوں کہ ہمارے سیاستدان بذات خود اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اربوں روپے کے عوامی پراجیکٹس ادھورے چھوڑ کر آگے چل نکلتے ہیں۔ اس کی مثال آپ پنجاب کی لے لیں، جہاں دس سال تک ن لیگ نے حکمرانی کی ہے، 2008ء سے 2018ء تک ہر اُس منصوبے کی نفی کی گئی جس پر سابقہ پرویز الٰہی حکومت کی تختی لگی ہوئی تھی۔
یہ بات تو دنیا مانتی ہے کہ اُس دور کے تمام پراجیکٹس ''کاسمیٹکس'' نہیں تھے بلکہ خالصتاََ غریب پرور اور عام لوگوں کی بھلائی کے منصوبے تھے۔ وزیرآباد، لیہ، ننکانہ اور ملتان بہاولپور جیسے دور دراز کے شہروں میں دل و دیگر بیماروں کے اسپتال شروع کیے جو آج بھی ادھورے ہیں، دس سال گزرنے کے باوجود وہاں کے عوام علاج کے لیے لاہور آتے ہیں جہاں انھیں آپریٹ کروانے کے لیے مہینوں، بلکہ سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ملتان میں پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈ یالوجی کا 30کروڑ کا سالانہ بجٹ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 2008ء سے 2013ء کے درمیان بتدریج کم کرتے ہوئے 10کروڑ روپے سالانہ کر دیاگیا، یہ محض اس لیے کیا گیا کہ اُس اسپتال کے مین گیٹ پر چوہدری پرویز الٰہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ امراض قلب کا یہ اسپتال جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں کے ساتھ خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان ، ٹانک اور بنوں ، جب کہ بلوچستان کے ژوب لورالائی اور ملحقہ علاقوں کے ساتھ سند ھ کے ان علاقوں کے مریضوں کا بوجھ بھی اُٹھا ئے ہوئے ہے جو جنوبی پنجاب سے ملحقہ ہیں۔ لوگوں کے احتجاج کے باوجودہ اس اسپتال کا پرویز الٰہی دور والا بجٹ بحال کر نے سے نکار کر دیا گیا۔ ملتان میں ہی نشتر اسپتال و میڈیکل کالج ہے کبھی یہ اسپتال اور میڈیکل کالج جنوبی ایشیاء کے بہترین اداروں میں شمار ہوتا تھا مگر اب بدترین حالات کا شکار ہے۔
تعلیم جیسے شعبے کو سیاسی مخالفت کی وجہ سے بجائے وہیں سے شروع کیا جاتا جہاں سابق حکمرانوں نے چھوڑا تھا، حالانکہ عمران مسعود(سابقہ وزیر تعلیم) کی خدمات سے کون واقف نہیں لیکن اُن کے منصوبوں کو مکمل کرنے کے بجائے دانش اسکول جیسے منصوبے شروع کیے گئے جن میں نئی بلڈنگز قائم کرکے اربوں روپے ڈکار لیے گئے۔ اور نتیجہ صفر۔ حالانکہ اُس دور میں خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا تھا، 62ہزار سرکاری اسکولوں کو نظر انداز کر کے 4دانش اسکول بنانا کون سی دانشمندی تھی؟
پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی پرویز الٰہی کا شاندار منصوبہ تھا۔ جس سے مسافروں کو خاصا تحفظ حاصل ہوا۔لیکن مجال ہے کہ اس منصوبے میں توسیع کی گئی ہو۔ اور پھر سب سے اہم یہ کہ اُس دور میں چونگی امر سدھو سے آگے انڈر گراؤنڈ میٹرو ٹرین کا بھی منصوبہ بنایاگیا، جس پر محض 30ارب روپے اخراجات آنے تھے اور شہر کی محض 6مقامات سے کھدائی ہونی تھی اور ماحولیات پر بھی کم سے کم اثر پڑنا تھا اس منصوبے پر اُس وقت ایک ارب روپیہ خرچ کیا جاچکا تھا، کیا عوام ان پیسوں کا حساب لینے کے حوالے سے حق بجانب ہیں؟ مگر اس کی نسبت شہباز شریف نے 2014ء میں اورنج ٹرین منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔
چوہدری پرویز الٰہی جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تب انھوں نے پنجاب کے عوام کو ریسکیو 1122،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز کے تحفے دیے۔ پھر چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے 2007ء میں فرانزک لیب قانون کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔مگر سابق حکومت نے فرانزک منصوبے پر 5 سال تک کام روکے رکھااور ابھی تک وہ مکمل نہیں ہوا، ڈی ایچ کیو منڈی بہاؤ الدین اور گجرات سالم روڈ پر 10سال تک کام نہیں ہونے دیا۔
وزیرآباد کارڈیالوجی اسپتال10سال تک آپریشنل نہ ہو نے دیا۔جنوبی پنجاب میں برن یونٹس کو مکمل نہیں ہونے دیا گیا ۔لاہور کا رنگ روڈ منصوبہ آج بھی زیر تعمیر ہے ، جسے پرویز الٰہی دور ہی میں بنایا گیا تھا۔ سیالکوٹ کی ترقی کا 34 ارب کا منصوبہ سابق حکومت نے آکر ختم کردیا۔ حالانکہ پرویز الٰہی نے حکومت ختم ہونے کے بعد کہا تھا کہ یہ منصوبے مکمل کریں، اگر آپ کو میرے نام کی تختی سے مسئلہ ہے تو میں انھیں اُتار دیتا ہوں مگر عوام کے لیے فلاحی منصوبوں کو مکمل ضرور کیا جائے۔
بہرکیف ادھورے کام پورے کرنے چاہیئں،یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔ہمیں شخصیت پرستی کو بھی ختم کرنا ہوگا، ہمیں مخالفت برائے مخالفت کو بھی ختم کرنا ہوگا، ہمیں یہ کلچر ختم کرنا ہوگا کہ جس سے ہمیں دوسروں کی چیزیں پسند نہیں آتیں۔
پنجاب اور سندھ میں درجنوں ایسے منصوبے ہیں جو سابق حکمرانوں نے اپنے ناموں کے ساتھ منسوب کیے ہیں حالانکہ ان پر سرکاری خزانے سے رقوم خرچ کی گئی ہیں،حقیقت میں ہم ذہنی طور پر اس قدر بیمار کیوں ہو چکے ہیں، ذہنی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ اور اس دیوالیہ پن میں ملک کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے قومی وصوبائی اسمبلیوں چاہیے کہ وہ اس حوالے سے سخت سے سخت قانون سازی کریں ۔ خدارا ہم کروشیائی صدر کولینڈا سے ہی کچھ سیکھ جائیں ،جس نے قومی مفاد میں شروع کیے گئے سابق حکومت کے کسی منصوبے کی مخالفت تو نہیں کی۔