تحریک انصاف کا انداز بادشاہت بیوروکریسی کے مسائل
تحریک انصاف بیوروکریٹس کو افسران کے بجائے حکومت کا غلام سمجھنے لگے ہیں۔
تحریک انصاف اور عمران خان اپوزیشن کے دور میں ن لیگ پر سب سے بڑا الزام یہی لگاتے تھے کہ انھوں نے افسر شاہی کو اپنا ذاتی ملازم بنا لیا ہے۔ عمران خان پکار پکار کر افسران کے نام لیتے تھے کہ یہ افسران سرکار کے بجائے شریف خاندان کے ملازم بن گئے ہیں۔یہ الزام بھی لگایا جاتا کہ شریف خاندان نے پنجاب اور مرکز میں بالخصوص بادشاہت قائم کر لی ہے۔ افسران کو میرٹ کے بجائے وفاداری اور تابعداری کے معیار پر تعینات کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے اسی بنیاد پر پولیس میں اصلاحات کا نعرہ لگایا۔
افسران کو میرٹ پر لگانے کا نعرہ لگایا۔ افسر شاہی کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرنے کا نعرہ لگایا۔ میرٹ پر تعیناتیاں کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ابھی سو دن مکمل بھی نہیں ہوئے، صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ عمران خان خود بار بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ بیوروکریسی ان سے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ حکومتی کام رک گئے ہیں۔
اس ضمن میں عمران خان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد اعلیٰ سنیئر افسران سے خطاب بھی کیا۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف اور بیوروکریسی کے درمیان عدم اعتماد، عدم تعاون ، سر دمہری اور تناؤ کی ایک فضا پہلے دن سے قائم تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
اس ضمن میں جہاں تحریک انصاف کا قصور ہے وہاں نیب نے بھی خوف و ہراس کا ایک ماحول بنا دیا ہے۔ نیب کی وجہ سے بیوروکریسی شدید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ افسران کام کرنے اور کسی بھی فائل پر کوئی فیصلہ کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ پکڑے جانے کا خوف۔ بے جا انکوائریوں میں ذلت کا خوف۔ ایسے میں سمجھیں سب نے قلم چھوڑ دیا۔ جو تعینات ہیں وہ بھی کام نہیں کر رہے اور جو تعینات نہیں وہ کہیں لگنے کے لیے تیار نہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تحریک انصاف کے پاس حکومت گرانے کا اسکرپٹ توموجود تھا۔ لیکن حکومت کرنے کا کوئی اسکرپٹ نہیں تھا۔ حکومت کیسے چلانی ہے، اس کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ عوام یہ طے نہیں کر پا رہے کہ یہ حکومت نالائق ہے یا ناتجربہ کار۔ بہر حال دونوں صورتوں میں نا اہلی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ افسر شاہی کے معاملے میں بھی تحریک انصاف کی نا تجربہ کاری اور نا اہلی کھل کر سامنے آ ٓرہی ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کا پہیہ چل ہی نہیں پا رہا۔
تحریک انصاف پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے پاکستان کی سیاست میں گالی گلوچ اور بد تمیزی کا کلچر پروان چڑھایا ہے۔ سیاست سے رواداری ختم کر دی ہے۔ تو تڑاک کا کلچر عام کر دیا ہے۔ باہمی عزت و احترام ختم کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو شاید تحریک انصاف کے پہلے سو دن کے اندر سیاستدانوں کے بعد اب افسر شاہی کو بھی تحریک انصاف سے یہی شکایت پیدا ہو گئی کہ تحریک انصاف کی حکومت افسر شاہی کے ساتھ ڈیل کرنے میں باہمی احترام کا خیال نہیں رکھتی۔ افسران کو اپنی عزت کا تحفظ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افسر شاہی کے اندر یہ تاثر مضبوط ہو تا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف بیوروکریٹس کو افسران کے بجائے حکومت کا غلام سمجھنے لگے ہیں۔ کسی بھی کام کو نہ کرنے کو حکم عدولی سمجھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے بیوروکریٹس کے حوالے سے ایک بادشاہی سوچ اپنا لی ہے۔ جس میں بادشاہ سلامت کے کسی بھی کام کو نہ کرنے کا مطلب سلطنت سے بے وفائی اور نوکری سے چھٹی اور سزا کے مستحق قرار پانا ہے۔ جس طرح بادشاہ اپنی حکومت چلاتا ہے اسی طرح تحریک انصاف بھی حکومت چلانا چاہ رہی ہے۔ اب تک کے تحریک انصاف کے انداز حکمرانی نے یہی تاثر دیا ہے۔
پنجاب اور اسلام آباد کے آئی جی کے تبادلوں نے تو حد کردی ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح تو تھانوں کے ایس ایچ او تبدیل نہیں کیے جاتے ہیں۔پہلے تبادلوں کے تنازعہ پر ہی پنجاب کے آئی جی کو تعیناتی کے چند دن بعد ہی تبدیل کر دیا گیا ۔ اب ایک وزیر کا فون نہ سننے پر اسلام آباد کے آئی جی کو تبدیل کر دیا گیا۔ ان تبادلوں سے صاف ظاہر ہے تحریک انصاف کو ڈمی آئی جی کی تلاش ہے۔ اسی کوشش میں تبدیلی پر تبدیلی کی جا رہی ہے۔ایسے میں کیسی گڈ گورننس ؟
لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر ایک وزیر کا فون نہ سننے اور من پسند تبادلوں پر انکار پر آئی جی تبدیلی کیے جا سکتے ہیں تو ماضی میں پی پی پی کی سندھ حکومت کو آئی جی تبدیل کرنے کی کیوں اجازت نہیں دی گئی۔ پنجاب میں آئی جی کی تعیناتی کے حوالے سے بھی اعلیٰ عدلیہ کے نوٹس کی روایت موجود ہے۔ اسلام آباد آئی جی کے تبادلے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ لیکن پنجاب کے آئی جی کے تبادلے پر نوٹس نہ لینے کی وجہ سے تحریک انصاف کے حوصلہ بلند ہوئے اور انھوں نے سوچا کہ وہ کچھ بھی کر سکتے۔ اسی طرح ڈی پی او پاکپتن کے معاملے میں بھی بیچارے ڈی پی او کا تبادلہ منسوخ نہیں کیا گیاجس نے تحریک انصاف کے اندر بادشاہت کے جراثیم مضبوط کر دیے۔
بہر حال وزیر اعظم عمران خان نے ایک پورٹل کا بھی افتتاح کیا ہے جہاں عام آدمی افسر شاہی کے خلاف شکایا ت درج کرا سکیں گے۔ یہ ایک اچھی کاوش قرار دی جا سکتی تھی اگر ملک میں گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار قائم ہوتے۔ اگر حکومت خود ہی افسر شاہی کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرے گی اور اس کوشش میں آخری حد تک جانے کی کوشش کرے گی تو عام آدمی کی شکایت کا کیا وزن ہوگا۔ ایسے میں تو یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس پورٹل کو بھی بیوروکریٹس کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ بیوروکریسی نے بھی پاکستان میں کوئی شاندار روایت نہیں قائم کی ۔ سرخ فیتہ اور عوام سے عدم تعاون کی وجہ سے بیوروکریسی کو عوا م میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا جاتا۔ لوگ افسروں سے نہ صرف خوف زدہ ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سفارش کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں برے افسر ہیں وہاں اچھے افسران بھی موجود ہیں۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اچھے ایماندار اور میرٹ پر کام کرنے والے افسران کو اچھی جگہوں پر لگاتی ۔ لیکن پہلے دن سے ہی غلط پالیسی بنائی گئی۔ افسران کی صلاحیتوں کے بجائے ان کو شک سے دیکھا گیا۔
لسٹیں میرٹ یاصلاحیت پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر بنائی گئیں کہ کس کس نے گزشتہ حکومت کے ساتھ کام کیا ہے۔ ایک سوچ بنا لی گئی ہے کہ جس بیوروکریٹ نے گزشتہ حکومت کے ساتھ کام کیا ہے وہ مشکوک ہے۔ بعد میں احساس ہوا کہ ایسے تو ملک چل ہی نہیں سکتا۔ اس لیے یہ پالیسی بدلی گئی لیکن شک کے جو بیج بوئے گئے ہیں وہ ابھی تک صاف نظر آرہے ہیں۔ شک اور بادشاہی انداز حکمرانی نے مل کر افسر شاہی کے لیے زمین تنگ کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہی ہے۔ اسے سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں جو نظام حکومت رائج ہے اس میں افسر شاہی کے بغیر نظام حکومت چلانا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف سے نظام حکومت چل نہیں رہا۔ نئے واقعات نے ماحول کو مزید خراب کر دیا ہے۔
افسران کو میرٹ پر لگانے کا نعرہ لگایا۔ افسر شاہی کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرنے کا نعرہ لگایا۔ میرٹ پر تعیناتیاں کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ابھی سو دن مکمل بھی نہیں ہوئے، صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ عمران خان خود بار بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ بیوروکریسی ان سے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ حکومتی کام رک گئے ہیں۔
اس ضمن میں عمران خان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد اعلیٰ سنیئر افسران سے خطاب بھی کیا۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف اور بیوروکریسی کے درمیان عدم اعتماد، عدم تعاون ، سر دمہری اور تناؤ کی ایک فضا پہلے دن سے قائم تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
اس ضمن میں جہاں تحریک انصاف کا قصور ہے وہاں نیب نے بھی خوف و ہراس کا ایک ماحول بنا دیا ہے۔ نیب کی وجہ سے بیوروکریسی شدید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ افسران کام کرنے اور کسی بھی فائل پر کوئی فیصلہ کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ پکڑے جانے کا خوف۔ بے جا انکوائریوں میں ذلت کا خوف۔ ایسے میں سمجھیں سب نے قلم چھوڑ دیا۔ جو تعینات ہیں وہ بھی کام نہیں کر رہے اور جو تعینات نہیں وہ کہیں لگنے کے لیے تیار نہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تحریک انصاف کے پاس حکومت گرانے کا اسکرپٹ توموجود تھا۔ لیکن حکومت کرنے کا کوئی اسکرپٹ نہیں تھا۔ حکومت کیسے چلانی ہے، اس کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ عوام یہ طے نہیں کر پا رہے کہ یہ حکومت نالائق ہے یا ناتجربہ کار۔ بہر حال دونوں صورتوں میں نا اہلی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ افسر شاہی کے معاملے میں بھی تحریک انصاف کی نا تجربہ کاری اور نا اہلی کھل کر سامنے آ ٓرہی ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کا پہیہ چل ہی نہیں پا رہا۔
تحریک انصاف پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے پاکستان کی سیاست میں گالی گلوچ اور بد تمیزی کا کلچر پروان چڑھایا ہے۔ سیاست سے رواداری ختم کر دی ہے۔ تو تڑاک کا کلچر عام کر دیا ہے۔ باہمی عزت و احترام ختم کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو شاید تحریک انصاف کے پہلے سو دن کے اندر سیاستدانوں کے بعد اب افسر شاہی کو بھی تحریک انصاف سے یہی شکایت پیدا ہو گئی کہ تحریک انصاف کی حکومت افسر شاہی کے ساتھ ڈیل کرنے میں باہمی احترام کا خیال نہیں رکھتی۔ افسران کو اپنی عزت کا تحفظ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افسر شاہی کے اندر یہ تاثر مضبوط ہو تا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف بیوروکریٹس کو افسران کے بجائے حکومت کا غلام سمجھنے لگے ہیں۔ کسی بھی کام کو نہ کرنے کو حکم عدولی سمجھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے بیوروکریٹس کے حوالے سے ایک بادشاہی سوچ اپنا لی ہے۔ جس میں بادشاہ سلامت کے کسی بھی کام کو نہ کرنے کا مطلب سلطنت سے بے وفائی اور نوکری سے چھٹی اور سزا کے مستحق قرار پانا ہے۔ جس طرح بادشاہ اپنی حکومت چلاتا ہے اسی طرح تحریک انصاف بھی حکومت چلانا چاہ رہی ہے۔ اب تک کے تحریک انصاف کے انداز حکمرانی نے یہی تاثر دیا ہے۔
پنجاب اور اسلام آباد کے آئی جی کے تبادلوں نے تو حد کردی ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح تو تھانوں کے ایس ایچ او تبدیل نہیں کیے جاتے ہیں۔پہلے تبادلوں کے تنازعہ پر ہی پنجاب کے آئی جی کو تعیناتی کے چند دن بعد ہی تبدیل کر دیا گیا ۔ اب ایک وزیر کا فون نہ سننے پر اسلام آباد کے آئی جی کو تبدیل کر دیا گیا۔ ان تبادلوں سے صاف ظاہر ہے تحریک انصاف کو ڈمی آئی جی کی تلاش ہے۔ اسی کوشش میں تبدیلی پر تبدیلی کی جا رہی ہے۔ایسے میں کیسی گڈ گورننس ؟
لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر ایک وزیر کا فون نہ سننے اور من پسند تبادلوں پر انکار پر آئی جی تبدیلی کیے جا سکتے ہیں تو ماضی میں پی پی پی کی سندھ حکومت کو آئی جی تبدیل کرنے کی کیوں اجازت نہیں دی گئی۔ پنجاب میں آئی جی کی تعیناتی کے حوالے سے بھی اعلیٰ عدلیہ کے نوٹس کی روایت موجود ہے۔ اسلام آباد آئی جی کے تبادلے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ لیکن پنجاب کے آئی جی کے تبادلے پر نوٹس نہ لینے کی وجہ سے تحریک انصاف کے حوصلہ بلند ہوئے اور انھوں نے سوچا کہ وہ کچھ بھی کر سکتے۔ اسی طرح ڈی پی او پاکپتن کے معاملے میں بھی بیچارے ڈی پی او کا تبادلہ منسوخ نہیں کیا گیاجس نے تحریک انصاف کے اندر بادشاہت کے جراثیم مضبوط کر دیے۔
بہر حال وزیر اعظم عمران خان نے ایک پورٹل کا بھی افتتاح کیا ہے جہاں عام آدمی افسر شاہی کے خلاف شکایا ت درج کرا سکیں گے۔ یہ ایک اچھی کاوش قرار دی جا سکتی تھی اگر ملک میں گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار قائم ہوتے۔ اگر حکومت خود ہی افسر شاہی کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرے گی اور اس کوشش میں آخری حد تک جانے کی کوشش کرے گی تو عام آدمی کی شکایت کا کیا وزن ہوگا۔ ایسے میں تو یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس پورٹل کو بھی بیوروکریٹس کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ بیوروکریسی نے بھی پاکستان میں کوئی شاندار روایت نہیں قائم کی ۔ سرخ فیتہ اور عوام سے عدم تعاون کی وجہ سے بیوروکریسی کو عوا م میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا جاتا۔ لوگ افسروں سے نہ صرف خوف زدہ ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سفارش کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں برے افسر ہیں وہاں اچھے افسران بھی موجود ہیں۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت اچھے ایماندار اور میرٹ پر کام کرنے والے افسران کو اچھی جگہوں پر لگاتی ۔ لیکن پہلے دن سے ہی غلط پالیسی بنائی گئی۔ افسران کی صلاحیتوں کے بجائے ان کو شک سے دیکھا گیا۔
لسٹیں میرٹ یاصلاحیت پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر بنائی گئیں کہ کس کس نے گزشتہ حکومت کے ساتھ کام کیا ہے۔ ایک سوچ بنا لی گئی ہے کہ جس بیوروکریٹ نے گزشتہ حکومت کے ساتھ کام کیا ہے وہ مشکوک ہے۔ بعد میں احساس ہوا کہ ایسے تو ملک چل ہی نہیں سکتا۔ اس لیے یہ پالیسی بدلی گئی لیکن شک کے جو بیج بوئے گئے ہیں وہ ابھی تک صاف نظر آرہے ہیں۔ شک اور بادشاہی انداز حکمرانی نے مل کر افسر شاہی کے لیے زمین تنگ کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہی ہے۔ اسے سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں جو نظام حکومت رائج ہے اس میں افسر شاہی کے بغیر نظام حکومت چلانا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف سے نظام حکومت چل نہیں رہا۔ نئے واقعات نے ماحول کو مزید خراب کر دیا ہے۔