پریشانیاں صرف عوام کے لیے کیوں
ہر حکومت میں مشکل وقت کی باتیں سن سن کر عوام بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا صرف مشکلات عوام کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔
نیا پاکستان بنانے کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان نے پرانے پاکستان کے تمام وزرائے اعظم کی طرح یہ کہہ کر عوام کو خوفزدہ کردیا ہے کہ سابق حکومت خزانہ خالی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ چھوڑکرگئی ہے، اس لیے حکومت کو مہنگائی کرنا پڑی، جس کی وجہ سے عوام کو ابھی مزید پریشانیاں اور مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی۔
عوام کو تو پتا ہے کہ یہ باتیں وہ عمران خان نہیں کر رہے جو ہمیشہ عوام کی مشکلات دور کرنے کے دلاسے دیا کرتے تھے اور ماضی کی تمام برائیوں کا ذمے دار وقت کے حکمرانوں کو قرار دیا کرتے تھے اور اب دو ماہ سے اقتدار میں آنے والے عمران خان بھی اب سابقہ وزرائے اعظم جیسے ہی بیانات دے رہے ہیں یا انھیں وزیر اعظم بنوانے والے ان سے ماضی جیسے حکمرانوں جیسے بیانات دلا رہے ہیں۔ عوام میں اب یہ تاثر قوی ہوتا جا رہا ہے کہ عمران خان کو عوام نے نہیں کسی اور نے وزیر اعظم بنوایا ہے ، اسی لیے وہ بھی اب سابق حکمرانوں کی زبان بولنے پر مجبور ہیں۔
اب تک ہر نئے حکمران نے اقتدار میں آکر وہی باتیں کی ہیں جو آج وزیراعظم عمران خان دہرا رہے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا ہے نہ ماضی میں رہا ہے جس کا ایک واضح ثبوت کرپشن کے الزامات سے پاک اور معیشت کے ماہر سابق سویلین صدر غلام اسحق خان نے فروری 1999 میں راقم الحروف کے سوال کے جواب میں دیا تھا۔ اس وقت کے صدر مملکت 1988 میں اقتدار میں آنے والی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دیے جانے والے مسلسل بیانات کہ خزانہ خالی ہے اور سابق حکومت ورثے میں مسائل اور قرضوں کا بوجھ ہمیں دے کرگئی ہے ۔
جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ صدر غلام اسحق میرے آبائی شہر شکارپور حاجی مولا بخش سومرو کی تعزیت پر آئے تھے تو میں نے صدر مملکت سے پوچھا تھا کہ آپ جنرل ضیا الحق کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے اور بعد میں ان کی شہادت کے بعد قائم مقام صدر بھی تھے تو کیا آپ نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو خزانہ خالی دیا تھا تو جواب میں صدر مملکت نے کہا تھا کہ پاکستان کا خزانہ مغلوں کا خزانہ تو ہے نہیں کہ رات کو خزانے میں ہیرے جواہرات آئے اور صبح نکال لیے گئے یہ جمہوری ملک ہے کہ جہاں ہرکام قانونی طریقے سے ہوتا ہے۔
راقم نے صدر سے دوبارہ سوال کیا کہ اس کا مطلب کہ خزانہ خالی نہیں ہے اور وزیر اعظم کا کہنا غلط ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ صدر مملکت نے میرے دوسرے سوال کا واضح جواب نہیں دیا تھا کہ یہ آپ وزیر اعظم سے پوچھیں یا جو چاہیں سمجھیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم تو کہیں ملی نہیں تھیں مگر میرے سوال کا جواب میڈیا میں نمایاں ہوکر چھپا تھا جس کے بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پھر کبھی نہیں کہا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے۔
عمران خان ، نواز شریف،آصف زرداری سمیت ہر حکمران نے سابق حکومتوں کو ہی ہمیشہ ورثے میں ملنے والے مسائل اور قرضوں کے بوجھ کا ذمے دار ٹھہرایا ہے اورکہنا بھی بہت آسان ہے اور اپنی نااہلیت کا ملبہ ماضی کے حکمرانوں پر ڈال دینا معمول رہا ہے اور نئے پاکستان کے وزیراعظم نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر شپنگ نے بھی کہا ہے کہ عوام کو ابھی کچھ وقت پریشانی برداشت کرنی پڑے گی جس کے بعد حالات بہتر اور مہنگائی کم ہوجائے گی۔ وزیر خزانہ سمیت تمام ہی وزرا یہی گیت الاپ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر بھی سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی طرح کہہ رہے ہیں کہ حکومتی اقدامات کا غریبوں پر اثر نہیں پڑے گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومتی اقدام کا اثر پڑتا ہی غریبوں پر ہے اور وزرائے خزانہ کے نزدیک وہ کون سے غریب ہیں جن پر بجٹ کا اثر نہیں پڑتا۔
ہر وزیر خزانہ وہی پرانی منطقیں جھاڑکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے اور اسد عمر بھی وہی روش اختیار کرچکے ہیں۔ سابق حکومتوں پر تنقید کرنے والے موجودہ حکمران بھی یو ٹرن لے کر آئی ایم ایف کے آگے جھولی پھیلانے کے لیے چل پڑے ہیں جس کے لیے مختلف جواز ڈھونڈے گئے ہیں اورکشکول پھیلانا ضروری بنا دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں ہر چھوٹا ملک ہی نہیں بڑا ملک بھی قرض لیتا آیا ہے مگر وہاں یہ صورتحال نہیں ہوتی جو ہر حکومت کے تبدیل ہونے پر پاکستان میں ہوجاتی ہے۔ ہر عقل مند شخص قرض لینے سے پہلے بعد میں اس کی ادائیگی کا طریقہ سوچ کر رکھتا ہے اور اندھا دھند قرض لینے سے گریز کرتا ہے تو کیا پاکستان میں حکمرانوں اور وزرائے خزانہ کبھی نہیں سوچتے کہ قرض واپس کرنا بھی ہماری ہی ذمے داری ہوگی۔
سابق (ن) لیگی حکومت اور پارٹی سربراہوں کو سو فیصد امید تھی کہ وہی دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور ایسی صورتحال بھی واضح تھی تو کیا وہ ملک کا خزانہ خالی چھوڑ کر جاتے۔ درمیان میں جو نگران حکومت آئی تھی اس کے وزیر خزانہ نے ڈھائی ماہ کے دوران یہ صورتحال نہیں بتائی تھی جو نئی حکومت کے وزیر خزانہ اور تمام وزرا بتا رہے ہیں اور ہرکوئی یہی کہہ رہا ہے کہ عوام کو مشکل وقت برداشت کرنا پڑے گا۔
ہر حکومت میں مشکل وقت کی باتیں سن سن کر عوام بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا صرف مشکلات عوام کے لیے ہی رہ گئے ہیں، اگر معاشی صورتحال خراب ہے تو وفاقی کابینہ میں دوستوں اور پارٹی رہنماؤں کی اتنی بڑی تعداد میں شامل کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا ۔ پی ایم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کے نیلام سے کیا ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوسکتی تھی یا وہ محض دکھاوا تھا۔ آئی ایم ایف کے پاس جاکر عوام پر مہنگائی بڑھانا اور اپنے روپے کی ویلیو مسلسل گرانا ہی اس مسئلے کا حل رہ گیا ہے کہ حکومت میں آنے سے قبل قرض لینے کی مخالفت کی جاتی ہے اور پھر بہانے سے یوٹرن لے کر قرضے کے لیے جھولی پھیلا دیتے ہیں ۔