صحت ایک عظیم نعمت
دل خوش ہوتا ہے تو خزاں بھی بہار ہے اور ایک بیمار انسان کا دل ہمیشہ پریشان رہتا ہے، اسے ہر شے اداس نظر آتی ہے۔
گزشتہ ماہ میری والدہ شدید علیل ہونے کے سبب کراچی شہرکے جدید نجی اسپتال میں زیر علاج تھیں ۔ اللہ کے فضل وکرم اور احباب کی دعاؤں کے طفیل روبصحت ہوئی ہیں ۔ ہمارا کلی ایمان ہے کہ دنیائے فانی میں ہر چیزکا علاج ممکن ہے سوائے موت کے ۔ موت برحق ہے اور دنیا بھی فانی ہے۔
یہ اپنے مقررکردہ وقت پر ضرور دستک دے گی اور آپ کو لازمی جانا پڑے گا ۔ امی کی دیکھ بھال کے لیے بڑی ہمشیرہ سعیدہ نقوی جنھوں نے اس حقیرکو قلم پکڑنا سکھایا اور برادر ظفرعباس نقوی کے علاوہ کچھ وقت راقم السطورکو بھی اسپتال میں رہنے کا اتفاق ہوا۔
انتہائی نگہداشت کے اس وارڈ میں زیرعلاج مصنوعی آکسیجن کے ذریعے مریض جس تکلیف اورکرب کا شکار تھے کہ دیکھنے والا یہی دعا کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اے! باری تعالی ان کو یا تو صحتیاب کردے یا ان کی مشکل آسان کر دے ۔ان مریضوں کی لگ بھگ عمریں یہی کوئی پچاس کے اوپر ہونگی ۔
اسپتال کا عملہ بلاشبہ انسانی خدمت کے جذبے سے سرشارایمانداری سے ان مریضوں کی شب وروز دیکھ بھال میں مسلسل مصروف عمل تھا ۔ اس اسپتال میں مجموعی طور پرعلاج معالجے پر آنے والے تخمینی اخراجات ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں روپے میں آتے ہیں ۔ چند لمحے کے لیے میں نے سوچاکہ جن کے پاس اس اسپتال کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت ہے، وہ تو ان لمحات کوکسی حد تک بآسانی یا بمشکل برداشت کرلیتے ہونگے، مگر ہمارے وطن عزیز میں بیشتر آبادیاں غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہیں، مہنگائی اور بیروزگاری کے دور میں ان کے علاج کے کیا ذرایع ہونگے۔
سرکاری اورخیراتی اسپتالوں کا برا حال ہے۔ ویسے بھی پچاس سال کے بعد انسان کے ظاہری اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ حکومتی سطح پر بزرگ شہریوں کے علاج معالجے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ۔ عمران خان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت عام شہری کے مفت علاج و معالجے کے لیے ہر فرد کو صحت کارڈ کا اجرا کرے گی ۔
میں سمجھتا ہوں کہ پچاس سال سے زائد عمرکے افراد کے لیے علاج معالجے کی مکمل اور بلا تفریق سہولتیں جدید نجی اسپتالوں کی طرز پر ہونی چاہیے۔ فی الحال تو خزانہ خالی ہے کا روایتی راگ الاپا جا رہا ہے، قرض کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کس سے قرضہ لیں اورکس سے نہ لیں۔ اسپتال اور قبرستان دو ایسے مقامات ہیں جہاں انسان کچھ وقت کے لیے اللہ کی وحدانیت کا دل سے اقرار کرتا ہے مگر جب باہر آتا ہے تو سب کچھ بھول کر دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو جاتا ہے۔
جس طرح دنیا ترقی کرتے کرتے سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیارکرچکی ہے، اسی طرح انسان کی زندگی بھی سمٹ کر سو سال سے پچاس سال ہوگئی ہے۔ عمر پچاس سال سے اگر خوش قسمتی سے تجاوز بھی کرجائے تو سمجھ لیں کہ بونس ہے ، دراصل ہم اپنی صحت کے خود دشمن ہیں ۔ بے وقت بسیارخوری، بازاری کھانے، متوازن خوراک کا فقدان ، پیدل چلنے یا جسمانی ورزشوں کی عادت کو نہ اپنانا ، زیادہ دیر سے سونا جیسے مہلک بد پرہیزیاں ہم روزانہ کرتے ہیں، جو صحت کے لیے مضر ہیں۔
معروف عالمی ماہرطب 'سپینسر' کے بقول 'صحت کے قوانین کی خلاف ورزی جسمانی گناہ ہے' ادھر '' ایمرسن '' بھی صحت کی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے '' صحت مند جسم سب سے بڑی دولت ہے '' اچھی صحت سے متعلق جرمن کی کہاوت بھی مشہور ہے' سونے کی بیساکھیوں سے صحت مند پاؤں اچھے ہیں' انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سوشل میڈیا دنیا کا عجیب و غریب عجوبہ ہے۔
کسی نے سوشل میڈیا پر بہت اچھی بات لکھی، وہ کچھ اس طرح ہے۔ ''جب آپ کسی کی خوشی کی تقریب میں شرکت کرتے ہیں تو میزبان کوکچھ نقد رقم پرمبنی ایک خوبصورت لفافہ پیش کرتے ہیں تو اسپتال میں کسی کی عیادت کرنے جاتے ہیں تو وہاں کچھ نقد رقم (حسب توفیق) پر مبنی لفافہ کیوں نہیں پیش کیا جاتا ۔ حالانکہ اس وقت مریض کے لواحقین کو رقم کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ معزز قارئین اس بات کا خصوصی خیال رکھیں گے ۔ اللہ تعالی نے حقوق العباد کی ادائیگی کا بڑا اجر رکھا ہے۔ حقوق العباد ہی اللہ کی خوشنودی کا بنیادی مظہر ہے۔
آج سے تین دہائی قبل سرکاری سرپرستی میں گلی محلے میں عوام کی بنیادی طبی سہولتوں کے لیے سستے شفاخانے ہوا کرتے تھے جنھیں فرنگی زبان میں ڈسپینسری (Dispensary)کہاجاتا تھا اور ہر شہر میں سرکاری اسپتال بھی ہوا کرتے تھے مگر نجی اسپتالوں یا کلینک کا بھی رواج نہیں تھا ۔ جڑی بوٹیوں سے تیارکردہ ہر بل حکیمی علاج کا بھی رواج تھا ۔ لوگ عموما بیمار بھی کم ہوا کرتے تھے،اس کی وجہ یہ تھی کہ ارد گرد کا ماحول صاف ستھرا، نہایت پر فضا اور خوشگوار ہوا کرتا تھا، بے فکری تھی۔ زندگی بھی سادہ تھی، نمودونمائش نہیں تھی جیسا کہ آج ہے۔
اشیائے خوردنی ملاوٹ سے پاک ہوا کرتی تھیں۔ کسی دانشور نے خوب کہا '' اگر آپ میں صحت ، تندرستی اور قوت نہیں تو آپ کی حالت اس سادہ لوح جرنیل کی سی ہے جو میدان جنگ کی طرف روانہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کافی سامان حرب و رسد نہیں ہوتا '' صحت وجسمانی تندرستی ایک عظیم اور انمول قیمتی عطیہ خداوندی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جس کو صحت جیسی نعمت میسر آگئی اسے دین ودنیا کی تمام راحتیں،آسائشیں اور نعمتیں مل گئیں ۔کہاوت مشہور ہے ''جان ہے توجہان ہے'' انسان ناتواں ہو تو دولت کے انبار، دستر خوان پر سجے نت نئے ذائقے دارکھانے ، تاج وتخت کے اختیارات آپ کو خوشی عطا نہیں کرسکتے ۔ انسان کی صحت درست ہو اور عزت کے ساتھ زندگی گذر رہی ہو تو یہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ خوشی کا تعلق دل اور صحت سے ہے۔
دل خوش ہوتا ہے تو خزاں بھی بہار ہے اور ایک بیمار انسان کا دل ہمیشہ پریشان رہتا ہے، اسے ہر شے اداس نظر آتی ہے۔ اس دنیا میں وہی کامیاب اور خوش نصیب ہے جس کے پاس صحت اورعزت ہے۔ صحت اورآبرو مندانہ زندگی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور انعام ہے۔ صحت ہی سے دراصل زندگی ہے اس کے بغیر انسان زندہ درگور ہے۔اچھی صحت کے لیے نیک کردار، نیک خیال، خوش اخلاقی اور خوش مزاجی انسانی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بقول مرزا اسد اللہ غالب...
تنگ دستی گر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
ایک سیمینار میں صحت کے متعلق سوال پوچھا گیا '' وہ کون سا ڈرائی فروٹ ہے جوکھانے کے برسوں بعد بھی تکلیف دیتا ہے'' ہال میں سناٹا چھاگیا ۔کافی دیرکے بعد ایک ادھیڑعمر بزرگ اٹھے اور بلند آواز میں بولے'' اپنے نکاح کے چھوارے ۔''