حُبِّ رسول ﷺ کے تقاضے

نبی کریمؐ سے سب سے زیادہ محبت ایمان کی بنیادی شرط ہے۔


مفتی سراج الحسن November 02, 2018
نبی کریمؐ سے سب سے زیادہ محبت ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ فوٹو : فائل

رسول کریم ﷺ کی محبت ایمان کا جوہر ہے۔ ایک مسلمان جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہو، خواہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، ناموس رسالت ﷺ کے خلاف ایک حرف بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ حُبّ رسولؐ مسلمانوں کے لیے ایمان و یقین کا سرچشمہ اور آخرت کے لیے بہترین ذخیرہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت قرآن و سنت کی رُو سے مطلوب ہے۔

اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنی جان، مال، بیوی اور اولاد سے زیادہ محبت ہونی چاہیے۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ آپؐ فرما دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، دادا، بیٹے، بھائی، بیویاں، خاندان اور تمہارے ذخیرہ کیے ہوئے اموال اور وہ تجارت جس میں کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور پسندیدہ رہائش گاہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسولؐ اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم (عذاب) آئے اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت یاب نہیں کرتے۔

رسول اکرمؐ سے کس قدر ادب و احترام کا معاملہ کس قدر اللہ کو مطلوب ہے، اس کا اندازہ درج ذیل آیت سے لگایا جاسکتا ہے، مفہوم : '' اے ایمان والو! نبی (ﷺ) کی آواز پر اپنی آوازیں بلند نہ کرو اور نہ نبی سے اس طرح زور سے بولو جس طرح تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو کہ مبادا تمہارے اعمال ضایع نہ ہوجائیں اور تم کو احساس بھی نہ ہو۔'' ( سورۃ الحجرات)

رسول کریمؐ سے سب سے زیادہ محبت ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: '' اللہ تعالیٰ سے محبت کرو، کیوں کہ وہ تمہیں کیسی کیسی نعمتیں اور اچھی اچھی چیزیں کھلاتا ہے اور محبت الٰہیہ کی وجہ سے تم مجھ سے بھی محبت رکھو۔'' اللہ تعالی نے ہمارے لیے بے شمار نعمتیں اور ہر طرح کی غذائیں پیدا کی ہیں جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالی کے ان بے شمار انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے محبت کریں اور چوں کہ اللہ تعالی اپنے نبی و رسولؐ کو محبوب رکھتے ہیں، لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی حضور ﷺ سے محبت کریں۔

صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کی محبت و اطاعت کے تقاضے میں جس طرح پورے اترے اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ محبت و عقیدت کے ساتھ ادب و احترام اور اس کے ساتھ اتباع اور اطاعت میں اپنی مثال آپ تھے۔

ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابومحذورہ ؓ کی پیشانی پر ہاتھ پھیر دیا، اس کے بعد انہوں نے عمر بھر نہ سر کے بال کٹوائے اور نہ مانگ نکالی بل کہ اس کو بہ طور تبرک اور یادگار کے قائم رکھا۔ محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ بغیر طہارت کے آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہونا بھی گوارا نہ کرتے۔ ادب کی وجہ سے آپؐ کے آگے چلنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک سفر میں حضرت ابن عمرؓ ایک سرکش اونٹ پر سوار تھے جو رسول اللہ ﷺ سے آگے نکل جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے ان کو ڈانٹا کہ کوئی بھی آپؐ سے آگے نہ بڑھنے پائے۔

صحابہ کرامؓ محبت و عقیدت اور ادب و احترام کے ساتھ اطاعت میں بھی بے مثال تھے۔ وہ ہماری طرح صرف زبان سے محبت کے خالی دعوے کرنے والے انسان نہیں تھے، بل کہ وہ حقیقی اور سچے عاشق تھے، جنہوں نے حضور ﷺ کی غلامی میں اپنی مرضی، خواہش، آرام، خیال اور اپنی سوچ سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ وہ زندگی کے ہر باب میں آپؐ کی اطاعت کے لیے آمادہ اور تیار رہتے تھے۔

آپ ﷺ نے ایک صحابی کو ایک رنگین چادر اوڑھے دیکھا تو فرمایا: '' یہ کیا ہے ؟ وہ سمجھ گئے کہ آپؐ نے چادر کو ناپسند فرمایا، وہ فوراً گھر میں آئے اور اس چادر کو چولہے میں ڈال دیا۔ حالاں کہ وہ چادر کسی دوسرے کے استعمال میں آسکتی تھی، مگر ان کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز سرور کونینؐ کی ناراضی کا سبب بنی وہ باقی ہی کیوں رہے؟ حضرت خریم اسدی ؓ ایک صحابی تھے جو نیچی تہبند باندھتے تھے اور لمبے بال رکھتے تھے۔

ایک روز آپؐ نے فرمایا: '' خریم اسدی کتنا اچھا آدمی تھا، اگر لمبے بال نہ رکھتا اور نیچی تہبند نہ باندھتا ؟ ان کو معلوم ہوا فورا ً قینچی منگوائی اس سے سر کے بال کترے اور تہبند اونچی کرلی۔ کوئی تاویل نہیں کی، کوئی بحث نہیں کی، کوئی عذر پیش نہیں کیا، بس آقاؐ کا حکم تھا تو فورا ً تعمیل کی۔ ان حضرات کی یہ سوچ کہ اللہ دیکھ رہا ہے، انہیں ہر طرح کی خیانت اور بے اختیاری سے محفوظ رکھتی تھی اور آج ہمارے اندر یہ سوچ نہیں رہی ہے۔ ہم نے بھی '' اللہ دیکھ رہا ہے'' کے کتبے لٹکا رکھے ہیں، لیکن اس کا یقین ہماری فکر و نظر میں پیدا نہ ہوسکا۔

صحابہ کرامؓ نے کتبے تو نہیں لٹکائے مگر اللہ کے ہر وقت اور ہر جگہ دیکھنے کا یقین ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا اور یہی یقین تھا جو آزمائشوں میں ان کے قدموں میں لغزش نہیں آنے نہیں دیتا۔ احترام انسانیت کے حقیقی علم بردار تو صحابہ کرامؓ ہی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر ادا مثالی اور ہر بات بے نظیر تھی ان کا ایمان، یقین، صداقت، دیانت، ایثار، فیاضی، معاملات، عفت، پاکیزگی، ان کی نمازیں اور صدقہ و خیرات سب بے مثال تھے۔ اور یہی اطاعت محبت رسول ﷺ کا تقاضا اور مطلوب بھی ہے۔ آج ہم صرف زبانی محبت اور عشق رسولؐ کے دعوے دار ہیں، عملی زندگی میں عشق رسولؐ اور محبت کا کوئی خیال اور فکر نہیں۔ ہر ادا رسول کریمؐ کی اطاعت اور تعلیمات کے خلاف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری تقریریں اثر سے خالی، دعائیں روح سے خالی ، نمازیں خشوع سے خالی، عبادتیں مغز سے خالی اور ہمارے صدقات اور خیرات اخلاص سے خالی ہیں۔ آج ہماری مساجد میں کوئی ایک نمازی ایسا نظر نہیں آتا جس کی نماز خشوع و خضوع والی ہو۔ کوئی ایک بندہ ایسا نہیں دکھا ئی نہیں دیتا جس کی آنکھیں خوف ِ خدا و آخرت سے آنسو بہاتی ہوں، الاماشاء اللہ۔ آج یہ وادی بنجر ہوچکی ہے، یہاں روحانیت کے پھولوں کے بہ جائے مادیت کے کانٹے اُگ آئے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نماز سے وہ فائدے اور برکتیں حاصل ہوں جن کا وعدہ اللہ کے سچے رسول ﷺ نے کیا ہے تو پھر صحابہؓ جیسی نماز پڑھنے کی کوشش کیجیے۔

آج معاشرے میں بہت سارے نمازی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو معاملات میں کم زور ہوتے ہیں، کم تولتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ ارے ملاوٹ کرنے والا، کم تولنے والا، غیبت کرنے والے کیسے عشق رسول اور حب رسول ﷺ کا دعوی کرتے ہیں۔ امانت و دیانت کو ہم نے دین سے خارج کردیا ہے۔ صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں عام چرواہے اور لونڈیاں بھی دیانت کی زندگی بسر کرتے تھے۔

ان خصوصیات کی بنا پر یہ پہلا اسلامی معاشرہ جس کی بنیاد صحبت و اطاعت نبویؐ اور تعلیمات قرآنی پر تھی ایک بے خار انسانی گل دستہ بن گیا، جس کا ہر پھول اور ہر پتی اس کے لیے باعث رحمت و زنیت تھی۔ مختلف قبائل و خاندانوں اور مختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب متحدالقلوب خاندان میں تبدیل ہوگئے اور اسلام کی انقلاب انگیز تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی سچی محبت نے ان کو شِیر و شکر بنادیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں