دیکھ بھیج دیا ناں اللہ نے پالا پوسا بیٹا

دھکّے دیون والے بُہتے، تُوں ہتھ پکڑن والا


دھکّے دیون والے بُہتے، تُوں ہتھ پکڑن والا۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 19

عصر کا وقت ہوگا کہ ہماری کھٹارا چوآخالصہ کے آخری اسٹاپ پر دم توڑ گئی، یہی کہنا چاہیے مجھے، اس لیے کہ اس کی حالت دیکھ کر یقین ہی نہیں تھا کہ وہ سلامتی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جائے گی۔ راستے میں بس کے کئی مسافر اپنے ٹھکانے پر اتر گئے تھے، جب ہم پہنچے تو ایک بوڑھی خاتون اور مرد ہی میرے ساتھ اترے اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے، اور وہ کھٹارا واپس کہیں چلی گئی۔ اب اسٹاپ پر میں اکیلا ہی رہ گیا تھا۔

ایک پہاڑی پتھر پر بیٹھ کر میں نے دُور تک دیکھا، اور بے ساختہ میری زبان سے نکلا، واہ مالک کیا کمال کِیا ہے تُونے واہ جی واہ۔ رب تعالیٰ نے اس جگہ کو کتنا خوب صورت بنایا تھا، دُور تلک لہلہاتے سرسبز کھیت، خودرو سبزے سے بھرا ہوا میدان، جُھومتے، گاتے اور رقص کرتے ہوئے درخت، بہتی ندی اور اس کا پانی اتنا شفاف کہ بس، چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا جن سے رب سائیں نے زمین کو جمائے رکھنے کے لیے میخوں کا کام لیا ہے۔

کچھ دیر تک میں اس حسین منظر میں کھویا رہا لیکن میں تو مدتوں پہلے ہی کہیں کھو چکا تھا، سو میں واپس پلٹ آیا۔ یہ جو کچھ پانے کے لیے کچھ کھو دینا ہے، یہ بھی کیا کمال ہے ناں، چلیے رہنے دیجیے میں پھر سے کہیں دور نکل جاؤں گا۔

اوپر مہربان و کریم و پالن ہار و مددگار اللہ جی اور نیچے میں بندۂ بے کار و بے مصرف، غبی و عاصی و عامی۔ میں نے ایک کچے راستے پر چلنا شروع کیا، تھوڑے ہی فاصلے پر کچھ چھپر نظر آئے، میں وہاں پہنچا تو وہ بازار تھا، اور کیا کہیں اسے، وہ بازار ہے تھا، چھپر میں تھوڑا تھوڑا سامان رکھے ہوئے چند بوڑھے، ایک بوڑھا جلیبیاں بنا رہا تھا اور دو اس سے باتیں کر رہے تھے۔

میں ان کے قریب سے بہ آواز بلند سلام کرتا ہوا گزرا تو سب کی نظریں مجھ پر ٹک گئیں، شاید کیا یقیناً انہوں نے مجھ جیسا آوارہ پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا، شانوں سے نیچے تک کھلے ہوئے گیسو، نیلی جینز اور کالی ٹی شرٹ، پاؤں میں جوگر، میں تو چلتا پھرتا لنڈا بازار تھا، اس زمانے میں تو جینز پہننے والے کو لوگ ویسے بھی آوارہ گرد اور نیچ ہی سمجھتے تھے۔

ایک بیگ جو میرے دونوں بازوؤں سے ہوتا ہوا پشت پر ٹکا ہوا تھا۔ سب نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ لڑکیوں کا ایک غول میرے قریب سے ہنستا ہوا گزرا، لیکن مجھے دیکھتے ہی ان کی ہنسی غائب ہوگئی تھی، وہ تیزی سے گزریں، شاید پنگھٹ پر پانی بھرنے جارہی تھیں۔ دیکھیے پھر کیا یاد آگیا، واہ جی واہ، یہ بابا لوگ بھی کیا کمال کرتے اور ہر جگہ نازل ہوجاتے ہیں۔ یہ حضور میاں محمد بخش سرکار تشریف لے آئے ہیں۔

لوئے لوئے بھرلے کُڑے، جے تڑھ بھانڈا بھرنا

شام پئی بِن شام محمد، تے گھر جاندی نے ڈرنا

ہم جیسے عامی اور ساتھ ہی غبی بھی غور سے نہیں سنتے ناں، کیا کہہ رہے ہیں، مخاطب تو وہ ان لڑکیوں سے ہیں جو پنگھٹ پر پانی بھرنے جارہی ہیں کہ جلد جاؤ اور اندھیرا ہونے سے پہلے واپس آجاؤ ورنہ تمہیں اندھیرے سے ڈر لگے گا۔ لیکن اصل میں تو وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ یہ بابا لوگ بہت گہرے ہوتے ہیں انہیں سرسری لینے والا محروم ہی رہ جاتا ہے، بہت ہی گہرے، سوچ بھی نہیں سکتے آپ، اتنے گہرے۔ تو کہا کیا میاں محمد بخش سرکار نے ۔۔۔ ؟

مجھے بتایا گیا ہے کہ بابا جی نے فرمایا ہے کہ جوانی میں ہی اپنی آخرت کا سامان کرلے ورنہ دنیا سے جاتے سَمے جو سب پر آئے گا، تُو اس قبر کے اندھیرے سے ڈرے گا تو اپنی جوانی ہی میں اس کے اُجالے کا انتظام کرلے۔ حافظ محمد طاہر درویش جو میرے بچپن میں مدینہ مسجد کے امام تھے، وہ اکثر کہا کرتے تھے: ''در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری'' آیا سمجھ میں کچھ آپ کے، ضرور آیا ہوگا آپ بہت روشن دماغ جو ہیں، مجھ کوڑھ مغز کو تو اب تک کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔

میں زیادہ دُور نہیں گیا تھا، کچے راستے کے دونوں جانب بس چند ہی مکانات تھے۔ بس گنتی کے ہی اور سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے۔ میں گلی کے وسط میں پہنچا تو کھیتوں میں ایک کمرا نظر آیا جس کی چھت کے چاروں کونوں پر مٹکے رکھے ہوئے تھے، اس کے آگے چھوٹی سی چہار دیواری۔ میرا اندازہ درست نکلا، جو کبھی کبھار نکل ہی آتا ہے، یہ مسجد ہی تھی۔

میں اندر داخل ہونے لگا تو چند نمازی باہر نکل رہے تھے، عصر کی نماز ہوچکی تھی۔ میرے سلام کا جواب سب ہی نے دیا اور بہ غور مجھے دیکھا، لیکن کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں نے اپنا سفری بیگ ایک کونے میں رکھا اور وضو کی تیاری کرنے لگا، مٹی کے کُوزے سے وضو کرنا بھی ایک ہُنر ہے جناب، میں رب کے حضور سر جھکا کر کھڑا ہوگیا کہ لیجیے بندۂ بے مصرف پہنچ گیا۔

مسجد رب کا گھر ہے اور انہیں دارالامان ہونے کے ساتھ کعبہ کی بیٹیوں سے بھی تشبیح دی گئی ہے۔ ایسا ہی تھا اس وقت، مساجد کبھی مقفّل نہیں رہیں، ہمیشہ اور ایک کے لیے کھلی رہتی تھیں، مسافر مسجد میں ٹھہرا کرتے تھے اور ان کے خور و نوش کی ذمے داری اہل محلہ پر تھی، جو اپنی اس ذمے داری کو بہ خوشی، بہ رضا و رغبت اپنی سعادت سمجھتے ہوئے قبول کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اور یہ بھی کہ کوئی مسافر سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ وہ کب تک قیام کرے گا، نہیں بالکل بھی نہیں، کسی سے اس کے جانے کا دریافت کرنا پرلے درجے کی حماقت اور مہمان کی توہین سمجھی جاتی تھی۔ اور یہی نہیں کسی گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بھی مہمان آجائے تو وہ گاؤں بھر کا مہمان ہوتا تھا، ہمارے گاؤں میں تو اب بھی ایسا ہی ہے۔

گاؤں کا ہر گھر کسی کے بھی مہمان کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا اپنے لیے باعث عزت سمجھتا تھا۔ آج کی طرح نہیں کہ مساجد کو بھی تالے لگا دیے گئے ہیں، لیکن جب کچھ انسانیت کے دشمن جو صرف اپنے آپ ہی کو راہ راست پر سمجھیں، بس خود ہی کو مسلم اور دین کا ٹھیکے دار سمجھیں، بس اپنی ہی رائے کو سکۂ رائج الوقت قرار دیں اور سب کو منکر و گم راہ کہیں تو فساد فی الارض برپا ہوتا ہے، جب انسان خالق کے احکامات کو اپنے خودساختہ معنی و مطالب پہناتے ہوئے خالق کی مخلوق کو قتل کرتے پھریں اور اسے نیکی اور تبلیغ بھی سمجھیں تو یہی ہوتا ہے۔

سب اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں، ہاں پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ کوئی مسجد محفوظ نہیں رہتی، درگاہوں اور خانقاہوں کی تو بات ہی کیا۔ مسجدیں خدا کا گھر نہیں مسالک کی ملکیت ہوجاتی ہیں، اور جب مساجد مسالک کی بنیاد پر بن جائیں تو مخلوق منتشر ہوجاتی اور کسی دوسرے کی مسجد میں جانے سے خوف کھانے لگتی ہے، الاآمان و الحفیظ، نہیں جی پہلے ایسا نہیں تھا، بالکل بھی نہیں۔ رب تعالی نے اسی لیے فتنہ پھیلانے کو قتل کرنے سے بھی بدتر فرمایا ہے۔

ایک دیہاتی شہر میں چلا آیا، لوگ عشاء کی نماز ادا کرکے کب کے اپنے گھروں کو جاچکے تھے، تو دیہاتی نے امام مسجد سے کہا کہ مجھے کھانا کھلا دیجیے تو امام نے دریافت کیا تم نے نماز عشاء ادا کی ہے، وہ دیہاتی سوچ میں پڑگیا اور پھر کہنے لگا امام صاحب اب تو بہت بوڑھا ہوگیا ہوں رب تعالی نے اب تک پالا پوسا ہے، کہیں بھی گیا تو کسی نے شرط نہیں لگائی کہ پہلے نماز ادا کرو، ہاں میرے رب نے بھی نہیں۔

میں نے نماز ادا کی، چھوٹی سی مسجد جس میں کھجور کی چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ محراب میں لکڑی کا ایک سادہ سا منبر جس پر ایک لالٹین رکھی ہوئی تھی، البتہ امام مسجد کے لیے ایک مخملی جائے نماز بچھا ہوا تھا۔ میں چٹائی پر لیٹ گیا اور کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگ گئی۔ عجیب سی بات یاد آگئی مجھے، ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست نے باباجی سے پوچھا، بابا جی حضور میں سینما جاتا ہوں تو پوری فلم دیکھتا ہوں اور آنکھ بھی نہیں جھپکتا، نیند تو دُور کی بات ہے، لیکن جب بھی مسجد آتا ہوں تو نیند مجھے گھیر لیتی ہے، کبھی تو نماز ادا کرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔

سوال تو ہمارے ایک دوست نے پوچھا تھا لیکن میں بابا جی بہت قریب ہوکر بیٹھ گیا کہ ان کا جواب سن سکوں اس لیے کہ میری بھی یہی حالت تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے اور فرمایا: دیکھو بچو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بس غور کرنے کی ہے کہ نیند تو اس جگہ آئے گی ہی جہاں راحت و سکون ہو، تو مسجد جائے سکون و راحت ہے اور اللہ کی یاد سے دل خوشی سے ہمکتا ہے تو بس پھر نیند تو آنی ہی ہے ناں۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے، زیادہ تو نہیں کچھ کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ عصر و مغرب میں بس تقریباً ایک گھنٹے کا ہی وقت ہوتا ہے۔

سورج کہیں اور جانے کے لیے بس الوداع کہنے لگا کہ دوسری طرف اسے خوش آمدید کہنے والے موجود تھے کہ ایک بزرگ سفید اجلے لباس میں مسجد میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر سلام کیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ بیٹا تم کس کے گھر آئے ہو، عصر میں میں نے تمہیں دیکھا تھا، میں حکیم ہوں اور مسجد میں نماز بھی پڑھاتا ہوں، اور یہیں قریب ہی رہتا ہوں۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا لیکن مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ وہ اس قدر شستہ اردو کیسے بول رہے ہیں۔ جناب میں جس کے گھر آیا ہوں اس کے گھر موجود ہوں۔

میرے جواب پر انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا، بس خاموشی سے مجھے بہ غور دیکھا اور وضو کرنے لگے۔ سورج غروب ہونے میں بس کچھ لمحے ہی تھے، انہوں نے لالٹین روشن کی اور پھر باہر نکل کر اذان دینے لگے، اسی دوران کچھ بوڑھے مسجد میں داخل ہوئے اور اذان کے بعد صف بنی اور وہی بزرگ امامت کے لیے کھڑے ہوئے۔ مجھ سمیت مسجد میں پانچ نمازی موجود تھے۔ ان کی قرأت نے سماں باندھ دیا تھا، نماز کا اختتام دعا پر ہوا اور پھر سب نفل ادا کرکے جانے لگے، اب مسجد میں میں اور وہ بزرگ رہ گئے تھے، پھر وہ میرے پاس آئے۔

چلو بیٹا اب گھر چلیں، انہوں نے کہا۔ آپ زحمت مت کیجیے میں یہیں آرام سے ہوں۔ میرا جواب سن کر وہ مسکرائے اور کہا: دیکھو بیٹا میں نے تم سے پہلے پوچھا تھا کہ تم کس کے گھر آئے ہو، تم نے مجھے بتایا کہ جس کے گھر آیا ہوں بس وہیں ہوں تو میں نے تم سے کوئی سوال نہیں کیا، لیکن اب مجھے اُسی نے حکم دیا ہے کہ میرے مہمان کو اپنے گھر لے جاؤ تو تمہیں بھی اب کوئی سوال نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے میرے جواب کا انتظار ہی نہیں کیا اور میرا بیگ اٹھا کر باہر جانے لگے، میں ان کے پیچھے تھا، بس چند قدم پر ہی جہاں گلی کا اختتام ہوا آخری گھر پر جاکر وہ رک گئے اور پھر انہوں نے دروازے پر لگی آہنی کنڈی بجائی، ایک باپردہ خاتون نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی اوٹ میں ہوگئیں۔

آؤ بیٹا کہہ کر وہ گھر میں داخل ہوئے اور بلند آواز سے کہا: لے نیک بختے تُو تو ویسے ہی روتی رہتی تھی کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے اور میں ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ انتظار کر، بس صبر کر اللہ بیٹا بھی دے گا، دیکھ بھیج دیا ناں اللہ نے پالا پوسا بیٹا۔ وہ خاتون آگے بڑھیں اور انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ یہ کیا کر رہی ہے ایسے ملتا ہے کوئی اپنے بیٹے سے، اور ایسے بیٹے سے، ناقدری ہے ناشکری ہے، اس سے ایسے مل جیسے اپنے سگے بیٹے سے کوئی ملتا ہے۔

بزرگ کی بات سن کر وہ خاتون مجھ سے لپٹ کر سسکنے لگیں، پھر سسکنا زار و قطار رونے میں بدل گیا، تُو کہاں تھا اب تک، کیوں آیا اتنی دیر سے، ذرا سا بھی ماں کا خیال نہیں آیا تجھے، میرا لعل میرا بچہ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھیں، وہ بزرگ سر جھکائے بس خاموش کھڑے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے، پھر انہوں نے مجھے خود سے الگ کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں: بتا، مجھ سے وعدہ کر اب تُو مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا، وعدہ کر مجھ سے۔ مجھے مسلسل خاموش دیکھ کر وہ غصے سے مجھے دیکھتی رہیں اور پھر تقریبا چیختے ہوئے بولیں: مجھے چھوڑ کر اگر تجھے جانا ہے تو ابھی چلا جا، سہتی رہی ہوں پھر سہہ لوں گی، جانا ہے تو ابھی چلا جا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور حیرت مجھے اس بزرگ پر تھی جو بس خاموش تھے اور ہمیں دیکھ رہے تھے۔

مجھے فوری طور پر فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کہوں، میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میں نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا: ماں جی میں وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ وہ پھر سے مجھ سے لپٹ گئیں اور کہنے لگیں، پھر بول ناں مجھے ماں جی، بول ناں۔ اور میں ماں جی ماں کی تسبیح پڑھنے لگا۔ منہ زور آندھی تھم چکی تھی لیکن ماں جی مجھے خود سے الگ کرنے پر تیار نہیں تھیں کہ وہ بزرگ بولے چلو تمہیں بیٹا کیا ملا تم ہم سب کو بھول ہی گئیں۔ میں نے دیکھا ایک کمرے کے دروازے پر چار لڑکیاں جن میں سے دو نے اپنی چادر سے منہ چھپائے ہوئے تھے۔

کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔ ماں جی نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: آگیا تمہارا بھائی، اللہ نے پالا پوسا دے دیا، آؤ ملو اپنے بھائی سے۔ وہ چاروں میرے قریب آکر سر جھکا کر کھڑی ہوگئیں، میں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا تو ماں جی نے کہا: کیسی بہنیں ہو تم، کوئی اپنے بھائی سے بھی پردہ کرتا ہے کیا۔ سب سے چھوٹی والی نے میرے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور کہا: بھائی جان اب مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا۔ میں آخر انسان ہوں، میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور پھر جو منہ زور برسات شروع ہوئی تو، سب اس میں بھیگنے لگے۔ ہاں نہیں چھوڑ کے جاؤں گا میں تمہیں، ہاں مرنے کے بعد بھی نہیں جاؤں گا، میں اب سدا رہوں گا اور وہ چاروں مجھ سے لپٹی برس رہی تھیں۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن کیا ہر بات کو سمجھنے کے لیے الفاظ کا ہونا ضروری ہے اور پھر یہ بھی کہ ہر بات کو سمجھنا بھی کیا ضروری ہے، احساسات کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی کیا۔ میں نے جب سے ایک مکان چھوڑا ہے، اس مالک کریم و رحیم و بے نیار و مہربان نے ہر گھر کا در مجھ پر کھول کر اسے میرا گھر بنا دیا ہے، ہاں اس نے کی ہے یہ دَیا مجھ پر، ہاں اس نے مجھے کبھی ایک پل بھی بے گھر نہیں کیا اور اپنی مخلوق کے دلوں کو بھی گھر بنا کر مجھے اس میں داخل کیا۔

میں کیا، میری اوقات ہی کیا، میری ہستی ہی کیا، میں ایک مٹھی بھر خاک کا پتلا، کچھ نہیں ہوں میں، بس ایک ڈھول کی طرح جو اندر سے بالکل خالی ہوتا ہے لیکن اس کی آواز میں سب آوازیں دب جاتی ہیں۔ بندۂ بے کار و بے مصرف ہوں میں، میں کچھ بھی تو نہیں ہوں، ہاں کچھ بھی نہیں، میں ہوں ہی نہیں۔ ہاں میں اس کا برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے اسے چھوڑے رکھا ہے لیکن اس مہربان نے کبھی مجھے نہیں چھوڑا، ہاں اس نے مجھے کبھی کسی کے حوالے نہیں کیا۔

لیجیے یہ پھر آپہنچے، حضرت بابا جی میاں محمد بخش سرکار

میں پاپی شرمندہ، جُھوٹھا بَھریا نال گناہاں

ہکّو آس تُساڈے دَر دی، نہ کوئی ہور پَناہاں

میں انّھاں تے تِلکن رستہ، کیوں کر رہے سنبھالا

دھکّے دیون والے بُہتے، تُوں ہتھ پکڑن والا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔