طالبان کا دوحہ میں دفتر کھلنا خوش آیند

طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ آسان اور تیز نہیں ہوگا، اوباما


Editorial June 19, 2013
طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ آسان اور تیز نہیں ہوگا، اوباما۔ فوٹو: فائل

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طویل کوششوں کے بعد بالآخر طالبان کا دفتر کھل گیا ہے۔ امریکا نے دفتر کے افتتاح کے بعد طالبان سے براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا ہے جب کہ افغان صدر حامد کرزئی نے بھی مذاکرات کے لیے حکومتی امن کونسل کا وفد قطر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان پہلی ملاقات آج جمعرات کو ہوگی۔

پاکستان نے امن عمل کے آغاز کا خیر مقدم کیا ہے، امریکا کے صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ آسان اور تیز نہیں ہوگا، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں دشواریاں درپیش ہوں گی، پاکستان کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے وفد قطر بھجوانے پر حامد کرزئی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صدر اوباما نے واضح کیا کہ طالبان کو القاعدہ سے ناتا توڑنا ہوگا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک موضوع قیدیوں کا تبادلہ ہوگا لیکن ابتدائی ہفتوں میں ایک دوسرے کا موقف جاننے کی کوششیں کی جائیں گی۔

علاوہ ازیں جنرل ڈن فورڈ نے بھی کہا ہے کہ حوصلہ افزا مذاکرات خوش آیند ہیں، مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہم مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ امریکا اور اتحادی فوجوں نے فیصلے کو سراہا ہے۔امریکی حکام کے مطابق یہ مذاکرات اس شرط پر ہوں گے کہ طالبان تشدد ترک کردیں، القاعدہ سے تعلقات توڑ دیں اور افغان آئین کا احترام کریں جس میں عورتوں اور بچوں کے حقوق شامل ہیں۔ امریکا اور طالبان کے درمیان اولین مذاکرات آج ہوں گے، جب کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت چند روز بعد متوقع ہے۔

ادھر افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے طالبان تیار ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ دوحہ میں دفتر کھولنے کا مقصد عالمی برادری سے مذاکرات کرنا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے مسئلے کا سیاسی اور پرامن حل چاہتے ہیں۔ افغان طالبان نے کہا کہ طالبان کا دفتر افغان مسئلے کے حل کے لیے سیاسی حل فراہم کرے گا، طالبان اس دفتر کے ذریعے پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ بات کریں گے،طالبان افغانستان پر جاری غیر ملکی قبضے کے خاتمے کے لیے پرامن وسائل کا استعمال کریں گے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں منگل کو ایک اہم تقریب میں نیٹو نے سیکیورٹی کی ذمے داریاں باضابطہ طور پر افغان فوج کو سونپ دیں۔ اس سے پہلے حامد کرزئی قطر میں طالبان کا آفس کھلنے پر خدشات ظاہر کرچکے تھے تاہم غیر ملکی فوج کے انخلا کا وقت قریب آنے پر افغان صدر کے رویے میں لچک آئی ہے اور انھوں نے نہ صرف قطر میں طالبان کا آفس کھولنے کی تجویز کی حمایت کی بلکہ اس امید کا اظہار کیا کہ اس سے امن مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اعتماد کی کمی ہے، ماضی میں طالبان ہمیشہ صدر کرزئی سے ملنے سے انکار اور ان کی حکومت کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے آئے ہیں۔ یقیناً مذاکرات کی میز پر آنا دونوں فریقین کے لیے خوش آیند ثابت ہوگا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے افغانستان اور خطے میں امن کے لیے نئی راہیں کھلیں گی اور امید کی جاسکتی ہے کہ آیندہ تقریباً دو سال میں افغان مفاہمت کے لیے کوئی پیش رفت ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں