اچھی لڑکی ہونے کی سند
کیا ہمارے پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندانوں میں واقعی لڑکیوں کی خوشی کو یقینی بنایا جاتا ہے؟
گزشتہ دنوں صباحت زکریا کا ایک وی لاگ مجھے بہت پسند آیا جس میں انہوں نے اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ ہمارے ٹی وی ڈراموں میں خواتین کو مظلوم، پستا ہوا یا کم ہمت دکھایا جاتا ہے یا پھر ظلم کرتے ہوئے۔ ان کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ آخر عمومی طور پر پسی ہوئی مظلوم عورت ہی ڈراموں کی ہیروئن کیوں ہوتی ہے؟ مجھے یاد ہے کہ میں نے ٹین ایج میں خواتین کے بہت سے ڈائجسٹ پڑھے، ان کہانیوں میں بھی وہ لڑکی یا عورت ایک کامیاب عورت دکھائی جاتی تھی جو معاشرے کے ظلم و ستم خندہ پیشانی سے برداشت کرتی تھی، قربانی کی تفسیر بن جاتی تھی اور کہانی کے آخر میں ہمیشہ سب چیزیں اس کی راہ میں ہموار ہوجاتی تھیں۔ خواتین کے ڈائجسٹ ابھی تک بھی عموماً یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی تربیت اور اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
مگراپنی بیٹیوں کے سامنے یہ مثالیں رکھنے سے پہلے کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ حقیقی زندگی میں واقعتاً ظلم اور زیادتی برداشت کرنا اور راضی برضا ہوجانا لڑکیوں کو ایک خوشگوار زندگی دیتا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ مجھے اپنے بچوں کےلیے کیسا مستقبل چاہیے، تو میرا جواب ہو گا کہ ایسا مستقبل جس میں وہ خوش رہیں۔ مگر ہمارے پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندانوں میں کیا واقعی لڑکیوں کی خوشی کو یقینی بنایا جاتا ہے؟ میں ان خاندانوں کی بات کر رہی ہوں جہاں عمومی طور پر دوپٹہ سر پر لینے کے بجائے گلے میں ڈال لیے جانے کو بہت بڑی آزادی تصور کیا جاتا ہے، جو یہ لوگ اپنے خاندان کی بیٹیوں کو دیتے ہیں۔ یہ وہ مڈل کلاس ہے جہاں لڑکیاں نسل در نسل پڑھتی ہیں، لکھتی ہیں مگر اپنی سوچ کو اپنے والدین اور بزرگوں کے پاس گروی رکھ کر اچھائی کے ایک پل صراط پر چلتی ہیں اور حدود کی وہ لکیر جو ان کی اچھائی کا تعین کرتی ہے، بس ان کے پیر کے انگوٹھے کے بالکل ساتھ کھینچ دی جاتی ہے۔ جہاں لڑکیوں کا مسئلہ ونی ہونا یا غیرت کے نام پر قتل ہونا نہیں، بلکہ جہاں لڑکیوں کو ایک اچھائی اور تابعداری کی سند برقرار رکھنے کےلیے ان اصولوں اور قواعد کے دائرے میں رہنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ شاید کسی نے کبھی کیلکیولیٹ ہی نہیں کیا۔
یہ میری دو دوستوں کی کہانی ہے جو بالکل ایک جیسے اصول و قوانین والے تعلیم یافتہ خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، بس ایک کےلیے معاشرے کی قائم کردہ اچھائی کی سند کو پانا، اور اچھی لڑکی ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر لگانا دوسری کی نسبت زیادہ اہم تھا کیونکہ یہی وہ بہترین عمل تھا جو اس کی تربیت نے اسے سکھایا تھا۔
چلیے ان کے نام عیشا اور زارا تصور کر لیتے ہیں۔ عیشا کے نزدیک اس کے والدین کا کہا ہر لفظ حرفِ آخر تھا اور اسے اس بات پر یقین تھا کہ والدین کا کہا ماننے میں ہی اس کی کامیابی اور بھلائی ہے؛ جبکہ زارا کا خیال تھا کہ اس کے والدین گو کہ اس کے ساتھ بہت مخلص ہیں مگر پھر بھی وہ نئے زمانے کے تقاضوں اور زارا کی طبیعت کے میلان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی سوچ اور اپنی من مرضی پر چلنا بہتر خیال کرتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک شادی پر زارا اپنے کسی کزن کو بہت مسکرا کر دیکھ رہی تھی اور اس کی ایک رشتہ دار لڑکی نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ یہ کس قدر واہیات حرکت ہے زارا کی، جو لڑکوں سے مسکراہٹ کے تبادلے کر رہی ہے۔ اس کے برعکس عیشا نے تو شاید نظر بھر کر کسی لڑکے کو نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ عیشا ہمیشہ ہر لحاظ سے ایک اچھی لڑکی رہنا اور کہلوانا چاہتی تھی۔ پڑھائی کے زمانے سے شروع کریں تو عیشا کے والد کی خواہش تھی کہ وہ انجینئر بنے۔ لائق اور محنتی ہونے کہ وجہ سے اس کےلیے اس خواہش کو پورا کرنا بہت آسان تھا۔ اس زمانے میں الیکٹریکل انجحنئرنگ کا میرٹ سب سے اونچا تھا۔ زارا کو اسی میں داخلہ ملا اور اس نے بہت اچھے نمبروں کے ساتھ اپنی ڈگری لی۔ تعلیم کے معاملے میں اس کی اپنی خواہش کیا تھی، یہ شاید اسے بھی نہیں علم تھا۔ اس زمانے میں بھی ہماری ماؤں نے بھی عیشا کی مثال ہمارے سامنے رکھی کہ دیکھو کس قدر تابعدار بچی ہے کہ صرف باپ کہ خواہش کی خاطر انجینئرنگ پڑھی ہے حالانکہ اسے خود اس مضمون میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ زارا گرافک ڈیزائننگ پڑھنا چاہتی تھی سو اس نے وہی پڑھائی کی۔
پڑھائی کے بعد عیشا کے والد نے نوکری کی اجازت نہ دی کہ رشتہ ہی تو کرنا ہے تمہارا، نوکری کرکے کیا کرو گی۔ دوسری طرف زارا نے بے انتہا ضد کی اور باہر کی ایک یونیورسٹی میں خود ہی سے داخلہ لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنے چلی گئی۔ عام تبصروں میں اس کے اس قدم کو بھی ناپسند کیا گیا کہ آخر تنہا لڑکی کو باہر جانے کی ضرورت کیا تھی؟
اس کے بعد شادی کے معاملے میں بھی عیشا نے والدین کی رضا پر سر جھکاتے ہوئے رشتہ کروانے والی خاتون کے توسط سے آئے اجنبی سے شادی کرلی۔ زارا کو خود ایک لڑکا پسند آگیا، اگرچہ خاندان والوں اور اقربا کو زارا کے خود سے رشتہ ڈھونڈ لینے پر بھی اعتراض تھا مگر پھر بھی والدین نے زارا کی پسند کی جگہ شادی کردی۔
اب زندگی کے اس مرحلے پر آکر دونوں کے سامنے ایک یکساں امتحان آیا، دونوں کی شادی شدہ زندگی ظلم، زیادتی، تشدد اور دقت سے بھرپور تھی۔ زارا نے بھی تو آخر اپنے خاندان سے وہی اصول سیکھے تھے، اس نے نبھانے کی بھرپور کوشش کی مگر جب اسے یہ اندازہ ہوا کہ یہ رشتہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت کو شدید متاثر کررہا ہے تو اس نے علیحدگی اختیار کرلی۔ عیشا نے اپنے تمام حالات اپنے والدین کے سامنے بارہا رکھے اور ہر مرتبہ انہوں نے اسے مزید برداشت سے کام لینے اور وہاں پر رہنے کو کہا اور عیشا نے اپنی اطاعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان مظالم کو اس حد تک برداشت کیا کہ اس کی جسمانی اور ذہنی حالت بالکل درست نہ رہی اور اس کی برداشت کی آخری حد گزر جانے اور اس کے شدید ترین ڈپریشن میں چلے جانے کے بعد ہی اس کے والدین نے اس کی علیحدگی کا مطالبہ کرنے کی ہمت کی۔
مگر مجھے یاد ہے کہ اس وقت بھی عیشا کی ہمت اور برداشت کو ہر کسی نے بہت سراہا کہ وہ کلینیکل ڈپریشن میں چلی گئی مگر دیکھو کہ اس نے اپنا رشتہ نبھانے کی کس طرح سے پوری کوشش کی تھی۔
اب زارا کو اپنے بیرون ملک کی ڈگری کی وجہ سے ایک بہت اچھی نوکری مل گئی اور وہ باہر چلی گئی جبکہ عیشا اپنا آپ نہیں سنبھال پائی۔ وہ ذہنی طور پر اس بات کو قبول نہیں کرسکی کہ اسے زندگی کا جو واحد مقصد دیا گیا تھا، وہ اس میں ناکام ہوچکی ہے۔ اب اس کے والدین بوڑھے ہوچکے ہیں اور عیشا میں اب بھی وہ خود اعتمادی نہیں جو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کےلیے ضروری ہے۔
گزشتہ دنوں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو ہم سب کی باہمی جاننے والی ہیں۔ وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بوچھنے لگیں کہ کیا تمہیں علم ہے کہ زارا بیرون ملک نوکری کے ساتھ ساتھ ایک انڈین اکیڈمی سے سرسنگیت اور رقص بھی سیکھ رہی ہے؟ اکیلی رہتی ہے، ملکوں ملکوں گھومتی پھرتی ہے اور من مانیاں کر رہی ہے؟ ان کے لہجے میں ایک واضح ناپسندیدگی تھی۔ اس کے اکیلے رہنے پر بھی اور سر سنگیت جیسا مشغلہ اپنانے پر بھی۔
مگر وہی خاتون عیشا کی بات پر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگیں، رل گئی ہے بے چاری، بہت ہی اچھی، نیک اور تابعدار بچی ہے۔
میں خود زارا سے مل چکی ہوں۔ اس کی ہنسی کھنکتی ہے اور اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک ہے۔ وہ خودمختار ہے اوراپنی پسند کی زندگی اپنی پسند کے مشغلوں کے ساتھ گزار رہی ہے۔ اس کی ذہنی صحت بھرپور ہے اور وہ اپنی زندگی کے بارے میں ایک مثبت سوچ رکھتی ہے۔ لیکن وہ ان خاتون اور ہمارے معاشرے کی مقرر کردہ اچھائی کی مسند سے گر چکی ہے۔ اس کے برعکس عیشا ابھی تک ڈپریشن میں ہے، اس کی جسمانی صحت کو بھی اس کی مسلسل خراب ذہنی صحت نے متاثر کیا ہے۔ اس نے ابھی تک اپنے مستقبل کی کوئی منصوبہ سازی نہیں کی ہے۔ چیزیں اس کی راہ میں بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی ہیں۔ لیکن ہاں! لوگ اسے ایک اچھی اور اطاعت گزار لڑکی ہونے کی سند سے اکثر ضرور نواز دیتے ہیںِ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مگراپنی بیٹیوں کے سامنے یہ مثالیں رکھنے سے پہلے کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ حقیقی زندگی میں واقعتاً ظلم اور زیادتی برداشت کرنا اور راضی برضا ہوجانا لڑکیوں کو ایک خوشگوار زندگی دیتا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ مجھے اپنے بچوں کےلیے کیسا مستقبل چاہیے، تو میرا جواب ہو گا کہ ایسا مستقبل جس میں وہ خوش رہیں۔ مگر ہمارے پڑھے لکھے مڈل کلاس خاندانوں میں کیا واقعی لڑکیوں کی خوشی کو یقینی بنایا جاتا ہے؟ میں ان خاندانوں کی بات کر رہی ہوں جہاں عمومی طور پر دوپٹہ سر پر لینے کے بجائے گلے میں ڈال لیے جانے کو بہت بڑی آزادی تصور کیا جاتا ہے، جو یہ لوگ اپنے خاندان کی بیٹیوں کو دیتے ہیں۔ یہ وہ مڈل کلاس ہے جہاں لڑکیاں نسل در نسل پڑھتی ہیں، لکھتی ہیں مگر اپنی سوچ کو اپنے والدین اور بزرگوں کے پاس گروی رکھ کر اچھائی کے ایک پل صراط پر چلتی ہیں اور حدود کی وہ لکیر جو ان کی اچھائی کا تعین کرتی ہے، بس ان کے پیر کے انگوٹھے کے بالکل ساتھ کھینچ دی جاتی ہے۔ جہاں لڑکیوں کا مسئلہ ونی ہونا یا غیرت کے نام پر قتل ہونا نہیں، بلکہ جہاں لڑکیوں کو ایک اچھائی اور تابعداری کی سند برقرار رکھنے کےلیے ان اصولوں اور قواعد کے دائرے میں رہنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ شاید کسی نے کبھی کیلکیولیٹ ہی نہیں کیا۔
یہ میری دو دوستوں کی کہانی ہے جو بالکل ایک جیسے اصول و قوانین والے تعلیم یافتہ خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، بس ایک کےلیے معاشرے کی قائم کردہ اچھائی کی سند کو پانا، اور اچھی لڑکی ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر لگانا دوسری کی نسبت زیادہ اہم تھا کیونکہ یہی وہ بہترین عمل تھا جو اس کی تربیت نے اسے سکھایا تھا۔
چلیے ان کے نام عیشا اور زارا تصور کر لیتے ہیں۔ عیشا کے نزدیک اس کے والدین کا کہا ہر لفظ حرفِ آخر تھا اور اسے اس بات پر یقین تھا کہ والدین کا کہا ماننے میں ہی اس کی کامیابی اور بھلائی ہے؛ جبکہ زارا کا خیال تھا کہ اس کے والدین گو کہ اس کے ساتھ بہت مخلص ہیں مگر پھر بھی وہ نئے زمانے کے تقاضوں اور زارا کی طبیعت کے میلان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی سوچ اور اپنی من مرضی پر چلنا بہتر خیال کرتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک شادی پر زارا اپنے کسی کزن کو بہت مسکرا کر دیکھ رہی تھی اور اس کی ایک رشتہ دار لڑکی نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ یہ کس قدر واہیات حرکت ہے زارا کی، جو لڑکوں سے مسکراہٹ کے تبادلے کر رہی ہے۔ اس کے برعکس عیشا نے تو شاید نظر بھر کر کسی لڑکے کو نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ عیشا ہمیشہ ہر لحاظ سے ایک اچھی لڑکی رہنا اور کہلوانا چاہتی تھی۔ پڑھائی کے زمانے سے شروع کریں تو عیشا کے والد کی خواہش تھی کہ وہ انجینئر بنے۔ لائق اور محنتی ہونے کہ وجہ سے اس کےلیے اس خواہش کو پورا کرنا بہت آسان تھا۔ اس زمانے میں الیکٹریکل انجحنئرنگ کا میرٹ سب سے اونچا تھا۔ زارا کو اسی میں داخلہ ملا اور اس نے بہت اچھے نمبروں کے ساتھ اپنی ڈگری لی۔ تعلیم کے معاملے میں اس کی اپنی خواہش کیا تھی، یہ شاید اسے بھی نہیں علم تھا۔ اس زمانے میں بھی ہماری ماؤں نے بھی عیشا کی مثال ہمارے سامنے رکھی کہ دیکھو کس قدر تابعدار بچی ہے کہ صرف باپ کہ خواہش کی خاطر انجینئرنگ پڑھی ہے حالانکہ اسے خود اس مضمون میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ زارا گرافک ڈیزائننگ پڑھنا چاہتی تھی سو اس نے وہی پڑھائی کی۔
پڑھائی کے بعد عیشا کے والد نے نوکری کی اجازت نہ دی کہ رشتہ ہی تو کرنا ہے تمہارا، نوکری کرکے کیا کرو گی۔ دوسری طرف زارا نے بے انتہا ضد کی اور باہر کی ایک یونیورسٹی میں خود ہی سے داخلہ لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنے چلی گئی۔ عام تبصروں میں اس کے اس قدم کو بھی ناپسند کیا گیا کہ آخر تنہا لڑکی کو باہر جانے کی ضرورت کیا تھی؟
اس کے بعد شادی کے معاملے میں بھی عیشا نے والدین کی رضا پر سر جھکاتے ہوئے رشتہ کروانے والی خاتون کے توسط سے آئے اجنبی سے شادی کرلی۔ زارا کو خود ایک لڑکا پسند آگیا، اگرچہ خاندان والوں اور اقربا کو زارا کے خود سے رشتہ ڈھونڈ لینے پر بھی اعتراض تھا مگر پھر بھی والدین نے زارا کی پسند کی جگہ شادی کردی۔
اب زندگی کے اس مرحلے پر آکر دونوں کے سامنے ایک یکساں امتحان آیا، دونوں کی شادی شدہ زندگی ظلم، زیادتی، تشدد اور دقت سے بھرپور تھی۔ زارا نے بھی تو آخر اپنے خاندان سے وہی اصول سیکھے تھے، اس نے نبھانے کی بھرپور کوشش کی مگر جب اسے یہ اندازہ ہوا کہ یہ رشتہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت کو شدید متاثر کررہا ہے تو اس نے علیحدگی اختیار کرلی۔ عیشا نے اپنے تمام حالات اپنے والدین کے سامنے بارہا رکھے اور ہر مرتبہ انہوں نے اسے مزید برداشت سے کام لینے اور وہاں پر رہنے کو کہا اور عیشا نے اپنی اطاعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان مظالم کو اس حد تک برداشت کیا کہ اس کی جسمانی اور ذہنی حالت بالکل درست نہ رہی اور اس کی برداشت کی آخری حد گزر جانے اور اس کے شدید ترین ڈپریشن میں چلے جانے کے بعد ہی اس کے والدین نے اس کی علیحدگی کا مطالبہ کرنے کی ہمت کی۔
مگر مجھے یاد ہے کہ اس وقت بھی عیشا کی ہمت اور برداشت کو ہر کسی نے بہت سراہا کہ وہ کلینیکل ڈپریشن میں چلی گئی مگر دیکھو کہ اس نے اپنا رشتہ نبھانے کی کس طرح سے پوری کوشش کی تھی۔
اب زارا کو اپنے بیرون ملک کی ڈگری کی وجہ سے ایک بہت اچھی نوکری مل گئی اور وہ باہر چلی گئی جبکہ عیشا اپنا آپ نہیں سنبھال پائی۔ وہ ذہنی طور پر اس بات کو قبول نہیں کرسکی کہ اسے زندگی کا جو واحد مقصد دیا گیا تھا، وہ اس میں ناکام ہوچکی ہے۔ اب اس کے والدین بوڑھے ہوچکے ہیں اور عیشا میں اب بھی وہ خود اعتمادی نہیں جو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کےلیے ضروری ہے۔
گزشتہ دنوں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو ہم سب کی باہمی جاننے والی ہیں۔ وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بوچھنے لگیں کہ کیا تمہیں علم ہے کہ زارا بیرون ملک نوکری کے ساتھ ساتھ ایک انڈین اکیڈمی سے سرسنگیت اور رقص بھی سیکھ رہی ہے؟ اکیلی رہتی ہے، ملکوں ملکوں گھومتی پھرتی ہے اور من مانیاں کر رہی ہے؟ ان کے لہجے میں ایک واضح ناپسندیدگی تھی۔ اس کے اکیلے رہنے پر بھی اور سر سنگیت جیسا مشغلہ اپنانے پر بھی۔
مگر وہی خاتون عیشا کی بات پر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگیں، رل گئی ہے بے چاری، بہت ہی اچھی، نیک اور تابعدار بچی ہے۔
میں خود زارا سے مل چکی ہوں۔ اس کی ہنسی کھنکتی ہے اور اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک ہے۔ وہ خودمختار ہے اوراپنی پسند کی زندگی اپنی پسند کے مشغلوں کے ساتھ گزار رہی ہے۔ اس کی ذہنی صحت بھرپور ہے اور وہ اپنی زندگی کے بارے میں ایک مثبت سوچ رکھتی ہے۔ لیکن وہ ان خاتون اور ہمارے معاشرے کی مقرر کردہ اچھائی کی مسند سے گر چکی ہے۔ اس کے برعکس عیشا ابھی تک ڈپریشن میں ہے، اس کی جسمانی صحت کو بھی اس کی مسلسل خراب ذہنی صحت نے متاثر کیا ہے۔ اس نے ابھی تک اپنے مستقبل کی کوئی منصوبہ سازی نہیں کی ہے۔ چیزیں اس کی راہ میں بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی ہیں۔ لیکن ہاں! لوگ اسے ایک اچھی اور اطاعت گزار لڑکی ہونے کی سند سے اکثر ضرور نواز دیتے ہیںِ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔