تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا
دنیا کی ہر حکومت کے ابتدائی دس دن انتہائی اہم ہوتے ہیں‘ آپ اگر دس دنوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تو پھر آپ...
www.facebook.com/javed.chaudhry
KARACHI:
یہ بھی تاریخ کی ایک بھولی بسری داستان ہے' محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء میں پہلی بار وزیراعظم بنیں' میاں نواز شریف اُس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے' دونوں کے درمیان لڑائی جاری تھی' بے نظیر بھٹو لاہور نہیں جا سکتی تھیں اور میاں نواز شریف اسلام آباد نہیں آتے تھے' راولپنڈی اس دور میں مشکل اور اہم ترین شہر تھا' یہ شہر پنجاب میں آتا ہے لیکن آدھ کلومیٹر بعد وفاقی دارالحکومت شروع ہو جاتا ہے لہٰذا آپ اگر دو قدم راولپنڈی میں رکھ دیں تو آپ پر پنجاب کے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور آپ اگر ایک قدم اسلام آباد میں رکھ دیں تو آپ وفاق کے ماتحت ہو جاتے ہیں چنانچہ تاریخ میں جب بھی پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کے درمیان تنازعہ شروع ہوتا تھا راولپنڈی اہمیت اختیار کر جاتا تھا اور پنجاب حکومت راولپنڈی میں اپنے بااعتماد بیوروکریٹس تعینات کر دیتی تھی۔
1988ء میں بھی یہی ہوا' میاں نواز شریف نے سعید مہدی کو کمشنر راولپنڈی بنادیا 'میاں نواز شریف ان پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے' محترمہ بے نظیر بھٹو1989ء میں اٹک کے دورے پر گئیں'اس زمانے میں چوہدری قمرزمان اٹک کے ڈی سی تھے' یہ آج کل سیکریٹری داخلہ ہیں' کمشنر اور ڈی سی پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم کے میزبان تھے' وہ رمضان کا مہینہ تھا' دورے سے قبل ناہید خان نے سعید مہدی کو فون پر بتایا' محترمہ روزے سے نہیں ہوں گی چنانچہ آپ اٹک کے ریسٹ ہاؤس میں ان کے لنچ کا بندوبست کر دیں لیکن اس لنچ کی اطلاع کسی کو نہیں ہونی چاہیے.
سعید مہدی نے ڈی سی کو فون کیا' دونوں نے اٹک کے ریسٹ ہاؤس میں بے نظیر بھٹو کے لنچ کا بندوبست کر دیا اور علاقے کو پولیس کی مدد سے سیل کر دیا' محترمہ اٹک آئیں' لنچ کے وقت انھیں اٹک کے ریسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا' سعید مہدی ان کے ساتھ تھے' محترمہ نے مہدی صاحب کو ساتھ لیا اور ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں واک کرنے لگیں' واک کرتے کرتے محترمہ نے سعید مہدی سے پوچھا '' کیا آپ نواز شریف کے استاد رہے ہیں'' مہدی صاحب نے بتایا '' جی نہیں' میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا' میاں صاحب اس وقت گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے'' محترمہ نے پوچھا '' پھر ان کا استاد کون تھا'' مہدی صاحب نے بتایا '' میراخیال ہے ڈاکٹر صفدر محمود انھیں تاریخ پڑھاتے تھے'' محترمہ نے ان کی طرف غور سے دیکھا اور کہا '' میاں صاحب نے تاریخ پڑھنے کے باوجود تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا'' سعید مہدی خاموش رہے لیکن بڑے عرصے بعد انھوں نے مجھے بتایا '' میں نے اس وقت دل ہی دل میں سوچا ' بی بی تاریخ سے ہمارے ملک کا کوئی حکمران سبق نہیں سیکھتا''۔
ہمارا المیہ یہی ہے ہم تجربوں' مشاہدوں اور گزرے ہوئے وقت سے کچھ نہیں سیکھتے' ہم میں سے ہر شخص خود کو قدرت کا رشتہ دار سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے وقت نے سکندر اعظم سے لے کر جلال الدین اکبر تک اور چنگیز خان سے لے کر حسنی مبارک' صدام حسین اور کرنل قذافی تک دنیا بھر کے فرعونوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ میرے ساتھ نہیں ہوگا' قدرت میرے ساتھ رعایت کرے گی' مجھے زوال آئے گا اور میں نہ ہی مروں گا' ہم یہ بھی سمجھتے ہیں ہم جو غلطیاں کر رہے ہیں' ان کے وہ نتائج نہیں نکلیں گے جو ماضی کے لوگوں کی غلطیوں کے نکلے' کوئی غیبی ہاتھ آئے گا اور ہماری جلائی ہوئی آگ کو برف بنا دے گا' ہم لوگوں کی عزت' غیرت اور حمیت کو ٹھڈے ماریں گے مگر قدرت ان کے دلوں میں ہمارے لیے رحم ڈال دے گی لیکن چند دن بعد معلوم ہوتا ہے آسمان کے نیچے کوئی ذی روح قدرت کا رشتے دار نہیں.
دنیا میں جنم لینے اور سانس لینے والے ہر شخص کو اپنی غلطیوں'اپنے تکبر اور اپنی کوتاہ فہمی کی فصل خود کاٹنا پڑتی ہے' اس زمین پر حضرت امام حسینؓ شمر کے ہاتھوں شہید ہو جاتے ہیں اور تاریخ کی سیاہی اپنے چہرے پرملنے والے بھی سال چھ مہینے بعد قبر کی مٹی بن جاتے ہیں اور پیچھے صرف تکبر اور غلطیوں کی ایسی راکھ رہ جاتی ہے جو وقت کی گلیوں میں دیوانہ وار اڑتی ہے اور لوگوں کو پکار پکار کر کہتی ہے بدنصیبو! سنو اسی گلی میں کل ایک ایسا شخص تھا جو خود کو تمہاری طرح خدا سمجھتا تھا مگر آج اس شخص کا کوئی نشان ہے اور نہ ہی نام' تاریخ کی راکھ وقت کی گلیوں میں سرپٹ دوڑتی اور بال کھول کھول کر چیختی ہے لیکن کوئی زندہ شخص اس کی آواز' اس کی پکار نہیں سنتا' لوگ اپنے کان لپیٹ کر عارضی کرسیوں اور وقتی عہدوں کو اپنے جسم کا حصہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہم چند دوستوں نے نئی حکومت آنے کے بعد کچھ وزارتوں کا ''زائچہ'' بنایا تھا' ہم نے اندازہ لگایا تھا پاکستان مسلم لیگ ن کی جس شخصیت کو واٹر اینڈ پاور کی وزارت ملے گی وہ چھ ماہ میں راجہ پرویز اشرف بن جائے گا اور عوام اور اس کی اپنی پارٹی اس کے ساتھ وہ سلوک کرے گی جو لوگوں نے راجہ پرویزاشرف کے ساتھ کیا تھا لیکن اس وزیر اور راجہ پرویز اشرف میں ایک فرق ہو گا' راجہ پرویز اشرف کا ''باس'' آصف علی زرداری جیسا دوست نواز شخص تھا جو ساتھیوں اور دوستوں کو بے یارومدد گار نہیں چھوڑتا چنانچہ صدر نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنا دیا لیکن پانی اور بجلی کے اگلے وزیر کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی' یہ پارٹی اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہوگا' ہمارا خیال تھا اگلا وزیر داخلہ رحمان ملک کی ایکسٹینشن ہوگا' یہ بھی رحمان ملک کی طرح بڑے بڑے دعوے کرے گا مگربعد ازاں یہ بھی اسٹنٹ مین بن کر رہ جائے گا.
ہمارا خیال تھا وزیر خزانہ بھی چھ ماہ میں بری طرح پھنس جائے گا' یہ معیشت کی سمت درست کرنے کا اعلان کر بیٹھے گا اور چھ ماہ میں ''ڈس کریڈٹ'' ہو کر رہ جائے گا' ہمارا خیال تھا ریلوے کی وزارت جس کے پاس جائے گی وہ دو مہینے میں حاجی غلام احمد بلور کی طرح نیم دیوانہ ہو جائے گا اور بار بار ریلوے کی فاتحہ پڑھے گا' ہمارا خیال تھا وزیر خارجہ بار بار تبدیل ہو گا' وزیراعظم ہر وزیر خارجہ کو ملکی وقار بلند کرنے کا ٹاسک دیں گے لیکن وہ انگریزی سیکھ کر چلتا بنے گا' ہمارا خیال تھا حکومت وزیر قانون' سیکریٹری قانون اور اٹارنی جنرل بھی بار بار تبدیل کرے گی' عدلیہ نئی حکومت سے جواب مانگے گی' وزیر قانون غلط بیانی کرے گا' اٹارنی جنرل غلط اسٹینڈ لے گا اور سیکریٹری قانون اپنی کھال بچانے کے لیے دائیں بائیں ہو جائے گا اور یوں یہ وزارت بھی بحران کا شکار ہو جائے گی اور ہمارا خیال تھا وزیر اطلاعات و نشریات پر بھی برے سائے منڈلاتے رہیں گے.
حکومت شروع میں کسی دھیمے اور شائستہ شخص کو وزیراطلاعات بنائے گی' وہ فاصلہ رکھنے کی پالیسی اپنائے گا' ٹی وی پروگراموں میں ''ون آن ون '' آنے کی ضد کرے گا اور یوں حکومت چھ ماہ میں کسی نہ کسی قمر زمان کائرہ کو تلاش کرنے پر مجبور ہو جائے گی' اگراسے کائرہ نہ ملا تو حکومت شیخ رشید کے ساتھ اتحاد کر لے گی' ہمارا خیال تھا حکومت پر یہ وقت چھ ماہ میں آئے گا لیکن ہمارا خیال غلط ثابت ہوا اور حکومت دوسرے ہی ہفتے بدقسمتی کا شکار ہوگئی' خواجہ آصف بڑی تیزی سے راجہ پرویز اشرف بنتے جا رہے ہیں' ان کے دو تین بیانات نے انھیں واپس قلعہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا' اخباری خبروں کے مطابق انھوں نے قومی اسمبلی میں بھی اپنی پارٹی کے ارکان اور وزراء سے درشت لہجے میں گفتگو شروع کر دی' ان میں ناصر بوسال' کیپٹن صفدر اور سردار محمد یوسف بھی شامل ہیں.
خواجہ صاحب نے انھیں نہ صرف ڈانٹ دیا تھا بلکہ ان کی طرف سے منہ بھی موڑ لیا'خواجہ آصف ایک شاندار انسان ہیں' ہماری دعا ہے یہ خبر غلط نکلے' چوہدری نثار شام کے بعد غائب ہو جاتے ہیں اور وزارت اپنے وزیر کا پتہ پوچھتی رہ جاتی ہے' کوئٹہ اور خیبر پختونخواہ میں حملوں نے بھی چوہدری نثار پر دباؤ بڑھا دیا' یہ اب صرف جذباتی تقریر کر کے جان نہیں چھڑا سکیں گے' اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق ان چند وزراء میں شامل ہیں جو آج بھی فون سنتے ہیں اور کال بیک بھی کرتے ہیں' اسحاق ڈار میڈیا پر حکومت کا مقدمہ بھی لڑ رہے ہیں' گو بیورو کریسی نے بجٹ میں ان سے چند ایسی غلطیاں کرا دیں جن کی وجہ سے بجٹ مذاق بن گیا مگر یہ اس کے باوجود مردانہ وار لڑ رہے ہیں' خواجہ سعد رفیق فیلڈ میں نظر آ رہے ہیں' یہ دو دن قبل ٹرین کے ذریعے لاہور سے راولپنڈی بھی آئے اور راستے میں مسافروں سے بھی ملتے رہے' وزیر قانون زاہد حامد قلم دان سنبھالتے ہی تبدیل ہو رہے ہیں' وزارت خارجہ مشیر خارجہ طارق فاطمی کو تسلیم نہیں کر رہی' حکومت شروع ہی میں ان کے رویئے سے پریشان ہو چکی ہے اور رہ گیا میرا عزیز ترین دوست پرویز رشید تو یہ بھی وزارت اطلاعات کی غلام گردشوں میں گم ہو چکا ہے' یہ ابھی تک وزارت اور قوم کو کوئی خوشخبری نہیں سنا سکا۔
دنیا کی ہر حکومت کے ابتدائی دس دن انتہائی اہم ہوتے ہیں' آپ اگر دس دنوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تو پھر آپ دس ہزار دنوں میں بھی کچھ نہیں بدل سکیں گے' دنیا کی ہر تبدیلی کا آغاز انسان کے 80 کلوگرام کے جسم سے ہوتا ہے' آپ اگر اپنا چھ فٹ کا جسم'اپنا آٹھ سو گرام دماغ اور اپنا تین سو گرام دل نہیں بدل سکتے' آپ اگر خود کو غرور سے نہیں بچا سکتے تو پھر آپ دنیا میں کچھ تبدیل نہیں کرسکتے' ہم اگر اپنے چھ فٹ کے جسم پر اسلام نافذ نہیں کر سکتے تو پھر ہم چھ براعظموں پر پھیلی اس دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے اور ہماری حکومت نے بدقسمتی سے یہ دس دن ضایع کر دیے' یہ آج کے دن تک کوئی بڑی اور واضح تبدیلی نہیں لا سکی.
مجھے یقین ہے حکومت کے وکیل میرے اس نقطے سے اختلاف کریں گے' یہ فرمائیں گے ہمیں حکومت کو وقت دینا چاہیے ' ہمیں انتظار کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ لیکن ہمارے پاس انتظار کے سوا ہے ہی کیا؟ اور ہم اگر حکومت کو وقت نہ بھی دیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ حکومت ان اعتراضات کے باوجود اسی طرح جاری و ساری رہے گی مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے حکومت کو ابتدائی دنوں میں جو کرنا چاہیے تھا یہ وہ نہیں کرسکی اور یوں محسوس ہوتا ہے صرف وزیراعظم اور وزراء بدلے ہیں' سسٹم ' خرابیاں اور بری خبریں اسی جگہ قائم ہیں!سوال یہ ہے حکومت دس دنوں میں کیا کرسکتی تھی؟ یہ میں کل عرض کروں گا' میں آپ کو کل بتاؤں گا دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں نے دس دنوں میں کیا کیا تھا اور ان کا کیا کیا نتیجہ نکلا تھا۔
(جاری ہے)