کرکٹ کا مسائلستان

بلاشبہ اس وقت کرکٹ کے مسائل سے کہیں زیادہ بڑے اور پیچیدہ مسئلے نئی حکومت اور اہلِ وطن کے سامنے پہاڑوں کی طرح کھڑے ہیں.


Amjad Islam Amjad June 19, 2013
[email protected]

بلاشبہ اس وقت کرکٹ کے مسائل سے کہیں زیادہ بڑے اور پیچیدہ مسئلے نئی حکومت اور اہلِ وطن کے سامنے پہاڑوں کی طرح کھڑے ہیں لیکن یہ میدان ایسا ہے جس میں بے شمار کوہ کن اور خسرو دن رات اپنے اپنے کام میں مصروف بھی ہیں سو فی الوقت اس موضوع پر علامہ صاحب کے اس مصرعے کی ٹیپ چپکا دیتے ہیں کہ ''انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد''

جہاں تک کرکٹ کے مسائلستان کا تعلق ہے اس کی تاریخ بھی ہماری سیاسی تاریخ کی طرح عمومی طور پر منتشر اور بے جہت ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منضبط بھی ہے لیکن انصاف سے دیکھا جائے تو اس صحرا نما ویرانے میں نخلستان نسبتاً کہیں زیادہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے پہلے دس برسوں میں (واضح رہے کہ اُس وقت ابھی سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کو ٹیسٹ اسٹیٹس نہیں ملا تھا اور ساؤتھ افریقہ کے ساتھ بوجوہ کوئی میچ یا سیریز طے نہیں پاسکی تھی) ۔ بھارت انگلستان ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اورویسٹ انڈیزسے مقابلہ کیا اور ایک بالکل نئی اور نا تجربہ کار ٹیم ہونے کے باوجود سب کو کم از کم ایک ایک ٹیسٹ میں ضرور شکست سے ہم کنار کیا ۔

حنیف محمد نے ٹیسٹ کرکٹ کی طویل ترین اننگز کھیلنے کا ریکارڈ قائم کیا(جو اَب تک قائم ہے) جب کہ فضل محمود نے چار مختلف ممالک کے خلاف میچ میں بار ہ وکٹیں لینے کا شاندار کارنامہ انجام دیا جو غالباً ابھی تک پچاس سے کم ٹیسٹ کھیلنے والے فاسٹ باؤلرز کی حد تک ایک ریکارڈ ہے) ساٹھ کی کمزور دہائی کے بعد ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں بھی قومی ٹیم کی کارکردگی عمومی طور پر اچھی رہی ، یہاں تک کہ 1992ء میں وہ عالمی کپ کی حقدار بھی ٹھہری ۔

اس کے بعد کا زمانہ دوبارہ آہستہ آہستہ ساٹھ کی دہائی کے نقشِ قدم پر چل پڑا اور اب گزشتہ تقریباً 13 برس سے ہمارا وہی حال ہے جو نائن الیون کے بعد سے ہماری سیاست کا ہے اس دوران میں جتنی حکومتیں بدلی ہیں کم و بیش اتنے ہی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بدلے ہیں یعنی جس طرح ہر آنے والی حکومت ، جانے والی حکومت کے تعمیری منصوبوں سے متعلق لگائی ہوئی یادگاری تختیوں کو ہٹانا اپنا اوّلین فرضِ منصبی سمجھتی ہے اُسی طرح سابقہ حکومت کے متعین کردہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو بھی اُس کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے ۔

کسی دیدہ ور کا قول ہے کہ بطور قوم ہماری ترقی نہ کرنے یا ترقی کے تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکنے میں جن روّیوں کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے اُن میں ہمارا یہ طرزِ عمل بھی شامل ہے کہ ہم آج تک ریاست اور حکومت کے درمیان موجود فرق کو سمجھنے اور ماننے سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ہی چل کر نہیں دے رہے۔

ماضی میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کیوں اور کیسے منتخب اور مقرر ہوتے رہے اس کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے آئیے موجودہ چیئرمین کی جگہ مقرر کیے جانے والے قائم مقام یا عارضی چیئرمین کے انتخاب کے مسئلے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس وقت چھ ممکنہ امیدواروں کے بار ے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں جن میں سینیٹر انور بیگ، ظفر الطاف، خالد محمود، عارف عباسی، ماجد جہانگیر اور جنرل توقیر ضیاء شامل ہیں ۔

ان میں سے سینیٹر انور بیگ اور ماجد جہانگیر کے سوا چاروں اصحاب کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی مّدت کے لیے اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں (عارف عباسی صاحب کے بارے میں شبہ ہے کہ شائد ان کا عہدہ بورڈکے سیکریٹری کا تھا) ماجد جہانگیر ایک بڑا معتبر نام ہے اور وہ مختلف حوالوں سے بورڈ سے متعلق بھی رہے ہیں۔ سو وہ بھی اس کے معاملات سے بخوبی واقف ہوں گے البتہ سینیٹر انور بیگ کو میں نے کرکٹ کے معاملات پر صرف میڈیا پر ہی بولتے سنا ہے بلاشبہ وہ اچھا بولتے ہیں مگر عملی طور پر وہ اس ذمے داری کے لیے کیسے ہیں اس کے بارے میں میرے لیے فی الوقت کوئی رائے دینا ممکن نہیں۔

اب رہی بات بقیہ چار صاحبان یعنی ظفر الطاف، خالد محمود، عارف عباسی اور توقیر ضیا کی تو چاروں ہی اس عہدے کے لیے اہل ہوسکتے ہیں کہ اُن کا سابقہ ریکارڈ اس بات پر دلالت کرتا ہے اور ان چاروں اصحاب کی ایک اضافی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی بعض پالیسیوں سے تو شائد کچھ ماہرین کو اختلاف رہا ہو لیکن مالی حوالے سے ان کا دامن بدعنوانی کے الزام سے پاک رہا ہے جو فی زمانہ اپنی جگہ پر ایک بہت بڑی خوبی تصور کی جاسکتی ہے کہ چاہے کوئی شخص دولت کے جوہڑ میں چھلانگ نہ بھی لگائے لیکن اگر وہ اس کے کنارے کنارے چل رہا ہو تو اُس پر چھینٹے پڑنے کا احتمال ہمیشہ قائم رہتا ہے۔

میری ذاتی رائے میں اس عہدے کے لیے (قائم مقام کے ساتھ ساتھ مستقل تقرری کے حوالے سے بھی) مندرجہ بالا چاروں نام اسی ترتیب (ظفر الطاف ، خالد محمود، عارف عباسی اور توقیر ضیا) سے دیکھے جانے چاہییں اگرچہ ظفر الطاف اور خالد محمود دونوں کا تعلق بیورو کریسی سے رہا ہے مگر مزاج کے اعتبار سے دونوں میں بہت فرق ہے اس کی ایک وجہ شائد یہ بھی ہو کہ ظفر الطاف خود اعلیٰ ترین سطح پر کرکٹ کھیل چکے ہیں اور نفسیات کے حوالے سے کھلاڑیوں کے ذہنی مسائل کے بارے میں خصوصی درَک بھی رکھتے ہیں لیکن جہاں تک میرے علم میں ہے وہ اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے غالباً کسی بھی حکمران طبقے کے لیے بہت زیادہ پسندیدہ''امیدوار'' نہیں ہوں گے جب کہ دوسرے نمبر پر موجود خالد محمود تجربے اور دیانت کے حوالے سے قابلِ قدر صلاحیت اور شہرت رکھنے کے ساتھ ساتھ مزاج کے اعتبار سے بھی نسبتاً دھیمے اور صلح کل آدمی ہیں۔ جہاں تک عارف عباسی، توقیر ضیا، ماجد خان اورسینیٹرانور بیگ(اس صف میں چشتی مجاہد کا نام بھی آسکتا ہے) کے ناموں کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہ لوگ اس عہدے کے اہل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ظفر الطاف اور خالد محمود صاحب کے نام کسی نامعلوم وجہ سے قابلِ قبول نہ ہوں۔ فی الوقت کرکٹ کے حوالے سے اتنا ہی انشاء اﷲ کچھ عرصہ بعد موجودہ ٹیم کی کارکردگی اور مسائل کے حوالے سے بھی بات ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں