میرا لاہوری آبائی گھر
سب سے پہلے میں خلاف معمول اور روایتاً اپنی اس آگ کا ذکر کرتا ہوں جو میرے تن بدن میں پروف ریڈنگ کی غلطی سے بھڑک رہی ہے۔
سب سے پہلے میں خلاف معمول اور روایتاً اپنی اس آگ کا ذکر کرتا ہوں جو میرے تن بدن میں پروف ریڈنگ کی غلطی سے بھڑک رہی ہے۔ اخبار میں ایک شعر تو درست لکھ دیا گیا لیکن 'سیر چشم' کی جگہ 'سیسہ چشم'' چھاپ کر مجھ سے کہیں زیادہ اس شاعر کی روح کو تڑپایا گیا جو نہ جانے کہاں کروٹیں بدل رہا ہو گا۔ اب آج کی تازہ بات کرتے ہیں کہ ہمارے وزیراعلیٰ نے صوبہ میں پانچ مرلے کے غریب ترین گھروں پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے۔ اس پر وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ بجٹ میں غریب کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
وزیر موصوف کی اس غریب پروری کو غریبوں کو ریلیف کی ایک اور کوشش سمجھ لیجیے۔ لاہور شہر میں میرا ''آبائی گھر'' پانچ سے بھی کم مرلے کا ہے۔ میں نے اس مکان کے اصل مالک سے پوچھا کہ یہ کتنے رقبے کا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں جب فلیٹس تعمیر کر رہا تھا تو جو جگہ بچ گئی تھی اس پر یہ فلیٹ بنا دیا گیا اب مجھے رقبے کا پتہ نہیں۔ یہ ہیں مشہور و معروف اداکار محترم حبیب جن سے میں نے یہ فلیٹ خریدا یا انھوں نے زبردستی مجھے دے دیا اور جو کچھ میری جیب میں تھا اسے ہی قیمت سمجھ لیا یوں میں لاہور میں اپنے پہلے گھر کا مالک بن گیا جسے میں لاہور میں اپنا آبائی گھر کہتا ہوں۔
قبرستان میانی صاحب سے چند قدم کے فاصلے پر اور ایک مرحوم ریاست بہاول پور ہاؤس کے بالمقابل اس گھر میں میری لاہوری عمر گزر گئی۔ نہ صرف بڑے بڑے لیڈر یہاں تشریف لاتے رہے بلکہ ماضی کی ایک سیاسی تحریک 'ایم آر ڈی' کی بنیاد بھی اسی گھر میں نواب زادہ نصراللہ خان نے رکھی چنانچہ اب میرے اس برائے نام رقبہ کے گھر پر بھی میاں صاحب نے ٹیکس لگا دیا ہے جو جاتی عمرا کے کسی متروکہ کونے سے بھی کم ہے۔
اس نام نہاد گھر کے آس پاس کاریگروں نے موٹروں کی مرمت شروع کر دی اور اس شور و شغب میں مجھے بے دخل کر کے کرائے کے مکانوں میں دھکیل دیا اللہ کا شکر کہ سر پر چھت ہے خواہ اس کا مالک کوئی بھی ہو۔ ویسے مشہور ہے کہ بے وقوف گھر بناتے ہیں اور عقلمند ان میں رہتے ہیں۔ آپ اس مجبور کو بھی عقلمند ہی سمجھیں۔ حالات انسان کو کہاں سے کہاں اچھالتے اور پٹکتے رہتے ہیں۔ میں ان مکانوں اور ڈیروں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جن کو چھوڑ کر میں راوی پار 'عقلمند' بننے آ گیا ہوں اور اب کم ترین گھر پر میاں صاحب کے ٹیکس کا نشانہ بن گیا ہوں۔ ہماری خیر، میاں صاحب خوش رہیں اور اقتدار کے مزے لوٹیں اس سے پہلے کہ اقتدار ٹیکس زدگان کے ہاتھوں بدمزہ ہو جائے۔
سیاسی حکمرانوں کی بات ہو رہی ہے تو ہمارے وزیر اطلاعات وفاقی کے تازہ بیان کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں۔ ''دہشت گردی میں بعض ہمسایہ ممالک ملوث ہیں۔'' جناب رحمن ملک صاحب سے انھوں نے یہ ترقی کی ہے کہ کسی غیر ملکی ہاتھ کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں دہرا دیا ہے۔ ایک دوست کہہ رہے تھے کہ تم لوگ کس طرح ان نئے حکمرانوں سے کچھ امید کرتے ہو کہ یہ تو نئے بھی نہیں ہیں وہی دیکھے بھالے پرانے ہیں۔ وہی سوچ وہی اسٹائل اور وہی نہ نکالی جانے والی کسریں، جو اب نکلنی ہیں۔
برادر اگر کوئی پڑوسی ملک ہماری تباہی کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے تو آپ کو کیا مجبوری لاحق ہے کہ اس دشمن ملک کا ذکر نہ کریں اور عوام کو اندازے لگانے کے لیے چھوڑ دیں، اگر ملک کے حکمران ملک دشمنوں کو بے نقاب نہیں کریں گے اور ان کے چھپے ہوئے نام نہیں کھولیں گے تو کیا ماماں گاموں یہ راز افشاء کرے گا۔ جب بارشیں بہت لمبی ہو گئیں اور خلق خدا اور اس کے کھیت بھی تنگ آ گئے تو کسی نے مامے سے پوچھا کہ یہ بارشیں کب جان چھوڑیں گی۔
مامے نے سامنے پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارا فساد ادھر سے اٹھ رہا ہے اور یہ بات ٹھیک بھی تھی کہ مشرق کی سمت کی پہاڑی کی طرف سے بارشیں شروع ہوئی تھیں، بارشیں عموماً ایک خاص موسم میں مشرقی ہوائیں اپنے ساتھ لاتی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ جب کوئی نیا وزیر بنایا جائے تو اس کی تھوڑی بہت ضروری قسم کی تربیت بھی کر دی جائے کہ وہ مذاق نہ کیا کرے۔ اس سلسلے میں آزمودہ کار لوگوں کا ایک ادارہ بنایا جا سکتا ہے۔
ایک بڑی زبردست خبر چھپی ہے اور معلوم نہیں اس کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں کہ یہ خبر عدلیہ سے متعلق ہے اور استاد نے ہدایت کی تھی کہ فوج اور عدلیہ کے بارے میں خبر نہ دو۔ فوج خبر خود جاری کرے گی اور عدلیہ کا فیصلہ بچشم خود دیکھ کر احتیاط سے اسے نقل کیا کرو اور خبر بنا دیا کرو اور ہاں اسمبلی کی خبر بھی بہت سنبھل کر کہ وہاں جو لوگ بیٹھتے ہیں وہ لا علاج ہوتے ہیں۔
ان سے بچ کر رہو لیکن آج عدلیہ کے بارے میں جو خبر ملی ہے اس پر تنقید کی مجال نہیں جج صاحبان کو پانچ ہزار روپے روزانہ الاؤنس ملے گا اور وہ دو گاڑیاں رکھ سکتے ہیں۔ سفری الاؤنس بھی سو فی صد بڑھا دیا گیا ہے۔ ان خصوصی مراعات کی خبر طویل ہے لیکن اس خبر نے مجھے پریشان کر دیا ہے کہ کاش میں ایک پھٹیچر صحافی بننے کی جگہ عدالت میں بھرتی ہو گیا ہوتا اور آج صحافیوں کو توہین عدالت کے نوٹس بھجوا رہا ہوتا لیکن قدرت کو منظور یہ تھا کہ میں نوٹس دینے والا نہیں وصول کرنے والا بن جاؤں۔
اپنی نئی حکومتوں پر ہمیں احتیاط کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے۔ ہماری چار صوبائی اور ایک وفاقی حکومت قائم ہو چکی ہے اور ابھی انھیں اقتدار میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔ ابھی تک تو وہ اپنے سرکاری گھروں کے درودیوار کو گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہم ان گھروں میں سرکاری خرچ پر قیام کریں گے۔ ہمارے ایک مولوی صاحب کو زرداری صاحب نے ایک ایسا عہدہ دے دیا جس میں وزارت بھی شامل تھی چنانچہ وہ وزیروں والے علاقے میں ڈٹ کر بیٹھ گئے اور حلوہ کھانے لگے۔ جب حکومتیں بدل گئیں تو انھوں نے پوچھا کہ میں کیا کروں کہ یہ گھر میرے قبضے میں رہے۔ یہ سرکاری گھر کسی مسجد کے منبر و محراب سے زیادہ پر کشش تھا۔ یہ تو پرانے تھے جو نئے آئے ہیں ان کو ابھی نئی دنیا کے اس خوابیدہ ماحول سے آشنا ہونے دیں اور جب وہ بن سنور کر باہر نکلنا شروع ہوں گے تو پھر دیکھیں گے وہ بھی یہیں ہم بھی یہیں بلکہ وہ تب تک ہیں ہم تو یہیں ہیں ہی۔