فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگائیں
چند روز قبل سابق امریکی صدر کلنٹن ایک اہم سیمینارمیں موجود تھے۔ وہاں اوباما کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے والے...
BARCELONA:
چند روز قبل سابق امریکی صدر کلنٹن ایک اہم سیمینارمیں موجود تھے۔ وہاں اوباما کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے والے جان مکین نے ان سے کچھ بڑے ہی بنیادی نوعیت کے سوالات کیے۔ ان سوالوں میں سب سے اہم میری نظر میں یہ تھا کہ کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم کو فیصلہ سازی کرتے وقت اخباروں میں وقتاً فوقتاً شایع ہونے والے عوامی رائے کے سروے کو کتنی اہمیت دینا چاہیے۔
کلنٹن نے بغیر کسی تمہید کے فوراً جواب دیا کہ سیاستدان ایک کامیاب رہبر اس وقت بنتا ہے جب اسے اپنے فیصلوں کے دور رس اثرات کو جبلّی طور پر سمجھنے کی قدرت حاصل ہوجائے۔ فرض کیا وہ ایک خاص صورت حال میں کوئی ایک مخصوص قدم اُٹھانا طویل المدتی تناظر میں اپنے ملک کے لیے ضروری سمجھتا ہے تواسے وہ قدم اٹھانے میں ہرگز دیر نہیں لگانا چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے اسے انتہائی بے دردی کے ساتھ اس خاص صورتحال کے بارے میں جس کا وہ اپنے انداز میں سامنا کرنا چاہتا ہے عوامی رائے عامہ کی بالکل فکر نہیں کرنا چاہیے۔
صدر کلنٹن کے یہ خیالات پڑھنے کے بعد میرا ذہن خودبخود اس خبر کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا جس میں اطلاع دی گئی تھی کہ نواز شریف صاحب پاکستان میں دہشت گردی کا حل ڈھونڈنے کے لیے ایک کل جماعتی کانفرنس بلوانے پر غور کررہے ہیں۔ افغان جہاد کے زمانے سے پاکستان کا مقدر بنے دہشت گردی کے واقعات کا تدارک کرنے کے لیے نام نہاد آل پارٹیز کانفرنس کی روایت کا آغاز جنرل مشرف کے دور سے شروع ہوا تھا۔ صدر زرداری اور ان کے بنائے وزیر اعظموں نے اس روایت کو عادت کے طور پر اپنا لیا۔ نتیجہ پھر بھی صفر کا صفر رہا۔ حالات بلکہ بتدریج بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔
پتہ نہیں کیوں ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما یہ بنیادی حقیقت ابھی تک دریافت نہیں کر پائے کہ عام انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں اکثریت کے ذریعے بنائی جانے والی حکومت کو دراصل فیصلہ سازی کا مکمل اختیار بھی دیا جاتا ہے۔11مئی 2013ء کے دن نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہے ۔ اس دن کی بدولت نواز شریف پاکستان کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں اور اپنے عہدے کا حلف لیتے ہوئے انھوں نے پاکستان کے آئین اور اس کی سلامتی کو یقینی بنانے کی قسم کھائی ہے۔
اب یہ قطعی طور پر ان کی ذمے داری اور اختیار ہے کہ بجائے آل پارٹیز کانفرنس جسے میلے سجانے کے، وہ امن وامان سے متعلقہ تمام اداروں کے سربراہان کو قومی سلامتی کے امور کے بارے میں ذمے دار بنائے افراد سمیت اپنے دفتر میں بلاکر ایک نہیں جتنے چاہیں اجلاس بلائیں۔ ان تمام افراد کو ٹھوس سوالات کے ذریعے پورا سچ بتانے پر مجبور کریں اور انتہائی خلوص سے یہ جاننے کی کوشش بھی کہ ابھی تک پاکستانی عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یہ ادارے کیوں ناکام رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا پورا ادراک بھی وہ کون سے جدید تر وسائل ہیں جنھیں میسر کیے بغیر پاکستانی ریاست اپنے مقصد کے ساتھ جنون کی حد تک وابستہ دہشت گردوں کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی ۔
میٹرو بس اور بلٹ ٹرینیں چلانے کے خوابوں کو فی الحال پسِ پشت رکھتے ہوئے وزیر اعظم ایسے وسائل کو جہاں تک ہمارا خزانہ اجازت دیتا ہے فی الفور فراہم کرنے کا بندوبست کریں اور پھر اپنے وزیر داخلہ سمیت ہر ماہ کم از کم دو نہیں تو ایک بار اپنے دفتر میں قومی سلامتی اور امن وامان کے ذمے داران کو بلاکر Progress Reportمانگیں۔ کوتاہی کرنے والے کو فوری سزا اور نتائج دینے والوں کی ستائش کا رواج ڈالیں اور پاکستان کے لوگوں کو دکھلا دیں کہ اچھی حکومتیں دہشت گردی پر کس طرح قابو پایا کرتی ہیں۔
مندرجہ بالا اقدامات کے علاوہ کی جانے والی ہر بات محض ''آنیاں جانیاں''ہے۔ وقت کا ضیاع ہے اور میڈیا میں زندہ رہنے کے ہتھکنڈے۔ ہم نے یہ سب کچھ گزشتہ پانچ برسوں میں اپنی برداشت سے کہیں زیادہ دیکھ لیا ہے۔ اب آگے بڑھیں۔ صاف ذہن کے ساتھ ٹھوس فیصلے کریں ان فیصلوں کو واضح احکامات کی صورت میں قومی سلامتی اور امن وامان کے ذمے داروں تک پہنچائیں اور پھر اپنے اقدامات کی تکمیل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا کڑا جائزہ لینا شروع کردیں۔
آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے تو وہاں قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ لینے والے سیاستدانوں کو بھی بلانا پڑے گا۔ جن جماعتوں نے ان سے کہیں زیادہ لوگ جتوائے ہیں وہ تمام جماعتیں حال ہی میں ختم ہونے والی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے بارے میں اپنے موقف کو بڑی تفصیل سے پوری قوم کو آگاہ کرچکی ہیں۔ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ ڈرون حملے رکوائے یا ان طیاروں کو گرائے بغیر پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو ہی نہیں سکتی۔ میرا نہیں خیال کہ آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کے بعد وہ اپنا موقف تبدیل کرلے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں دہشت گردی کے حل کا پورا ذمے پاکستان کی عسکری قیادت اور اداروں کے سرڈال رکھا تھا۔ ان کی یہ سوچ ابھی تک تبدیل ہوتی نظر نہیں آرہی۔ یہ جماعت آل پارٹیز کانفرنس کے لیے بھی کوئی خاص معجون تیار نہیں کر پائے گی۔ باقی جماعتوں کا ذکر اس ضمن میں نہ ہی کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ نواز شریف کسی طرح دریافت کرلیں کہ 11مئی کے انتخابات نے انھیں وزیر اعظم ہاؤس میں آرام کرنے نہیں بھیجا ہے۔ ان کے سرپر کچھ ذمے داریوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے مگر ان سے نبردآزما ہونے کے تمام تر اختیارات کے ساتھ۔ خدا کے لیے اپنے ان اختیارات کو جانیں اور انھیں استعمال کرنا شروع کریں۔