تحریک انصاف کا امتحان
تحریک انصاف کے سربراہ پورے پاکستان کو نیا پاکستان بنانا چاہتے تھے لیکن شومئی قسمت سے انھیں یہ موقع نہ ملا...
KARACHI:
تحریک انصاف کے سربراہ پورے پاکستان کو نیا پاکستان بنانا چاہتے تھے لیکن شومئی قسمت سے انھیں یہ موقع نہ ملا۔ البتہ انھیں یہ موقع ضرور حاصل ہوگیا ہے کہ وہ پختونخوا کو نیا پختونخوا بنائیں۔ ہم فی الوقت نئے پختونخوا کو ایک طرف رکھ کر اس بد ترین حقیقت پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو خون غریباں کی شکل میں ہمارے سامنے عشروں سے موجود ہے۔ اس حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف پختونخوا بلکہ سارے پاکستان کے سیاست دان ڈرون حملوں کو پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری میں امریکا کی مداخلت کہتے ہوئے امریکا سے فوری طور پر ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلا شبہ کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک کی سرحدوں کے اندر کسی بھی بیرونی طاقت کی مداخلت ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، ڈرون حملوں کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان حملوں میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں اور بے گناہ خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو اس کا مارا جانا قانون اور انصاف کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا انسانی جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔
اس حوالے سے اہل خرد حیران ہیں کہ ڈرون حملوں میں گناہ گاروں کے ساتھ بے گناہ مارے جانے والوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی نظر ان ہزاروں بے گناہوں پر کیوں نہیں پڑتی جو خیبر سے کراچی تک ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے دہشت گردوں، مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کیے جارہے ہیں؟ تحریک انصاف کے سربراہ آج سے نہیں بلکہ برسوں سے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، مظاہرے کررہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں، بلکہ ان کی سیاست کا آغاز ہی ڈرون حملوں کے خلاف ہوا ہے۔ عمران خان کا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد کے خلاف احتجاج اس وقت منصفانہ ہوتا جب وہ مذہبی انتہا پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں خیبر سے کراچی تک مارے جانے والے ہزاروں بے گناہوں کے حق میں بھی اس طرح کا احتجاج کرتے جیسا وہ ڈرون حملوں کے خلاف کررہے ہیں اور خیبر سے کراچی تک بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والوں کی مذمت اسی طرح کرتے جیسے وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کررہے ہیں؟
پختونخوا اے این پی کے پانچ سالہ دور میں بے گناہ پختونوں کا مقتل بنا رہا۔ اے این پی کی ناقص کارکردگی، کرپشن وغیرہ جیسے الزامات کی تردید تو مشکل ہے جن کی وجہ سے 11مئی کے الیکشن میں اے این پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پختونخوا میں اس دوران بے گناہ انسانوں کا ہزاروں کی تعداد میں جو قتل ہوا اس کا الزام اے این پی پر عائد نہیں ہوسکتا بلکہ خود اے این پی بھی ان ہی مظلوموں میں شامل ہے جو جرم بے گناہی میں قتل ہوتے رہے۔ پختونخوا سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کا طوفان برپا ہے اور جس میں لگ بھگ70ہزار سے زیادہ انسان جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس میں صرف دہشت گردوں ہی کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ سابق حکمرانوں اور بالادست طاقتوں کے علاوہ اس مذہبی انتہا پسندانہ فکر و فلسفے کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جس نے انسانوں کو حیوان بنا دیا ہے اور اس کے گہرے اثرات کا عالم یہ ہے کہ 12،14سال کے بچے اور جوان حتیٰ کہ خواتین تک اپنی مرضی خوشی اور رضا سے خود کو اور بہت سارے بے گناہوں کو ایسی بھیانک موت کے حوالے کرتے ہیں جس کی جہل کی تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی۔ جب حکومتیں اور اس کی ذیلی تنظیمیں جہلاء کے ہاتھوں میں آجاتی ہیں تو جہل کا پروان چڑھنا ایک فطری عمل ہوجاتاہے۔ ہم بہ حیثیت مجموعی اس جہل کا شکار ہیں۔
11مئی کے الیکشن میں جہاں اے این پی کو بد ترین شکست سے دو چار ہونا پڑا وہی اس صوبے میں ایک ایسی سیاسی جماعت کو اقتدار ملا جس کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں بدل دے گی۔ نیا پاکستان کیا ہوگا، کیسا ہوگا، یہ مسئلہ تو اس وقت کا ہے جب ہم پرانے پاکستان کے آہنی اور خونی حصار سے باہر نکلیں گے۔ پرانے پاکستان کا حال یہ ہے کہ اس کے ایک حصے شمالی وزیرستان جس کا رقبہ ساڑھے چار ہزار مربع میل بتایاجاتاہے وہاں ہماری صوبائی حکومت کی کوئی عملداری ہے نہ مرکزی حکومت کی کوئی رٹ موجود ہے۔ یہاں کی لگ بھگ چارلاکھ کی آبادی دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی یرغمال ہے۔ انتہا پسند اسے امارات اسلامیہ وزیرستان کہتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ یہ علاقہ جلال الدین حقانی گروپ کا بیس کیمپ ہے جس کا مقصد امریکا اور نیٹو کے تسلط سے افغانستان کو آزادکرانا ہے۔ اس گروپ کے کارکنوں کی تعداد تیس بتیس ہزار بتائی جاتی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پختونخوا میں قتل وغارت کا مرکز بھی یہی ہے۔
خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس میں ہر روز بے گناہ مرد، عورت، بچے، بوڑھے، پولیس کے سپاہی، رینجرز، ایف سی اور فوج کے جوان مارے جارہے ہیں۔ اے این پی کی حکومت اس قتل عام پر قابو پانے میں ناکام رہی، پختونخوا کے عوام نے اس ظلم وبربریت سے نجات پانے کی امید میں تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور مذہبی جماعتوں کو بھی مینڈیٹ دیا۔ اب دہشت گردی کے خاتمے کی ذمے داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف کے نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک فرمارہے ہیں کہ یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ وفاق کی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس کی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد کی جارہی ہے اور یہ صوبائی حکومتیں اپنی یہ ذمے داری قبول بھی کررہی ہے اور اس کو کنٹرول کرنے میں اپنی ناکامی پر عوام سے معذرت بھی کررہی ہیں۔ پھر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی اپنی ذمے داری سے پہلوتہی اور وفاق پر الزام تراشی کا مقصد کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آفت کی ذمے داری بڑی حد تک ہماری سابقہ حکومتوں پر بھی آتی ہے جنھوںنے اپنی احمقانہ سیاسی مصلحتوں کی خاطراس عفریت کو پیدا کیا، پروان چڑھایا اور مستحکم کیا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ عفریت اس وقت سے پختونخوا میں مستحکم ہوا جب اس صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت بر سر اقتدار تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پختونخوا کے عوام مذہب سے والہانہ لگائو رکھتے ہیں۔ لیکن کیا یہ عوام مذہب کی اس تعبیر اور تشریح کی امید رکھتے تھے۔ اگر پختون عوام مذہب کی اس ہیبت ناک شکل کا ادراک رکھتے تو سوات سے اس عفریت کو نکالے جانے پر نہ اس قدر مطمئن ہوتے نہ اس نجات کی خوشیاں مناتے۔ آج پورے پختونخوا کے عوام تحریک انصاف کی حکومت کی طرف اس امید سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید وہ انھیں اس بہیمانہ قتل وغارت سے نجات دلائے۔ کیا پختون وزیراعلیٰ دہشت گردی کے خاتمے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال کر اپنے صوبے کے عوام سے لا تعلقی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں؟
دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو وہی جماعتیں وہی حکومتیں ختم کرسکتی ہیں جو نظریاتی طور پر اسے ملک وقوم کے خلاف سمجھتی ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم تحریک انصاف کی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو یہ حیرت انگیز حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت کے دل میں دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔ خواہ اس کی وجہ سیاسی مفادات ہوں یا نظریاتی ہم آہنگی۔ اس کا ایک واضح ثبوت الیکشن مہم کے دوران ان کا دہشت گردی سے محفوظ رہنا ہے۔ دوسرا ثبوت دہشت گردی کے خلاف احتجاج سے گریزاں رہنا ہے اور یہ بات ملک کے عوام کے سامنے صورت سوال کھڑی ہے اور ان کی فکر کے در وا کر رہی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران صرف لبرل اور ترقی پسند جماعتیں ہی دہشت گردوں کا ٹارگٹ کیوں رہیں۔ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور مذہبی جماعتیں کیوں محفوظ رہیں؟
تحریک انصاف پختونخوا کے حوالے سے نیا پاکستان کے فلسفے کو تو فی الوقت التوا میں رکھے اگر وہ پختون عوام سے دلچسپی رکھتی ہے تو بس ان پر اتنا کرم کرے کہ اس بد قسمت صوبے کو جو ایک عشرے سے اپنے ہی خون میں نہایا کھڑا ہے دہشت گردوں سے نجات دلادے۔ اگر یہ نجات دہشت گردوں سے مذاکرات سے ممکن ہے تو بسم اﷲ۔ یہ طریقہ بھی آزمائے۔ پختون عوام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں!! اس صوبے میں تحریک انصاف کی ترجیحات کا اندازہ اس کے اتحادیوں کی نظریاتی سیاست سے ہوتا ہے اور اس اتحاد کے مضمرات عوام میں مایوسی ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کا امتحان ہے جس سے اس کا مستقبل وابستہ ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ پورے پاکستان کو نیا پاکستان بنانا چاہتے تھے لیکن شومئی قسمت سے انھیں یہ موقع نہ ملا۔ البتہ انھیں یہ موقع ضرور حاصل ہوگیا ہے کہ وہ پختونخوا کو نیا پختونخوا بنائیں۔ ہم فی الوقت نئے پختونخوا کو ایک طرف رکھ کر اس بد ترین حقیقت پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو خون غریباں کی شکل میں ہمارے سامنے عشروں سے موجود ہے۔ اس حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف پختونخوا بلکہ سارے پاکستان کے سیاست دان ڈرون حملوں کو پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری میں امریکا کی مداخلت کہتے ہوئے امریکا سے فوری طور پر ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلا شبہ کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک کی سرحدوں کے اندر کسی بھی بیرونی طاقت کی مداخلت ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، ڈرون حملوں کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان حملوں میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں اور بے گناہ خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو اس کا مارا جانا قانون اور انصاف کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا انسانی جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔
اس حوالے سے اہل خرد حیران ہیں کہ ڈرون حملوں میں گناہ گاروں کے ساتھ بے گناہ مارے جانے والوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی نظر ان ہزاروں بے گناہوں پر کیوں نہیں پڑتی جو خیبر سے کراچی تک ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے دہشت گردوں، مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کیے جارہے ہیں؟ تحریک انصاف کے سربراہ آج سے نہیں بلکہ برسوں سے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، مظاہرے کررہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں، بلکہ ان کی سیاست کا آغاز ہی ڈرون حملوں کے خلاف ہوا ہے۔ عمران خان کا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد کے خلاف احتجاج اس وقت منصفانہ ہوتا جب وہ مذہبی انتہا پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں خیبر سے کراچی تک مارے جانے والے ہزاروں بے گناہوں کے حق میں بھی اس طرح کا احتجاج کرتے جیسا وہ ڈرون حملوں کے خلاف کررہے ہیں اور خیبر سے کراچی تک بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والوں کی مذمت اسی طرح کرتے جیسے وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کررہے ہیں؟
پختونخوا اے این پی کے پانچ سالہ دور میں بے گناہ پختونوں کا مقتل بنا رہا۔ اے این پی کی ناقص کارکردگی، کرپشن وغیرہ جیسے الزامات کی تردید تو مشکل ہے جن کی وجہ سے 11مئی کے الیکشن میں اے این پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پختونخوا میں اس دوران بے گناہ انسانوں کا ہزاروں کی تعداد میں جو قتل ہوا اس کا الزام اے این پی پر عائد نہیں ہوسکتا بلکہ خود اے این پی بھی ان ہی مظلوموں میں شامل ہے جو جرم بے گناہی میں قتل ہوتے رہے۔ پختونخوا سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کا طوفان برپا ہے اور جس میں لگ بھگ70ہزار سے زیادہ انسان جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس میں صرف دہشت گردوں ہی کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ سابق حکمرانوں اور بالادست طاقتوں کے علاوہ اس مذہبی انتہا پسندانہ فکر و فلسفے کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جس نے انسانوں کو حیوان بنا دیا ہے اور اس کے گہرے اثرات کا عالم یہ ہے کہ 12،14سال کے بچے اور جوان حتیٰ کہ خواتین تک اپنی مرضی خوشی اور رضا سے خود کو اور بہت سارے بے گناہوں کو ایسی بھیانک موت کے حوالے کرتے ہیں جس کی جہل کی تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی۔ جب حکومتیں اور اس کی ذیلی تنظیمیں جہلاء کے ہاتھوں میں آجاتی ہیں تو جہل کا پروان چڑھنا ایک فطری عمل ہوجاتاہے۔ ہم بہ حیثیت مجموعی اس جہل کا شکار ہیں۔
11مئی کے الیکشن میں جہاں اے این پی کو بد ترین شکست سے دو چار ہونا پڑا وہی اس صوبے میں ایک ایسی سیاسی جماعت کو اقتدار ملا جس کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں بدل دے گی۔ نیا پاکستان کیا ہوگا، کیسا ہوگا، یہ مسئلہ تو اس وقت کا ہے جب ہم پرانے پاکستان کے آہنی اور خونی حصار سے باہر نکلیں گے۔ پرانے پاکستان کا حال یہ ہے کہ اس کے ایک حصے شمالی وزیرستان جس کا رقبہ ساڑھے چار ہزار مربع میل بتایاجاتاہے وہاں ہماری صوبائی حکومت کی کوئی عملداری ہے نہ مرکزی حکومت کی کوئی رٹ موجود ہے۔ یہاں کی لگ بھگ چارلاکھ کی آبادی دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی یرغمال ہے۔ انتہا پسند اسے امارات اسلامیہ وزیرستان کہتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ یہ علاقہ جلال الدین حقانی گروپ کا بیس کیمپ ہے جس کا مقصد امریکا اور نیٹو کے تسلط سے افغانستان کو آزادکرانا ہے۔ اس گروپ کے کارکنوں کی تعداد تیس بتیس ہزار بتائی جاتی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پختونخوا میں قتل وغارت کا مرکز بھی یہی ہے۔
خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس میں ہر روز بے گناہ مرد، عورت، بچے، بوڑھے، پولیس کے سپاہی، رینجرز، ایف سی اور فوج کے جوان مارے جارہے ہیں۔ اے این پی کی حکومت اس قتل عام پر قابو پانے میں ناکام رہی، پختونخوا کے عوام نے اس ظلم وبربریت سے نجات پانے کی امید میں تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور مذہبی جماعتوں کو بھی مینڈیٹ دیا۔ اب دہشت گردی کے خاتمے کی ذمے داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف کے نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک فرمارہے ہیں کہ یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ وفاق کی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس کی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد کی جارہی ہے اور یہ صوبائی حکومتیں اپنی یہ ذمے داری قبول بھی کررہی ہے اور اس کو کنٹرول کرنے میں اپنی ناکامی پر عوام سے معذرت بھی کررہی ہیں۔ پھر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی اپنی ذمے داری سے پہلوتہی اور وفاق پر الزام تراشی کا مقصد کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آفت کی ذمے داری بڑی حد تک ہماری سابقہ حکومتوں پر بھی آتی ہے جنھوںنے اپنی احمقانہ سیاسی مصلحتوں کی خاطراس عفریت کو پیدا کیا، پروان چڑھایا اور مستحکم کیا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ عفریت اس وقت سے پختونخوا میں مستحکم ہوا جب اس صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت بر سر اقتدار تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پختونخوا کے عوام مذہب سے والہانہ لگائو رکھتے ہیں۔ لیکن کیا یہ عوام مذہب کی اس تعبیر اور تشریح کی امید رکھتے تھے۔ اگر پختون عوام مذہب کی اس ہیبت ناک شکل کا ادراک رکھتے تو سوات سے اس عفریت کو نکالے جانے پر نہ اس قدر مطمئن ہوتے نہ اس نجات کی خوشیاں مناتے۔ آج پورے پختونخوا کے عوام تحریک انصاف کی حکومت کی طرف اس امید سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید وہ انھیں اس بہیمانہ قتل وغارت سے نجات دلائے۔ کیا پختون وزیراعلیٰ دہشت گردی کے خاتمے کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال کر اپنے صوبے کے عوام سے لا تعلقی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں؟
دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو وہی جماعتیں وہی حکومتیں ختم کرسکتی ہیں جو نظریاتی طور پر اسے ملک وقوم کے خلاف سمجھتی ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم تحریک انصاف کی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو یہ حیرت انگیز حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت کے دل میں دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔ خواہ اس کی وجہ سیاسی مفادات ہوں یا نظریاتی ہم آہنگی۔ اس کا ایک واضح ثبوت الیکشن مہم کے دوران ان کا دہشت گردی سے محفوظ رہنا ہے۔ دوسرا ثبوت دہشت گردی کے خلاف احتجاج سے گریزاں رہنا ہے اور یہ بات ملک کے عوام کے سامنے صورت سوال کھڑی ہے اور ان کی فکر کے در وا کر رہی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران صرف لبرل اور ترقی پسند جماعتیں ہی دہشت گردوں کا ٹارگٹ کیوں رہیں۔ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور مذہبی جماعتیں کیوں محفوظ رہیں؟
تحریک انصاف پختونخوا کے حوالے سے نیا پاکستان کے فلسفے کو تو فی الوقت التوا میں رکھے اگر وہ پختون عوام سے دلچسپی رکھتی ہے تو بس ان پر اتنا کرم کرے کہ اس بد قسمت صوبے کو جو ایک عشرے سے اپنے ہی خون میں نہایا کھڑا ہے دہشت گردوں سے نجات دلادے۔ اگر یہ نجات دہشت گردوں سے مذاکرات سے ممکن ہے تو بسم اﷲ۔ یہ طریقہ بھی آزمائے۔ پختون عوام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں!! اس صوبے میں تحریک انصاف کی ترجیحات کا اندازہ اس کے اتحادیوں کی نظریاتی سیاست سے ہوتا ہے اور اس اتحاد کے مضمرات عوام میں مایوسی ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کا امتحان ہے جس سے اس کا مستقبل وابستہ ہے۔