ناانصافی
ایک روز میں کلب میں بیٹھا تھا۔ تھوڑی ہی دور سوئمنگ پول تھا۔ اس کے کم گہرے حصے میں بچے پانی میں چھپاکے مار رہے تھے۔
MOHALI:
ایک روز میں کلب میں بیٹھا تھا۔ تھوڑی ہی دور سوئمنگ پول تھا۔ اس کے کم گہرے حصے میں بچے پانی میں چھپاکے مار رہے تھے۔ دفعتاً دو تین بچے دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے اور بولے ''انکل! آپ سے ایک سوال پوچھیں؟ '' میں نے کہا ''ہاں پوچھو''۔ ایک نے پوچھا ''کیا آپ انڈر واٹر رو سکتے ہیں؟'' اس سوال کے جواب میں، میں ایک دم سٹپٹا سا گیا۔ مجھے سوچ میں مبتلا دیکھ کر وہ تالیاں بجاتے ہوئے واپس دوڑ گئے اور جا کے پانی میں چھلانگ لگا دی۔
اس روز تو مجھے جواب نہیں سوجھ رہا تھا لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد سے جس قسم کی بحث ہو رہی ہے اسے دیکھ کر میرے پاس اس سوال کا جواب آ گیا ہے۔ ہاں! میں زیر آب بھی رو سکتا ہوں۔ ہوا میں بھی رو سکتا ہوں۔ فضا میں بھی رو سکتا ہوں اور اندھیرے میں بھی، اجالے میں بھی بلکہ بجٹ کے بعد سے تو سبھی یہ کام کر رہے ہیں۔ جوں جوں بجٹ کے بھید کھلتے جائیں گے لوگ ساتھ آتے جائیں گے اور کارواں بنتا جائے گا۔ سب کی جیبیں کٹ چکی ہوں گی اور منزل نامعلوم۔ یہ ایک عجب قافلہ ہو گا۔
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
جانے یہ کیسا ہوم ورک تھا جو مسلم لیگ (ن) نے حکومت سنبھالنے سے پہلے کیا تھا کہ بجٹ کے ایک ہی وار سے ملکی آبادی کا ہر طبقہ چلا اٹھا تھا۔ ٹھیک ہے مشکل وقت میں حکومتوں کو مشکل فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن ایک نئے نام سے ویلتھ ٹیکس کا نفاذ کسی مشکل فیصلے کا نہیں بلکہ ایک شوق کا نتیجہ ہے۔ وزیر خزانہ کا شوق تھا، سو انھوں نے پورا کر لیا۔ اب وہ غریبوں کی امداد کے نام پر قدرے کم غریبوں سے بھی ٹیکس وصول کریں گے۔ گزشتہ کالم میں، میں نے اس کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ اس کے رد عمل کے طور پر جن لوگوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے میں نے انھیں پریشان ہی دیکھا ہے۔ بیشتر کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ واردات ہو چکی ہے۔ وہ ''دولت ٹیکس'' کو امیر لوگوں کے ماتھے کا جھومر سمجھتے تھے لیکن کسے معلوم تھا کہ امیروں کی تعداد یکایک اتنی بڑھ جائے گی اور دس لاکھ کے اثاثوں والا بھی اس اعزاز کا مستحق ٹھہرایا جائے گا۔
سید خورشید عالم لکھتے ہیں۔ ''آپ نے بہت اہم مسئلے پر قلم اٹھایا ہے۔ لوگ سیونگ اکاؤنٹ اور شیئرز میں کی گئی انوسٹمنٹ کے منافعے پر تو ٹیکس دیتے ہی ہیں لیکن اصل رقم پر لگایا جانے والا یہ نیا ٹیکس غالباً اس سے بھی بڑھ جائے گا۔ زکوٰۃ اس کے علاوہ ہے اور سکہ رائج الوقت کی جو رائج الوقت ڈی ویلیویشن ہے اس کو بھی شامل کر لیں تو ہر شب برات بزرگوں کے ساتھ ساتھ اثاثہ جات پر بھی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ ایسی صورت میں صائب مشورہ تو یہی ہے کہ سیونگ سینٹر اور شیئرز سے رقوم نکلوا کر سونا خرید لیں اور ہر مہینے تولہ آدھا تولہ نکال کر بقایا زندگی کی گاڑی جب تک چلتی ہے چلاتے رہیں۔ اس طرح سود لینے اور سود دینے کے گناہ سے بھی بچیں گے اور وائٹ کالر ڈاکوؤں سے بھی محفوظ رہیں گے۔''
تو جناب یہی ہو گا کہ "Income Support Levy Act 2013" کے تحت لگائے جانے والے ویلتھ ٹیکس کے نتیجے میں ڈاکومینٹڈ اکانومی والا خیال اب خواب بن کے رہ جائے گا اور لوگ پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ یہ رجحان پیدا ہو گا کہ بینکوں کی بجائے کیش گھر میں رکھا جائے اور دستاویزی انوسٹمنٹ کی بجائے سونا خریدا جائے۔ گویا دونوں صورتوں میں عوام کے لیے پریشانی ہی پریشانی۔ پہلی صورت میں حکومت کے مزے اور دوسری میں ڈاکوؤں کے۔
آئیے ایک اور پیغام ملاحظہ فرمائیں۔ ملتان سے سعید افضل نے لکھا ہے ''میں نے تمام عمر محنت کی ہے، اب آرام کرنا چاہتا ہوں لیکن افسوس کہ اس بجٹ نے واقعی میری جمع پونجی میں نقب لگا دی ہے۔ میں کرایے کے مکان میں رہتا ہوں اور برسوں سے ایک گھر خریدنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ اب شاید کبھی نہ خرید سکوں۔ پہلے اس کی وجہ افراط زر تھی اب یہ حکومت ہے۔ حج کا ارادہ بھی ہے اور بچوں کی شادیاں بھی سامنے ہیں۔ کچھ پیسہ میرے پاس ہے لیکن باقی اب پورا نہیں ہو گا کیونکہ حکومت کی نظر میں، میں ایک متمول شخص ہوں۔ میری ویلتھ بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے وہ میری عمر بھر کی بچتوں میں سے غریبوں کی مدد کے لیے حصہ مانگ رہی ہے۔ اب ایک دلچسپ بات۔ جب سے آپ کا کالم پڑھا ہے میں راتوں کو جاگتا رہتا ہوں۔ آج صبح میرا چھوٹا بیٹا میرے پاس آیا اور بولا ''بابا! آپ ساری رات جاگے ہیں، کہیں چوکیداری کر لیں، چار پیسے ہی ہاتھ آ جائیں گے۔''
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ منصفانہ ٹیکس وہی ہوتا ہے جو بالواسطہ نہیں بلکہ بلاواسطہ لگایا جائے اور آمدنی پر لگایا جائے نہ کہ اثاثوں پر۔ ایسا نہیں ہو گا تو انصاف نہیں ہو گا اور انصاف نہ کرنے والی حکومتوں کا حشر سبھی کو معلوم ہے۔ وہ بے انصافی نہیں کرتیں بلکہ خود کو تباہ کرنے والا خودکش حملہ کرتی ہیں۔ منفی عوامی ردعمل کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا اور یہ پتہ ہونا چاہیے کہ شیر تو رہا ایک طرف، ہاتھی کا وزن بھی نیلے رنگ کی وہیل کی زبان کے وزن سے کم ہوتا ہے اور وہیل سے یہ کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ پانی کے نیچے رو سکتی ہے یا نہیں؟
ایک روز میں کلب میں بیٹھا تھا۔ تھوڑی ہی دور سوئمنگ پول تھا۔ اس کے کم گہرے حصے میں بچے پانی میں چھپاکے مار رہے تھے۔ دفعتاً دو تین بچے دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے اور بولے ''انکل! آپ سے ایک سوال پوچھیں؟ '' میں نے کہا ''ہاں پوچھو''۔ ایک نے پوچھا ''کیا آپ انڈر واٹر رو سکتے ہیں؟'' اس سوال کے جواب میں، میں ایک دم سٹپٹا سا گیا۔ مجھے سوچ میں مبتلا دیکھ کر وہ تالیاں بجاتے ہوئے واپس دوڑ گئے اور جا کے پانی میں چھلانگ لگا دی۔
اس روز تو مجھے جواب نہیں سوجھ رہا تھا لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد سے جس قسم کی بحث ہو رہی ہے اسے دیکھ کر میرے پاس اس سوال کا جواب آ گیا ہے۔ ہاں! میں زیر آب بھی رو سکتا ہوں۔ ہوا میں بھی رو سکتا ہوں۔ فضا میں بھی رو سکتا ہوں اور اندھیرے میں بھی، اجالے میں بھی بلکہ بجٹ کے بعد سے تو سبھی یہ کام کر رہے ہیں۔ جوں جوں بجٹ کے بھید کھلتے جائیں گے لوگ ساتھ آتے جائیں گے اور کارواں بنتا جائے گا۔ سب کی جیبیں کٹ چکی ہوں گی اور منزل نامعلوم۔ یہ ایک عجب قافلہ ہو گا۔
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
جانے یہ کیسا ہوم ورک تھا جو مسلم لیگ (ن) نے حکومت سنبھالنے سے پہلے کیا تھا کہ بجٹ کے ایک ہی وار سے ملکی آبادی کا ہر طبقہ چلا اٹھا تھا۔ ٹھیک ہے مشکل وقت میں حکومتوں کو مشکل فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن ایک نئے نام سے ویلتھ ٹیکس کا نفاذ کسی مشکل فیصلے کا نہیں بلکہ ایک شوق کا نتیجہ ہے۔ وزیر خزانہ کا شوق تھا، سو انھوں نے پورا کر لیا۔ اب وہ غریبوں کی امداد کے نام پر قدرے کم غریبوں سے بھی ٹیکس وصول کریں گے۔ گزشتہ کالم میں، میں نے اس کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ اس کے رد عمل کے طور پر جن لوگوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے میں نے انھیں پریشان ہی دیکھا ہے۔ بیشتر کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ واردات ہو چکی ہے۔ وہ ''دولت ٹیکس'' کو امیر لوگوں کے ماتھے کا جھومر سمجھتے تھے لیکن کسے معلوم تھا کہ امیروں کی تعداد یکایک اتنی بڑھ جائے گی اور دس لاکھ کے اثاثوں والا بھی اس اعزاز کا مستحق ٹھہرایا جائے گا۔
سید خورشید عالم لکھتے ہیں۔ ''آپ نے بہت اہم مسئلے پر قلم اٹھایا ہے۔ لوگ سیونگ اکاؤنٹ اور شیئرز میں کی گئی انوسٹمنٹ کے منافعے پر تو ٹیکس دیتے ہی ہیں لیکن اصل رقم پر لگایا جانے والا یہ نیا ٹیکس غالباً اس سے بھی بڑھ جائے گا۔ زکوٰۃ اس کے علاوہ ہے اور سکہ رائج الوقت کی جو رائج الوقت ڈی ویلیویشن ہے اس کو بھی شامل کر لیں تو ہر شب برات بزرگوں کے ساتھ ساتھ اثاثہ جات پر بھی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ ایسی صورت میں صائب مشورہ تو یہی ہے کہ سیونگ سینٹر اور شیئرز سے رقوم نکلوا کر سونا خرید لیں اور ہر مہینے تولہ آدھا تولہ نکال کر بقایا زندگی کی گاڑی جب تک چلتی ہے چلاتے رہیں۔ اس طرح سود لینے اور سود دینے کے گناہ سے بھی بچیں گے اور وائٹ کالر ڈاکوؤں سے بھی محفوظ رہیں گے۔''
تو جناب یہی ہو گا کہ "Income Support Levy Act 2013" کے تحت لگائے جانے والے ویلتھ ٹیکس کے نتیجے میں ڈاکومینٹڈ اکانومی والا خیال اب خواب بن کے رہ جائے گا اور لوگ پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ یہ رجحان پیدا ہو گا کہ بینکوں کی بجائے کیش گھر میں رکھا جائے اور دستاویزی انوسٹمنٹ کی بجائے سونا خریدا جائے۔ گویا دونوں صورتوں میں عوام کے لیے پریشانی ہی پریشانی۔ پہلی صورت میں حکومت کے مزے اور دوسری میں ڈاکوؤں کے۔
آئیے ایک اور پیغام ملاحظہ فرمائیں۔ ملتان سے سعید افضل نے لکھا ہے ''میں نے تمام عمر محنت کی ہے، اب آرام کرنا چاہتا ہوں لیکن افسوس کہ اس بجٹ نے واقعی میری جمع پونجی میں نقب لگا دی ہے۔ میں کرایے کے مکان میں رہتا ہوں اور برسوں سے ایک گھر خریدنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ اب شاید کبھی نہ خرید سکوں۔ پہلے اس کی وجہ افراط زر تھی اب یہ حکومت ہے۔ حج کا ارادہ بھی ہے اور بچوں کی شادیاں بھی سامنے ہیں۔ کچھ پیسہ میرے پاس ہے لیکن باقی اب پورا نہیں ہو گا کیونکہ حکومت کی نظر میں، میں ایک متمول شخص ہوں۔ میری ویلتھ بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے وہ میری عمر بھر کی بچتوں میں سے غریبوں کی مدد کے لیے حصہ مانگ رہی ہے۔ اب ایک دلچسپ بات۔ جب سے آپ کا کالم پڑھا ہے میں راتوں کو جاگتا رہتا ہوں۔ آج صبح میرا چھوٹا بیٹا میرے پاس آیا اور بولا ''بابا! آپ ساری رات جاگے ہیں، کہیں چوکیداری کر لیں، چار پیسے ہی ہاتھ آ جائیں گے۔''
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ منصفانہ ٹیکس وہی ہوتا ہے جو بالواسطہ نہیں بلکہ بلاواسطہ لگایا جائے اور آمدنی پر لگایا جائے نہ کہ اثاثوں پر۔ ایسا نہیں ہو گا تو انصاف نہیں ہو گا اور انصاف نہ کرنے والی حکومتوں کا حشر سبھی کو معلوم ہے۔ وہ بے انصافی نہیں کرتیں بلکہ خود کو تباہ کرنے والا خودکش حملہ کرتی ہیں۔ منفی عوامی ردعمل کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا اور یہ پتہ ہونا چاہیے کہ شیر تو رہا ایک طرف، ہاتھی کا وزن بھی نیلے رنگ کی وہیل کی زبان کے وزن سے کم ہوتا ہے اور وہیل سے یہ کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ پانی کے نیچے رو سکتی ہے یا نہیں؟