خود احتسابی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں پہلا حصہ

پکے پاکستانیوں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے زیادہ تر رہنما بظاہر ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور حالیہ انتخابات میں ...


Babar Ayaz June 19, 2013
[email protected]

پکے پاکستانیوں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے زیادہ تر رہنما بظاہر ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور حالیہ انتخابات میں اپنی شکست کا الزام مقامی اور بین الاقوامی سازش پر عائد کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب سے ان کا صفایا ہو گیا۔ یہ لوگ جنوبی پنجاب سے جو دو نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے وہ مخدوم احمد محمود کی مرہون منت ہیں جو چند ماہ قبل پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کو چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہوئے تھے، جس کے صلے میں انھیں گورنر پنجاب کا اہم عہدہ دیا گیا۔

سازش کے بارے میں شور درحقیقت بالکل بے بنیاد نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے انتخابات سے پہلے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ اس بار طالبان نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تھا، جنھوں نے لبرل جماعتوں پر حملے کیے اور دائیں بازو کی اعتدال پسند جماعتوں کو پوری طاقت کے ساتھ انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی۔ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ کہنا جزوی طور پر درست ہے کہ اس کے خلاف سازش ہوئی تھی۔ مگر شکست کی تمام ذمے داری سازشی نظریے پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ پی پی پی کو اپنی اس شکست کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس سیاسی زوال کے اصل اسباب کو تلاش کرنا چاہیے۔ اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا اس کا بہترین طریقہ ہے۔

پیپلز پارٹی اس بار سندھ میں کم و بیش 2008ء کے انتخابات جیسی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ پی پی پی کے جو رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ پارٹی کو ایک بھیانک سازش کا نشانہ بنایا گیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ یہ 'خوفناک سازش' سندھ میں کیوں بے اثر رہی۔ وہ کھلے عام یہ اعتراف کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں کہ 2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں2013ء میں جیتنے والے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کے فرق کا تناسب کم رہا۔ پی پی پی کے قومی اسمبلی کے جیتنے والے امیدواروں کی فہرست پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام لوگ جو جیتنے میں کامیاب رہے وہ بڑے جاگیردار ہیں، ماسوائے ایاز سومرو، خورشید شاہ اور نعمان شیخ ۔

اب پی پی پی کے انتخابی اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالیے۔2008ء میں نڈر بے نظیر بھٹو کے قتل سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی مضبوط لہر کے باوجود پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت نہ مل سکی۔ اسے الیکشن میں ڈالے جانے والے کل35 ملین ووٹوں میں سے 10.66 ملین ووٹ ملے۔ اس طرح براہ راست انتخابات میں اسے91 نشستیں ملیں۔ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کو ملا کر اسے قومی اسمبلی میں125 نشستیں مل گئیں اور اس طرح وہ مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی۔ 2013ء کے الیکشن میں پی پی پی کو ڈالے جانے والے کل 46 ملین ووٹوں میں سے6.91 ملین ووٹ مل سکے۔ اس طرح2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار وہ 3.75 ملین ووٹ کھو بیٹھی۔ اس صورت حال نے قومی اسمبلی میں پی پی پی کی براہ راست الیکشن والی نشستوں کی تعداد91 سے کم کر کے صرف32 کر دی۔ اسے جو کل 6.91 ملین ووٹ ملے ان میں سے سندھ میں اس کے حصے میں46 فیصد اور پنجاب میں 35 فیصد ووٹ آئے۔

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کو، جسے 2008ء میں صرف6.8 ملین ووٹ ملے تھے2013ء کے الیکشن میں 14.87 ووٹ ملے، اس طرح اس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں8 ملین کا اضافہ ہوا جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ مگر مسلم لیگ (ن) کے76 فیصد سے زیادہ ووٹوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا نمبر آتا ہے جسے کل7.67 ملین ووٹ ملے۔ ان میں سے 64.54 فیصد ووٹوں کا تعلق پنجاب اور13 فیصد کا خیبر پختونخوا سے ہے۔ تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں0.776 ملین زیادہ ووٹ ملے مگر اسے قومی اسمبلی کی صرف 28 نشستیں مل سکیں۔

اگر ان اعداد و شمار کو مد نظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ انتخابات سے پہلے کی یہ عمومی پیش گوئی درست تھی کہ اگر لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے زیادہ تعداد میں گھروں سے نکلے تو پی پی پی اپنی پوزیشن کھو بیٹھے گی۔ اس بار انتخابات میں46 ملین ووٹ ڈالے گئے جو2008ء کے الیکشن میں ڈالے جانے والے ووٹوں سے 11ملین زیادہ تھے۔ پی پی پی کی انتخابی حکمت عملی بنانے والوں اور متعدد تجزیہ نگاروں (مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ میں بھی ان میں شامل تھا) کا خیال تھا کہ تحریک انصاف، نون لیگ کے ووٹ کاٹے گی۔ مگر لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹروں کی زیادہ تعداد کے گھروں سے نکلنے کا فائدہ پہنچا۔ پی پی ووٹروں کی اس زیادہ تعداد میں سے اپنا حصہ لینے میں ناکام رہی اور اپنے ووٹ بینک کا35 فیصد کھو بیٹھی۔2008ء کے الیکشن میں ووٹروں کی تعداد81 ملین تھی جو 2013 کے الیکشن میں بڑھ کر86 ملین ہو گئی۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں اس اضافے کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو پہنچا۔ اگر پیپلز پارٹی میں حکمت عملی تیار کرنے والے لوگ موجود ہیں تو 3 ملین سے زیادہ ووٹروں کا نقصان انھیں جھنجھوڑ کر ہوش میں لانے کے لیے کافی ہونا چاہیے اور انھیں سوچنا چاہیے کہ اس تباہی کے کیا عوامل ہیں؟

پیپلز پارٹی پر سابق حکمران جماعت کی حیثیت سے کافی بوجھ تھا اور وہ مشکل صورت حال کا شکار تھی۔ اسے آخری وقت تک یقین تھا کہ اس کے قائد آصف علی زرداری کوئی جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور اس سہ مکھی لڑائی سے وہ فتح یاب ہو کر نکلیں گے۔ بعض لوگوں نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ زرداری کے کاروباری حصے دار اور پراپرٹی بزنس کے بے تاج بادشاہ ملک ریاض نے اس امید پر عمران خان کی مدد کی کہ وہ نون لیگ کے ووٹ کو تقسیم کر دیں گے۔ پیپلز پارٹی نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ وہ خراب طرز حکمرانی اور بے لگام کرپشن کے پانچ سالہ ریکارڈ کے ساتھ انتخابی میدان میں داخل ہو رہی ہے۔ اور اسے بہت سے ایسے خارجی عوامل کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جو یا تو اسے ورثے میں ملے تھے یا اس کے کنٹرول سے باہر تھے ۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں