اعلیٰ حکام کی بے خبری
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے اعلیٰ افسران بشمول ادارے کے ترجمان یا پی آر او سے چھوٹی سی بلکہ معمولی سی...
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے اعلیٰ افسران بشمول ادارے کے ترجمان یا پی آر او سے چھوٹی سی بلکہ معمولی سی گزارش ہے کہ اگر نصف شب بیت چکی ہے اور وہ کسی ایسے فون کے قریب موجود ہیں جو اُن کے نام پر رجسٹرڈ نہیں یعنی کسی عام صارف کا فون ہے تو براہ کرم اِس ٹیلی فون سیٹ سے 118 کا نمبر ملائیں اور اگر وہ یہ نمبر ملا کر اپنے نمایندے سے شرف ہم کلامی حاصل کر لیں تو اپنے پی آر او کے توسط سے میرے اخبار ایکسپریس کے ذریعے اپنے صارفین کو ضرور مطلع فرمائیں۔
لیکن یہ بھی ضرور بتائیں کہ اُنہوں نے فون کا ریسیور دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اپنے نمایندے کی سُریلی اور میٹھی آواز سُنی یا پھر اُن کے بائیں کان نے کوئل کی یہ کُوک بہ زبانِ نمایندہ بذریعہ بایاں بازو، بدست ریسیور سماعت فرمائی اور اِس سے بھی زیادہ ضروری بات صارفین یہ جاننا چاہیں گے کہ اپنے نمایندے کی یہ نایاب آواز سُننے میں اُنہیں کتنے گھنٹے انتظار کی زحمت اُٹھانا پڑی؟ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کال کسی صارف کے پرائیوٹ نمبر سے کی جائے، ادارے یا افسران اعلیٰ کے نام سے رجسٹرڈ فون نمبر سے نہیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کال کرتے ہی فون نمبر، فون کے مالک کا نام و پتہ غرض تمام ڈیٹا اسکرین پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔
118 پر شکایات درج کروانے کے بے شمار فائدے ہیں۔ سب سے پہلا اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندے کی قوتِ برداشت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ شکایت کنندہ کو عملی طور پر یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کتابوں میں درج ''احساس بے بسی'' جیسی اصطلاح کا اصل مفہوم کتنا اذیتناک ہوتا ہے اور ''بے حسی'' کس چڑیا کا نام ہے؟ کیونکہ کم سے کم بیس مرتبہ تو لائن ملاتے ہی یہ ریکارڈ شدہ آواز آپ کے کانوں میں رس گھولتی ہے کہ ''معزز صارف اِس وقت تمام لائنیں مصروف ہیں براہ کرم کچھ دیر بعد نمبر ملائیں'' اور بیس ہی مرتبہ کم سے کم آپ کی سماعت سے انگیج ٹون کچھ اِس طرح ہم کلام ہوتی ہے کہ رات کو بستر پر جب صارف سونے کے لیے لیٹتا ہے تو بغیر فون کو ہاتھ لگائے یہی انگیج ٹون اُس کے کانوں میں بار بار گونجتی سُنائی دیتی ہے۔
صارف ہڑبڑا کر اُٹھتا ہے تو اُس کا فون گزوں کی دوری پر بالکل خاموش پڑا نظر آتا ہے۔ بیس بیس مرتبہ ( یہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے) یہ دونوں عمل دُہرانے کے بعد بھی بالخصوص نصف شب کے بعد اگر صارف ڈھٹائی پر اُتر آئے، ضد پکڑ لے کہ آج تو اِس معزز اور مقدس ادارے کے نمایندے سے بات کر کے اور شکایت درج کروا کر ہی سونا ہے تو پھر یہاں سے صارف کا ایک نیا امتحانی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ میں نے بے چارے صارف کو ڈھیٹ یا ضدی قرار دے کر شاید اِس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ دراصل وہ بے چارہ ''مجبور'' ہوتا ہے کیونکہ اُس کے پاس دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ بہرحال اب ریسیور سے ایک دوسرے قسم کی ریکارڈ شدہ آواز صارف کی قوتِ سماعت اور قوتِ برداشت کا امتحان لینا شروع کر دیتی ہے۔
ایک خاتون حیرت زدہ آواز میں پوچھتی ہیں ''کیا آپ اپنے بل کی تفصیلات اور بل کی ادائیگی کے لیے پریشان ہیں؟'' حالانکہ اُس وقت صارف کی واحد پریشانی یہ ہوتی ہے کہ اُسکی شکایت کسی طرح جلد از جلد درج ہو جائے اور اُسے کمپلینٹ نمبر مل جائے۔ لیکن ہنوز ''دلّی دور است'' خاتون کی ریکارڈڈ آواز بل جمع کرانے کا آسان طریقہ، بلکہ بل کی رقم معلوم کرنے کا آسان طریقہ بتانے پر تُلی نظر آتی ہیں۔ وہ صارف کو مطلع کرتی ہیں کہ بس فلاں نمبر کا بٹن دبائیں اور اپنے بل کی رقم معلوم کر لیں۔ پھر بڑا شاندار لطیفہ سُننے کو ملتا ہے۔
خاتون کی ریکارڈ شدہ آواز خوش خبری سُناتی ہے کہ ''اب کے ای ایس سی میں شکایت درج کروانا نہایت ہی آسان ہو چکا ہے۔ 118 ملا کر ہمارے خودکار نظام کے ذریعے زبان کا انتخاب کریں اور تین کا بٹن دبائیں''۔ نئے اور اناڑی صارفین خوشی خوشی تین کا بٹن دبا بیٹھتے ہیں۔ بٹن دباتے ہی ایک دوسری ریکارڈ آواز یہ ہدایت جاری کرتی ہے کہ اپنا 13 ہندسوں کا کنزیومر نمبر ملائیں۔ صارف فون کا ریسیور ٹیبل پر پٹخ کر اپنا بل ڈھونڈنے کے لیے دوڑ لگا دیتا ہے۔ اور 13 ہندسوں کا نمبر ڈائل یا پنچ کر دیتا ہے۔ اِس کے بعد آواز آتی ہے ''انتظار فرمائیں'' ۔
چند لمحوں کے توقف کے بعد وہی آواز پھر حکم دیتی ہے کہ '' اپنا 13 ہندسوں کا نمبر ملائیں''۔ پھر آواز آتی ہے کہ ''انتظار فرمائیں''۔ حالانکہ صارف پہلے ہی اِس کام کے سوا یعنی انتظار فرمانے اور خون کے گھونٹ پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد صارف کو مُژدہ سُنایا جاتا ہے کہ ''اُسکی کال ایجنٹ کو ملائی جا رہی ہے، انتظار فرمائیں''۔ اِس طرح صارف گھوم پھر کر اُسی مقام پر واپس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے روانہ ہوا تھا۔ یعنی دُنیا واقعی گول ہے۔
اب ریسیور سے پھر وہی آواز اُبھرتی ہے کہ ''اب آپ کو شکایت درج کروانے کے لیے ہمارے نمایندے کا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خود کار یا آٹومیٹک طریقے سے شکایت درج کروانے کے لیے فلاں نمبر کا بٹن دبائیں''۔ اور یہ خوش خبری سُن کر بے اختیار صارف کا دِل یہ چاہتا ہے کہ ٹیلی فون کا تار اپنے گلے میں لپیٹ کر، تاروں کے دونوں سرے اتنے زور سے کھینچے کہ اُسکی آنکھیں حلقوں سے اور سانس سینے سے باہر نکل آئے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اِس مرتبہ خاتون کی ریکارڈڈ آواز صارف کو اُس کا قومی فریضہ یاد دلا رہی ہوتی ہے اور وہ قومی فریضہ یہ ہوتا ہے کہ صارف فوراً اپنے گھر سے باہر نکل جائے اور پورے مُحلّے میں گھوم پھر کر یہ معلوم کرے کہ کس کس نے کُنڈا ڈالا ہوا ہے۔
کُنڈا ڈالنے والے کو کے ایس سی کے حکام کے ہاتھوں پکڑوانا اُس صارف کا قومی فریضہ ہے، جو پابندی سے بل ادا کرنے کے باوجود، بجلی تو بجلی، بجلی کی شکایت درج کرانے سے بھی محروم ہے۔ اس سارے عمل کا آخری نتیجہ شاید یہی نکلتا ہو گا کہ صارف ریسیور کریڈل پر پٹخ کر کم سے کم تین عدد کُنڈے تیار کرتا ہو گا ۔ تین عدد کُنڈوں کا فائدہ یہ ہے کہ صارف کے گھر چوبیس گھنٹے بجلی موجود رہتی ہے۔ کیونکہ تین عدد لائینوں میں سے کوئی نہ کوئی تو کنکشن یا کُنڈا ''زندہ'' رہتا ہی ہے۔ اور صارف کی بل کی ادائیگی سمیت ہر قسم کے ''برقی جھنجھٹ'' سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ وہ چین کی نیند سوتا ہے اور خواب میں اُن صارفین پر خوب ہنستا ہے، جو شکایت درج کروانے کے جان لیوا مراحل سے اِس وقت گزر رہے ہوں گے اور اپنی قوتِ برداشت کا امتحان خود لے رہے ہوں گے۔ لیکن جس بات پر صارف کے قہقہے نہیں تھمتے ہیں وہ یہ انکشاف ہے کہ اُس کا بل اب وہ صارفین ادا کریں گے، جن کے گھروں میں قانونی کنکشن اور میٹر موجود ہیں اور جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔
میرا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ جو میں نے تحریر کیا، حرف بہ حروف دُرست ہے۔ اگر 118 پر عملہ کم ہے یا شکایات کا انبار لگا رہتا ہے تو دونوں صورتوں میں ادارے کی کارکردگی واضح ہے اِس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ بتانا تو یاد ہی نہ رہا کہ 118 سے فارورڈ کی جانے والی شکایات دیکھ کر مینٹی ننس انچارج صاحب شاید کان پر سے مکھی اُڑا کر دوبارہ سو جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ملائیں 118۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ؟ اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا ؟