ہار یتیم ہوتی ہے

انگریزی کا مقولہ ’ہار یتیم ہوتی ہے اور جیت کے باپ بہت ہوتے ہیں‘‘ سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی...


عابد میر June 19, 2013
[email protected]

انگریزی کا مقولہ 'ہار یتیم ہوتی ہے اور جیت کے باپ بہت ہوتے ہیں'' سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی شکست پہ عین صادق آتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد حالیہ انتخابات میں نہایت شد و مد کے ساتھ حصہ لینے والی بی این پی بدترین شکست سے اس قدر بے حال ہے کہ اب تک اس کا تجزیہ کرنے میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔

بی این پی کی شکست میں، اُن کے بقول جہاں نادیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے، وہیں کچھ غلطیاں پارٹی سے بھی سرزد ہوئی ہیں، جن کا معروضی تجزیہ خود پارٹی کی ساکھ کی بحالی کے لیے بھی ضروری ہو گیا ہے۔ گو کہ اس وقت بی این پی کی شکست کا تذکرہ ہی شاید جلے کے زخموں پر نمک کے چھڑکنے کے مترادف ہو، لیکن سیاست میں ہار جیت حتمی نہیں ہوتی، بلکہ حکمت عملی ہی ہوتی ہے جو ہار کو جیت میں اور جیت کو شکست میں بدل سکتی ہے۔ اس لیے یہاں صرف اُن نکات کا مختصراً تذکرہ ہو گا، جو بلوچستان کی اس بڑی سیاسی جماعت کی شکست کا باعث بنے، اور جسے حکمت عملی سے آیندہ جیت میں بدلا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تجزیہ محض بی این پی کی انتخابی حکمت عملی سے متعلق ہے۔ اس کا مجموعی سیاسی اور طبقاتی کردار زیر بحث نہیں، جو ایک الگ دفتر کا متقاضی ہے۔

٭بی این پی کے پاس اگر کوئی میڈیا سیل موجود ہے، تو انھیں انتخابات سے چھ ماہ قبل کا میڈیا ریکارڈ نکال کر اس کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے۔ ملکی میڈیا نے اس دوران جس طرح اختر مینگل کو غیر معمولی کوریج دی، وہ مین اسٹریم میڈیا کے عمومی مزاج کے عین برعکس ہے۔ حالانکہ رئیسانی حکومت میں جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے ساڑھے چار سال بیرونِ ملک گزار دیے، اُن کی پارٹی عوامی مسائل پہ اخباری بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی، لیکن میڈیا میں ان کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھایا گیا، نہ ہی کوئی تنقیدی تجزیہ کیا گیا، بلکہ اس سارے عرصے میں انھیں حوصلہ افزا کوریج حاصل رہی۔ اب اگر اس غیر معمولی میڈیا کوریج کا تجزیہ کیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب انھیں انتخابی سیاسی دھارے میں لانے کا 'جال' تھا۔

کیونکہ اختر مینگل آخری لمحات تک انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق تحفظات کا شکار رہے۔ حقیقی طاقت ور قوتیں ان کے سخت گیر مؤقف کے باعث ان سے بات چیت کو تیار نہ تھیں۔ لیکن انھیں یہ بھی پتہ تھا کہ اختر مینگل کی جماعت کے انتخابی عمل سے باہر رہنے کے باعث بلوچستان میں انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا، اس لیے طاقت ور میڈیا کے توسط سے اختر مینگل کو ان کی قوت سے متعلق گمراہ کن پروپیگنڈہ کے ذریعے سیاسی دھارے میں واپس لایا گیا۔ بی این پی کو اس کا جائزہ اس نظر سے بھی لینا چاہیے کہ انتخابات سے قبل جو میڈیا انھیں بلوچستان کی واحد اور مضبوط عوامی قوت کے طور پر پیش کر رہا تھا، انتخابات کے بعد اسی میڈیا میں ان کے لیے کتنی جگہ باقی رہ گئی ہے؟ نیز اب اس میڈیا کا ان کے ساتھ رویہ کیا ہے!

٭اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر اختلافات کے باوجود بی این پی بلوچستان کی ایک اہم سیاسی قوت رہی ہے۔ لیکن اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سے لے کر اس جماعت کے غیرمستقل مؤقف کے باعث اسے شدید تنقید کا سامنا رہا اور رئیسانی حکومت کے دورانیے میں اس کی قوت نہایت کمزور ہوئی۔ شروع میں ان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنائے گئے سخت مؤقف کے باعث اختر مینگل کے آبائی علاقے میں ہی ان کے خلاف ایک مسلح قوت پیدا کر دی گئی، جس نے آزادی پسندوں سمیت بی این پی کے کارکنوں کے لیے بھی زمین تنگ کرنا شروع کر دی۔

بالخصوص کوئٹہ اور خضدار میں بی این پی کے کارکنوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ پارٹی کے انتہائی چست اور ہمہ وقت مصروف جنرل سیکریٹری حبیب جالب کو بھی قتل کر دیا گیا۔ ایک زمانے میں بی ایس او چیئرمین رہنے والے لوئر مڈل کلاس کے حبیب جالب ہی دراصل پارٹی کا عوامی چہرہ تھے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ ہو، یا مسخ شدہ لاشوں کا ایشو، کوئٹہ میں پانی کی قلت ہو یا دیگر عوامی مسائل، حبیب جالب اپنے چند درجن کارکنوں کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ضرور موجود ہوتے۔ اُن کے قتل کے بعد بی این پی اور اس کے کارکن حقیقی معنوں میں یتیم ہو گئے۔ مرکزی قیادت نے دبئی میں ڈیرہ ڈال لیا۔ کسی نے امریکا میں پناہ لے لی، کوئی ناروے پہنچ گیا، کسی نے لندن میں بسیرا کر لیا۔

بلوچستان میں رہ جانے والی برائے نام قیادت کی کارکردگی خبررساں اداروں کو فون پر پریس اسٹیٹمنٹ لکھوانے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ کوئٹہ کے صحافتی حلقوں میں یہ خبر بھی زبان زدِ عام رہی کہ اختر مینگل کی رہائی اس معاہدے کے تحت ہوئی تھی کہ وہ رئیسانی حکومت کے لیے کوئی دردِ سر پیدا نہیں کریں گے اور جب تک ان کی حکومت ہے وہ بلوچستان سے باہر رہیں گے۔ رئیسانی حکومت کے تمام تر دورانیے کے دوران اختر مینگل کا بغرضِ علاج بیرونِ ملک رہنا اس خبر کو تقویت پہنچاتا ہے۔ قطع نظر اس کے، اس سارے عرصے میں جب بی این پی کے کارکن زیر عتاب رہے، پارٹی قیادت کارکنوں اور عوام کے بیچ میں نہ تھی۔ حتیٰ کہ پاکستان میں انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد بھی پارٹی طے کر نہ پائی کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے یا نہیں۔

یہ اعلان عین آخری وقت پہ کیا گیا، جس سے ووٹر ذہنی طور تقسیم ہوا، اور پارٹی اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہوئی۔ ٭عمومی خیال یہی تھا کہ اگر اختر مینگل واپس آتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ظاہر ہے حقیقی طاقت ور قوتوں کے ساتھ کچھ معاملات طے کر کے آئے ہوں گے۔ اب جب کہ لگتا ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا تو یقینا اس صورت میں محض عوامی طاقت پہ بھروسہ کرنا سیاسی دانش مندی نہیں کہلائے گا، کہ اس سما ج میں ابھی فیصلے عوامی طاقت کی بنیاد پر ہونے کا مرحلہ نہیں آیا۔

حقیقی طاقت ور قوتوں کے ساتھ معاملات طے کیے بغیر نہ طاہر القادری لانگ مارچ کر سکتے ہیں، نہ عمران خان سترہ سال بعد اچانک تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ایک دم ایک صوبے میں حکومت کے مالک بن سکتے ہیں، نہ فوج کے لیے ناقابلِ قبول نواز شریف اقتدار کے سنگھاسن پہ واپس آ سکتے ہیں، نہ بلوچستان میں سات نشستوں کے ساتھ کوئی جماعت وزارتِ اعلیٰ لے سکتی ہے۔ اس لیے یہ مان لینا چاہیے کہ خود کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول بنائے بغیر طاقت کے ایوانوں تک رسائی، تمام تر عوامی طاقت کے باوجود خواب ہی رہے گی۔

٭اگر طاقت ور قوتوں کے ساتھ معاملات طے نہ تھے تو بی این پی کو کم از کم دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کی جانب فوراََ ہاتھ بڑھانا چاہیے تھا۔ یہ اسی میڈیا کا دیا ہوا غرور تھا یا اپنی طاقت کا غلط اندازہ کہ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اتحاد کے لیے بڑھائے جانے والے ہاتھ کو بھی جھٹک دیا گیا۔ اگر بی این پی کا یہ دعویٰ ہے کہ نتائج تبدیل کیے گئے، انتخابات شفاف نہیں ہوئے، تو انھوں نے ووٹرز کو سڑکوں پہ لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کسی ایک حلقے میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے عوامی جلسے کا انعقاد کیوں نہیں کیا گیا؟ وہ ہزاروں ووٹرز خود باہر کیوں نہ نکلے جن کے ووٹ پر شب خون مارا گیا؟...جب تک ایسی غلطیوں کی تصحیح نہیں کی جاتی، پارٹی کی حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان برقرار رہیں گے۔

بی این پی کو یہ بنیادی نقطہ طے کر لینا چاہیے کہ وہ ایک پارلیمانی جماعت ہے یا کیڈر ساز پارٹی (پاکستان کی لیفٹ کی اکثر پارٹیز کی طرح)، جس کا کام انقلاب کے لیے محض عوامی شعور بیدار کرنا اور مستقل کی قیادت تیار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ اس کے منشور کے مطابق اب تک وہ ایک پارلیمانی جماعت ہے، تو پارلیمانی سیاست میں حصہ لینا اور اس کا حصہ رہنا ان کی مجبوری ہے۔ اور ظاہر ہے اس میں کھیل میں حصہ، کھیل کے اصل 'ایمپائرز' کی مرضی و منشا سے ہی ملے گا۔ سو، ایک پارلیمانی جماعت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ پارلیمنٹ کا حصہ رہتے ہوئے، اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کیا جائے، اور سیاسی دانش و حکمتِ عملی سے اس ہار کو جیت میں بدلنے کی سعی کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں