موتچند استفسارات

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت حیات بعد الممات پر کالم کی اشاعت کے بعد جو ردِعمل سامنے آیا...


Shaikh Jabir June 19, 2013
[email protected]

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت

حیات بعد الممات پر کالم کی اشاعت کے بعد جو ردِعمل سامنے آیا، جو سوالات اور استفسارات اٹھائے گئے وہ محرک بن رہے ہیں اس موضوع پر مزید کچھ سوالات پیش کرنے کا اور کچھ سمجھنے کی کوشش کا۔ متذکرہ کالم میں ہم نے ریمنڈ مودی، اور ایبون الیگزینڈر کی بیسٹ سیلر کتابوں کے بارے میں بات کی تھی۔ مختلف افراد کو اور خود ایبون کو حاصل ہونے والے تجارب کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ اُن افراد کے تجارب بیان کیے گئے تھے جو مر کے جی اُٹھے۔ ایسے افراد کے لیے ایک اصطلاح بھی وضع کی گئی ہے۔ اس حال کو ''این ڈی ای'' نیر ڈیتھ ایکسپیرینس کہا جا تا ہے۔

ان واقعات پر عمدہ ترین تبصرہ صاحبِ نظر ماہرِ نفسیات محترم وقار حسن صاحب کا ہے۔ آپ گاہے بہ گاہے ہماری رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں۔ آپ نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ایبون سے لے کر دیگر تمام تجارب دیکھتے جائیں۔ مر کے جی اُٹھنے کے تمام واقعات ایک خاص رنگ لیے ہوئے ہیں اور وہ عیسائی رنگ ہے۔ آپ کا سوال ہے کہ اس طرح کے تجربے غیر مسیحی افراد، اقوام و ملل میں کیوں نظر نہیں آتے؟ اہم سوال ہے۔

آخر یہ تجربے بدھ مت والوں کو، ہندوؤں کو اور مسلمانوں کو کیوں نہ ہوئے؟ مودی اور ایبون کی بیسٹ سیلرز میں جو تجربے بیان ہوئے ہیں ان پر غور کرتے چلے جائیں وہ سب یقیناً ایک خاص عیسائی رنگ لیے ہوئے ہیں اور عیسائیوں کے بھی ایک خاص فرقے کا۔ مزید برآں یہ کہ یہ سب واقعات انسانی تاریخ میں اجنبی نظر آتے ہیں۔ یہ خاص واقعات حیرت انگیز طور پر ایک خاص زمانے، ایک خاص خطے، اور ایک خاص رنگ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کو کیوں پیش آ رہے ہیں؟

مرنے کے بعد کی زندگی کے مباحث تو بہت بعد کے ہیں، یہاں تو زندگی اور روح ہی کو سمجھنا دشوار ہے۔ زندگی یا حیات کیا ہے؟ حیات سے متعلق ایک شعبہ ہے، حیاتیات (بیالوجی بایوس بمعنی زندگی، لوگوس بمعنی بحث) سوال یہ ہے کہ کیا ہم حیاتیات میں زندگی سے متعلق کوئی بحث کرتے ہیں؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ حیاتیات میں زندگی کے مظاہر پر بات کی جاتی ہے نہ کہ زندگی پر۔ کیوں؟ زمین پر ایک خاص ڈی این اے کے تحت ایک خاص طرز کی حیات موجود ہے۔ کیا کسی اور ترتیب سے اسی زمین پر یا کہیں اور کسی اور طرز کی حیات ممکن نہیں؟ آج آسٹرو بایولوجی اور ایگزو بایولوجی کے تحت حیات کے دیگر مظاہر کی کھوج جاری ہے۔

کیا انسان اپنے موجودہ اور مروجہ سائنسی طریقوں سے ایک ایسی حیات اور ایک ایسی دنیا کھوج سکتا ہے جو قطعی دوسرے اصولوں پر رواں دواں ہو؟ جو آنکھ وائرس دیکھنے سے قاصر ہو کیا وہ زندگی کے دیگر مظاہر دیکھ سکتی ہے؟ کیا اس لیے کہ سائنس ابھی اس مقام پر نہیں کہ ان موضوعات کا احاطہ کر سکے؟ یا یہ موضوعات جدید سائنس کی وجہ تخلیق سے متصادم ہیں؟ کیا سائنسی طریقے سے، تجربات کے ذریعے یا ارسطو کے بتائے گئے استقراء، استخراج اور جدلیاتی تجزیے کے طریقوں سے زندگی، روح، موت یا موت کے بعد کی زندگی کو ثابت کیا جا سکتا ہے؟

کم و بیش ہر روایتی تہذیب میں موت کے بعد کی زندگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ کیا تنہا انسانی عقل اور جدید سائنس موت کے بعد کی زندگی کے تصور کا احاطہ کر سکتی ہے؟ کیا عقل اور سائنس ماوراء اور وراء الواراء کو پا سکتی ہے؟ کیا عقل سراسر معروضی ہے اور ہر شے سے وراء ہے؟ کیا عقل کی رسائی حقیقت تک ممکن ہے؟ کیا عقل جذبات سے کبھی مغلوب نہیں ہوتی، وہ جذبات کی لونڈی نہیں ہے؟ وہ ہمیشہ جذبات پر غالب رہتی ہے؟ لہٰذا وہ زندگی کی اصل اور اُس کی حقیقت تک بھی رسائی حاصل کر سکتی ہے؟

زندگی کیا ہے؟ یہ کہاں سے آتی ہے؟ کب آتی ہے؟ کب آتی ہے؟ کب شروع ہوئی؟ کیا زندگی کو موت کے بغیر کوئی معنی دیے جا سکتے ہیں؟ موت ''وجود'' کے لیے مستقل مگر ''مخفی حقیقی خطرہ'' ہے؟

ہر گھڑی موت کی زد میں ہیں
اس مقتل میں ہمیں کون لے آیا ہے

خطرے کا احساس خطرے کی تیاری کا عندیہ دیتا ہے۔ انجان اور نامعلوم کا خوف نہایت اہم ہے۔ لوگ اِس نامعلوم کو جاننا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک سروے کے مطابق سب سے زیادہ شایع ہونے والی کتاب (قرآن شریف کے بعد) ''موت کا منظر '' ہے۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ یہ خوف زندگی کا رُخ بدل سکتا ہے۔ سارتر، ہائیڈگر اور ٹالسٹائی وغیرہ نے بھی موت پر بہت لکھا ہے۔ لیکن افسانوں اور شاعری وغیرہ میں موت کے ذکر کے باوجود جدید مغربی طرزِ فکر اور طرزِ حیات میں موت کو یاد رکھنے اور اُس کی تیاری کرنے کا سِرے سے کوئی امکان ہی موجود نہیں ہے۔ موت کا خطرہ ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود ہے۔ خطرے کا احساس ہی خطرے کی تیاری پر کمر بستہ کرتا ہے۔ جو موت کو بھول گیا گویا اپنے وجود کو بھول گیا۔ موت کی یاد زندگی کی حقیقت کی توجیہہ اور جواز کے حصول کا نام ہے۔ یہ پا کر انسان ایک ایسی زندگی گزارتا ہے۔ جو بہترین موت کو ممکن بنا دے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ کے لیے کوئی نہیں مر سکتا۔ یہ وہ کام ہے جو آپ کو خود اپنے لیے انجام دینا ہے۔

کیا موت کا وقت معین ہے؟ ماہِ شعبان چل رہاہے؟ کیا شعبان میں موت و حیات کے فیصلے ہو جاتے ہیں؟ کیا کسی تدبیر سے موت کا وقت آگے بڑھ سکتا ہے؟ تدبیر کی حد کہاں تک ہے؟ تقدیر کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں؟ کیا انسانی ذہن اور جدید سائنس اِن حدود کا تعین کر سکتی ہے؟ ایک آدمی کو دل کا دورہ پڑا۔ ایمبولینس منگوائی گئی۔ ایمبولینس سائرن بجاتی ٹریفک جام میں پھنسی رہی، مریض سیٹ پر تڑپتا رہا۔ اسپتال پہنچے تو ڈاکٹر غائب تھا، ڈاکٹر آیا تو دوا غائب تھی۔ غرض محض ایک گھنٹے میں مریض مر گیا۔ رشتے داروں نے شدید احتجاج کیا۔ سہولیات کی عدم دستیابی کو موت کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ اسپتال میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ٹائر جلائے گئے۔ حکومت کے خلاف جلوس نکالا گیا۔ میڈیا میں بات آ گئی۔ حکومت کو، اسپتال کے عملے کو ڈاکٹر ز کو ادویات کی عدم دستیابی کو خوب لتاڑا جانے لگا۔ یورپ امریکا سے تقابل کیا جانے لگا۔ اُنھیں بہت اچھا اور ہمیں بہت بُرا قرار دیا جانے لگا۔

غلام ابنِ غلام۔ غلامانہ ذہنیت کی اسیر، نوجوان نسل کو ذہنی غلامی، احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی میں دھکیلنے لگے۔ کیا یورپ امریکا میں لوگ نہیں مرتے؟ کیا تمام تر سہولیات کے باوجود وہاں کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اسپتالوں ہی میں دم نہیں توڑتی؟ اسپتال والوں کی غفلت سے یورپ امریکا میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد حیران کُن حد تک بڑھ رہی ہے؟ ضدِ حیوی (اینٹی بائیوٹک) ادویات کے بے محابا استعمال کے بد نتائج علیحدہ وبال بنتے جا رہے ہیں۔ روایتی تہذیبوں میں بیماریوں کی وبا عام نہیں تھی۔ سترہویں صدی کے بعد جدیدیت، صنعت کاری اور مغربیت بیماریوں کے جنم کا باعث ہے۔ جدید طرزِ زندگی نے ہر فرد کو کم از کم دو بیماریوں کا اسیر تو کر ہی دیا ہے۔

نزلہ زکام، کھانسی، بلغم، سائنو سائٹس، بے خوابی، ڈپریشن، اینگزائٹی، بلڈپریشر، شوگر، امراض قلب، کینسر وغیرہ عام ہیں۔ تاریخ انسانی بیماروں سے پاگلوں سے، اسپتالوں، کلینکوں، ہوٹلوں، پاگل خانوں اور جیل خانوں سے بالکل خالی رہے ہیں۔ آج صرف امریکا میں یہ حال ہے کہ قیدیوں کے لیے جیل خانے تنگ پڑ رہے ہیں۔ تو کیا ایسے طرزِ زندگی کو اچھا کہا جا سکتا ہے، جو لوگوں کو بیمار بنا کر قرض دار بنا کر موت کے منہ میں چھوڑ دے؟ کیا فوکالٹ کی کتاب ''دی برتھ آف دی کلینک'' سے ہم کچھ سیکھ سکتے ہیں؟

''تذکرہ'' تھا سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ہلاک ہونے والے مریض کا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایمبولینس، ڈاکٹر اور دوا وقت پر مِل جاتی تب کیا مریض بچ سکتا تھا؟ کیا موت کا وقت معین نہیں ہوتا؟ اگر موت کا وقت معین اور متعین ہے تو علاج کیوں کروایا جاتا ہے؟ کیا موت کا وقت علاج یا تدبیر سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں