گولیوں کی اقسام
گولیوں کی ایک ایسی قسم بھی ہوتی ہے جس سے ہر انسان کا بچپن میں واسطہ پڑتا ہے۔
گولیوں کی دو اقسام ہیں ۔ ایک وہ جو لیبارٹیز میں مریضوں کوکھلانے کے لیے تیارکی جاتی ہیں اور ایک وہ جوفرقہ وارانہ فسادات، جعلی پولیس مقابلوں یا عوامی مظاہروں کے دوران استعمال ہوتی ہیں ۔ دوسری قسم کی گولیاں کھلاتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کھانے والا بیمار ہے یا نہیں۔ سر راہ چلتے ہوئے،کار اور بس میں سفر کے دوران ، رات کو بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں بیٹھے ہوئے، سیاسی جلسوں میں تقریرکرتے ہوئے، مسجد میں عبادت کے دوران یا کسی بزرگ کے مقبرے پر دھمال ڈالتے ہوئے بھی یہ گولیاں جسم میں داخل ہوسکتی ہیں۔
ایسی گولیوں کے اثرات سے کراچی کی سیاسی و لسانی تاریخ اورقبائلی علاقے کا جغرافیہ بھرا ہوا ہے۔گولیوں کی ان دو مشہور اقسام کے علاوہ کچھ ایسی گولیاں بھی ہوتی ہیں جو علامتی طور پردی جاتی ہیں یا محاورتاً استعمال ہوتی ہیں ۔ان گولیوں سے ایسے سیاست دانوں کی زبان ہمیشہ بھری رہتی ہے جو الیکشن کے دنوں میںعوام کے پاس ووٹ لینے کے لیے جاتے ہیں اور انھیں بغیر پانی کے مسلسل کھلائے چلے جاتے ہیں لیکن انتخاب جیتنے اور وزارت ملنے کے بعد جب سادہ دل ووٹروں پر ان گولیوں کی حقیقت کھلتی ہے تو وہ جیتنے والوں کے بارے میں یہ ضرورکہتے ہیں '' کرتا ورتا کچھ نہیں بس گولیاں دینے میں ماہر ہے''
مصیبت یہ ہے کہ ستر سے زیادہ سال گزرنے کے باوجود ہم ایسی ایک گولی بھی نہ بناسکے جو غربت جیسی موذی مرض سے نجات دلاتی یا اپنی زبان ،کلچر اور علاقے پر فخرکرنے کی عادت ڈالتی ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس دوران اگر کوئی دانا حکیم خدمت خلق کا جذبہ لیے سامنے آیا تو ہم نے اس کا مطب لوٹ کر وہ سارے نسخے جلا ڈالے جن میںایسی منفرد گولیاں بنانے کی ترکیب درج ہونے کا ذرا سا بھی شک ہوا ۔ حکیم سعید کی مثال سب کے سامنے ہے جنہوں نے بیمار ہم وطنوں کی صحت و تندرستی کے لیے بہت ہی زود اثر اور ارزاں گولیاں بنائیں مگر انھیں گولی کی دوسری قسم دے کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ۔
وعدوں اور دعوئوں کی گولیاں بھی کافی مشہور ہیں جومغربی ممالک میں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، لیکن وہاں کی حکومتیں یہ گولیاں اپنے عوام کو دینے کے بجائے تیسری دنیا کے ایسے مریضوں کو دیتی ہیں جنھیں اپنے ملک کا سربراہ بننے کا شوق ہو ۔ مغربی ممالک اور امریکا میں تیار ہونے والی یہ گولیاں آج کل شام ، یمن ، فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے کچھ دیگر ممالک کے ساتھ افغانستان کے عوام کو بلا ناغہ دی جا رہی ہیں ۔ ماضی میں لیبیا کے صدر قذافی اور عراق کے صدر صدام کا علاج بھی ان ہی گولیوں سے کیا گیا تھا، مگر مرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیمار ہی نہیں تھے۔
گولیوں کی بات چلی تو ہمیں اپنے صدر مملکت یاد آگئے جو صدر بننے سے پہلے پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں اور ملک کے دوسرے ڈاکٹروں کی طرح عوام کی ''خدمت'' کا درد ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان کا تعلق دندان سازی کے شعبے سے ہے مگر اتنے اچھے مقرر ہیں کہ تقریرکرتے وقت مخالفین کی دندان شکنی سے بھی گریز نہیںکرتے۔اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں ایک جماعت کی طلباء تنظیم کے سرگرم کارکن رہ چکے ہیں ۔ ان کا جذبہ اس وقت دیدنی تھا جب چند سال قبل اپنے پرجوش خطاب سے انھوں نے کراچی کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کراس شہر کے سیاسی ماحول کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔اس سے قبل اس شہر میں سیاسی یا غیر سیاسی جلسہ جلوس توکیا پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے مقامی رہنمائوں کے ساتھ مل کر تین تلوار والے چوک کو بھی شہرت بخشی تھی جس کے سائے میں شروع ہونے والی سیاسی تبدیلی پوری کراچی تک پھیل گئی تھی۔ صدر پاکستان مستقبل میں عوام کو دانتوں کی گولیاں تو شاید نہ دے سکیں، ہاں پچھلی حکومتوں کے ادھورے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور دہشتگردی سے تباہ حال شہریوں کو اپنے خطاب کے ذریعے امن و امان کی تسلیاںضرور دیتے رہیں گے اس لیے کہ پارلیمانی نظام میں صدر مملکت اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ اس عہدے کی بے بسی ، شرافت ، سنجیدگی اور خاموشی کی کئی مثالیں فضل الٰہی چوہدری سے لے کر صدر ممنون حسین تک پھیلی ہوئی ہیں جن میں اب مزید اضافہ ہو گا۔
اس کے باوجود اگرکسی سر پھرے نے ان سے بندوق اور پستول کی گولیوں کا ذکرکیا تو وہ یہ کہہ کر اسے لاجواب کرسکتے ہیں کہ بھیا ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے دورکوچھوڑیے ہم نے تو ایوب خان کے دور میں دی جانے والی گولیاں اپنے جسم میں اب تک سنبھال رکھی ہیں ۔ بقول مجروح سلطان پوری:
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو گریباں تم سے زیادہ
دیسی اور ولایتی گولیوں کی بات چلے تو ان گولیوں کوکون بھول پائے گا جو ماضی میں علاقہ غیر یعنی فاٹا سے ملتی تھیں ۔اس علاقے میںگولیوں کی ایک اور قسم بھی کثرت سے دستیاب تھی جسے''افیون'' کی گولیاں کہا جاتا تھا، لیکن امریکا نے روس کو ملحد اور خود کو نیک و پارسا ثابت کرنے اور اس علاقے کو ''سرخوں'' کے شر سے پاک کرنے کے لیے جب افغانستان میں ایک بڑی جنگ کا آغاز کیا تو پستول کی چھوٹی چھوٹی گولیوں کے بجائے کلاشنکوف کی لمبی گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں نے فضا کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کسانوں نے اپنے کندھوں پر ہل کے بجائے راکٹ لانچر سجالیے جو اس علاقے کی ثقافت میں تبدیل ہوگئے ۔بعد میں لنگڑے لولے مزاحمت کاروں اورکٹے پٹے جسموں کو درد سے چھٹکارہ دینے کے لیے دنیا بھر کے طبی ادارے بھی اپنی اپنی گولیاں بیچنے کے لیے یہاں آ پہنچے ۔
گولیوں کی ایک ایسی قسم بھی ہوتی ہے جس سے ہر انسان کا بچپن میں واسطہ پڑتا ہے۔ یہ کانچ سے بنتی ہیں، مگر ابتدائی زمانے میں پتھر اور مٹی سے بھی تیار ہوتی تھیں ۔ جب بچے اپنے بزرگوں سے کوئی چالاکی کریں تو وہ اس کے جواب میں کہتے ہیں'' میں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں'' جس سے شاید یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ میری عمر اتنی نہیں جتنی تم سمجھ رہے ہو، لیکن موجودہ زمانے میں کئی بزرگ بعض '' کرشماتی '' گولیوں کے سہارے ستر اسی کے ہوتے ہوئے بھی چالیس پچاس کے دکھائی دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں بعض دفعہ کچھ ایسے مشکل مقامات بھی آتے ہیں کہ سر راہ منہ پر چڑھا جوانی کا خول کھسک جاتا ہے۔
جب سے پستول اور بندوق کی گولیوں نے رواج پایا، بچوں نے کانچ کی گولیوں سے منہ موڑ کر ایسی گولیوں کا شوق اپنا لیا جو ماضی میں امریکا نے کنٹینر بھر بھرکر ہمارے ملک میں بھیجی تھیں ۔ ان میں سے کئی بچے بھی غائب ہوگئے اورکچھ کنٹینر بھی اندھیری گلیوں میں کھوگئے مگر ان سے ملنے والی گولیوں سے کراچی کے شہریوں کا علاج اب تک جاری ہے ۔
ایسی گولیوں کے اثرات سے کراچی کی سیاسی و لسانی تاریخ اورقبائلی علاقے کا جغرافیہ بھرا ہوا ہے۔گولیوں کی ان دو مشہور اقسام کے علاوہ کچھ ایسی گولیاں بھی ہوتی ہیں جو علامتی طور پردی جاتی ہیں یا محاورتاً استعمال ہوتی ہیں ۔ان گولیوں سے ایسے سیاست دانوں کی زبان ہمیشہ بھری رہتی ہے جو الیکشن کے دنوں میںعوام کے پاس ووٹ لینے کے لیے جاتے ہیں اور انھیں بغیر پانی کے مسلسل کھلائے چلے جاتے ہیں لیکن انتخاب جیتنے اور وزارت ملنے کے بعد جب سادہ دل ووٹروں پر ان گولیوں کی حقیقت کھلتی ہے تو وہ جیتنے والوں کے بارے میں یہ ضرورکہتے ہیں '' کرتا ورتا کچھ نہیں بس گولیاں دینے میں ماہر ہے''
مصیبت یہ ہے کہ ستر سے زیادہ سال گزرنے کے باوجود ہم ایسی ایک گولی بھی نہ بناسکے جو غربت جیسی موذی مرض سے نجات دلاتی یا اپنی زبان ،کلچر اور علاقے پر فخرکرنے کی عادت ڈالتی ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس دوران اگر کوئی دانا حکیم خدمت خلق کا جذبہ لیے سامنے آیا تو ہم نے اس کا مطب لوٹ کر وہ سارے نسخے جلا ڈالے جن میںایسی منفرد گولیاں بنانے کی ترکیب درج ہونے کا ذرا سا بھی شک ہوا ۔ حکیم سعید کی مثال سب کے سامنے ہے جنہوں نے بیمار ہم وطنوں کی صحت و تندرستی کے لیے بہت ہی زود اثر اور ارزاں گولیاں بنائیں مگر انھیں گولی کی دوسری قسم دے کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ۔
وعدوں اور دعوئوں کی گولیاں بھی کافی مشہور ہیں جومغربی ممالک میں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، لیکن وہاں کی حکومتیں یہ گولیاں اپنے عوام کو دینے کے بجائے تیسری دنیا کے ایسے مریضوں کو دیتی ہیں جنھیں اپنے ملک کا سربراہ بننے کا شوق ہو ۔ مغربی ممالک اور امریکا میں تیار ہونے والی یہ گولیاں آج کل شام ، یمن ، فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے کچھ دیگر ممالک کے ساتھ افغانستان کے عوام کو بلا ناغہ دی جا رہی ہیں ۔ ماضی میں لیبیا کے صدر قذافی اور عراق کے صدر صدام کا علاج بھی ان ہی گولیوں سے کیا گیا تھا، مگر مرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیمار ہی نہیں تھے۔
گولیوں کی بات چلی تو ہمیں اپنے صدر مملکت یاد آگئے جو صدر بننے سے پہلے پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں اور ملک کے دوسرے ڈاکٹروں کی طرح عوام کی ''خدمت'' کا درد ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان کا تعلق دندان سازی کے شعبے سے ہے مگر اتنے اچھے مقرر ہیں کہ تقریرکرتے وقت مخالفین کی دندان شکنی سے بھی گریز نہیںکرتے۔اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں ایک جماعت کی طلباء تنظیم کے سرگرم کارکن رہ چکے ہیں ۔ ان کا جذبہ اس وقت دیدنی تھا جب چند سال قبل اپنے پرجوش خطاب سے انھوں نے کراچی کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کراس شہر کے سیاسی ماحول کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔اس سے قبل اس شہر میں سیاسی یا غیر سیاسی جلسہ جلوس توکیا پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے مقامی رہنمائوں کے ساتھ مل کر تین تلوار والے چوک کو بھی شہرت بخشی تھی جس کے سائے میں شروع ہونے والی سیاسی تبدیلی پوری کراچی تک پھیل گئی تھی۔ صدر پاکستان مستقبل میں عوام کو دانتوں کی گولیاں تو شاید نہ دے سکیں، ہاں پچھلی حکومتوں کے ادھورے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور دہشتگردی سے تباہ حال شہریوں کو اپنے خطاب کے ذریعے امن و امان کی تسلیاںضرور دیتے رہیں گے اس لیے کہ پارلیمانی نظام میں صدر مملکت اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ اس عہدے کی بے بسی ، شرافت ، سنجیدگی اور خاموشی کی کئی مثالیں فضل الٰہی چوہدری سے لے کر صدر ممنون حسین تک پھیلی ہوئی ہیں جن میں اب مزید اضافہ ہو گا۔
اس کے باوجود اگرکسی سر پھرے نے ان سے بندوق اور پستول کی گولیوں کا ذکرکیا تو وہ یہ کہہ کر اسے لاجواب کرسکتے ہیں کہ بھیا ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے دورکوچھوڑیے ہم نے تو ایوب خان کے دور میں دی جانے والی گولیاں اپنے جسم میں اب تک سنبھال رکھی ہیں ۔ بقول مجروح سلطان پوری:
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو گریباں تم سے زیادہ
دیسی اور ولایتی گولیوں کی بات چلے تو ان گولیوں کوکون بھول پائے گا جو ماضی میں علاقہ غیر یعنی فاٹا سے ملتی تھیں ۔اس علاقے میںگولیوں کی ایک اور قسم بھی کثرت سے دستیاب تھی جسے''افیون'' کی گولیاں کہا جاتا تھا، لیکن امریکا نے روس کو ملحد اور خود کو نیک و پارسا ثابت کرنے اور اس علاقے کو ''سرخوں'' کے شر سے پاک کرنے کے لیے جب افغانستان میں ایک بڑی جنگ کا آغاز کیا تو پستول کی چھوٹی چھوٹی گولیوں کے بجائے کلاشنکوف کی لمبی گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں نے فضا کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کسانوں نے اپنے کندھوں پر ہل کے بجائے راکٹ لانچر سجالیے جو اس علاقے کی ثقافت میں تبدیل ہوگئے ۔بعد میں لنگڑے لولے مزاحمت کاروں اورکٹے پٹے جسموں کو درد سے چھٹکارہ دینے کے لیے دنیا بھر کے طبی ادارے بھی اپنی اپنی گولیاں بیچنے کے لیے یہاں آ پہنچے ۔
گولیوں کی ایک ایسی قسم بھی ہوتی ہے جس سے ہر انسان کا بچپن میں واسطہ پڑتا ہے۔ یہ کانچ سے بنتی ہیں، مگر ابتدائی زمانے میں پتھر اور مٹی سے بھی تیار ہوتی تھیں ۔ جب بچے اپنے بزرگوں سے کوئی چالاکی کریں تو وہ اس کے جواب میں کہتے ہیں'' میں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں'' جس سے شاید یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ میری عمر اتنی نہیں جتنی تم سمجھ رہے ہو، لیکن موجودہ زمانے میں کئی بزرگ بعض '' کرشماتی '' گولیوں کے سہارے ستر اسی کے ہوتے ہوئے بھی چالیس پچاس کے دکھائی دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں بعض دفعہ کچھ ایسے مشکل مقامات بھی آتے ہیں کہ سر راہ منہ پر چڑھا جوانی کا خول کھسک جاتا ہے۔
جب سے پستول اور بندوق کی گولیوں نے رواج پایا، بچوں نے کانچ کی گولیوں سے منہ موڑ کر ایسی گولیوں کا شوق اپنا لیا جو ماضی میں امریکا نے کنٹینر بھر بھرکر ہمارے ملک میں بھیجی تھیں ۔ ان میں سے کئی بچے بھی غائب ہوگئے اورکچھ کنٹینر بھی اندھیری گلیوں میں کھوگئے مگر ان سے ملنے والی گولیوں سے کراچی کے شہریوں کا علاج اب تک جاری ہے ۔