اسرائیل میلے میں بچھڑنے کو تیار نہیں
عقل حیران ہے کہ جو خود کو بھی بے مقصد یاد نہ کرتے ہوں، ان کو بیس سال بعد اچانک عمان کی یاد کیسے ستا گئی؟
مشرقِ وسطی کی شیعہ اور سنی ریاستوں کے درمیان عمان وہ واحد سلطنت ہے جہاں بسنے والوں کی اکثریت کا تعلق اباضی فرقے سے ہے۔ یہ مسلک تاریخی طور پر امت مسلمہ کے سخت گیر ترین گروہ خوارج سے نکلا ہے، تاہم وہ اپنا ناتا خارجیوں سے جوڑنا پسند نہیں کرتے۔
اباضی فرقہ عبداللہ بن عباس تمیمی سے منسوب کیا جاتا ہے، جن کا فلسفہ عدم تشدد اور رواداری کا تھا ۔ ان کے پیروکار اباضی دوسری صدی ہجری میں شمالی افریقا کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس وقت زیادہ تر اباضی الجزائر، تیونس، لیبیا اور عمان میں آباد ہیں ۔ عمان اس وقت بھی اباضی فرقے کی تمام فکری اور عملی سرگرمیوں کا مرکز مانا جاتا ہے ۔
اپنے فرقے کے فلسفہ عدم تشدد اور برداشت کی تعلیمات پر عمل پیرا عمان کا شمار ان تین ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے 1979ء کے اسرائیل امن معاہدے کے بعد بھی مصر سے تعلقات منقطع نہیں کیے اورکیمپ ڈیوڈ معاہدے کی مکمل حمایت جاری رکھی ۔ یہ عمان کے اعتدال پسند رویے کا ہی نتیجہ ہے کہ خطے میں موجود بڑی طاقتوں بشمول اسرائیل، سعودی عرب اور ایران نے کبھی اس کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھا ، البتہ امریکا اس کی ایران دوستی پر سخت نالاں رہتا ہے ۔
2017ء میں ریاض میں ہونے والے عرب امریکا مذاکرات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب ممالک کے تمام نمایندوں سے ملاقات کی سوائے عمان کے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمان کے ملٹری ٹریننگ بجٹ کو دو ملین ڈالر سے گھٹا کر صرف پانچ لاکھ ڈالر تک محدود کردیا۔
امریکا کے مخاصمانہ رویے کے باوجود عمان کو مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کی ایک اہم سیڑھی سمجھا جاتا ہے ، کیونکہ اس کا کردار خطے میں ہمیشہ غیر جانبدارانہ رہا ہے، حوثی باغیوںکی قید سے فرانسسی اور امریکی شہریوں کوکئی بار رہا کروایا تو عراق سے ایران کی سرحد غلطی سے پارکرنے والے امریکیوں کو بھی ایران کی قید سے رہا کروانے میں عمان نے اہم کردار ادا کیا ۔
عرب ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے اسرائیل سے اپنے تعلقات پر ہمیشہ پردہ ڈالے رکھا ۔ اس روایت کو توڑتے ہوئے عمان کی حکومت نے اسرائیلی وزیراعظم کے دورۂ عمان کی ایک ایک تفصیل میڈیا کو جاری کر دی ، یوں یہ خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، ملاجلا ردِعمل سامنے آیا۔ کہیں اس دورے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا، کہیں سے آواز آئی کہ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ دورہ کرکے مسلم دنیا کو منقسم کرنے کی سازش کی ہے توکہیں عمان کے بارے میں یہ رائے دی گئی کہ اس نے نیتن یاہوکا استقبال کرکے مسلمانوں کی پشت میں چھرا گھونپا ہے۔
بہرحال اس دورے کے بعد عمان نے اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کا حصہ بلاجھجک تسلیم کرلیا ہے۔ عمان کے امور خارجہ کے وزیرکا کہنا ہے کہ خطے سے تنازعات کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے اسرائیل سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں ، یوں اسرائیل کے معاملے پر مسلم ممالک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوچکے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ صرف عمان کو ہی اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا ذمے دارکیوں قرار دیا جا رہا ہے، اگر عمانی میڈیا نے نیتن یاہوکے دورے کو ایک پُرمسرت موقعے کے طور پر پیش کیا تو قطرکی بات کیوں نہ کی جائے کہ دوحہ میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا ۔
متحدہ عرب امارات کا ذکر کیوں نہ ہو جہاں کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیلی ایتھلیٹ بھی شریک ہوئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات نے تو خطے میں موجود تنازعات کا مکمل ذمے دار اسرائیل کے بجائے صرف ایران کو قرار دے دیا ہے۔ اسرائیل نوازی کے الزامات کی انگلیاں صرف عمان پر اٹھانا آخرکہاں کا انصاف ہے؟ اگر اسرائیل کے لیے کوئی نرم گوشہ مشرقِ وسطیٰ میں بن رہا ہے تو اس کا عمان کی طرح باقی سب اعتراف کیوں نہیں کرتے۔ مسلم ممالک کی منافقانہ پالیسیوں سے عالمِ اسلام کب تک نقصان اٹھاتا رہے گا؟
اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ دورے کے خلاف الجزیرہ کی ایک خاتون رپورٹر نے فرمایا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے کسی بھی تعلق کو رد کرتی ہیں ۔ ان کے اس بیان کے بعد ٹوئٹر پر صرف ایک ہی سوال کی بوچھاڑ ہوئی کہ اگر یہی بات ہے تو پھر دوحہ میں کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیلی ایتھلیٹس کو اسرائیل کے قومی جھنڈے کے ساتھ شرکت کیوں کرنے دی گئی ۔ اس وقت کیوں نہ کہا گیا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کا کوئی بھی تعلق رد کر دینا چاہیے۔ اسرائیل نوازی مشرقِ وسطیٰ کی کسی ریاست کے لیے حلال توکسی کے لیے حرام کیوں بنا دی گئی ؟
ایران اور فلسطین میں یہ دورہ الگ کھلبلی مچا رہا ہے۔ نیتن یاہوکے دورے سے کچھ روز قبل فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے عمان کا دورہ کیا تھا ۔ لہٰذا یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ عمان ، اسرائیل اور فلسطین تنازعے کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی تاریخ کے بعد اس بات کوکیسے تسلیم کرلیا جائے کہ اسرائیل اس معاملے کے حل کے لیے اس قدر بے چین ہے کہ عمان کو ثالث تک بنانے پر تیار ہے۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں عمان نے ہمیشہ مثبت کردار نبھایا ہے، جس کو دیکھتے ہوئے محمود عباس کے حالیہ دورۂ عمان کا مقصد تو فلسطین تنازعے پر عمان کی حمایت کا حصول ہو سکتا ہے لیکن مان لیجیے کہ نیتن یاہو ایسی کوئی سوچ دور دور تک نہیں رکھتے۔
یہ صرف میری غلط فہمی نہیں بلکہ اسرائیل کے ایک مایہ ناز تجزیہ نگار ایہود یاری بھی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ '' فلسطین کے معاملے پر اسرائیل کسی کو ثالث بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا'' انھوں نے ایک ایسی بات بھی کی جس نے سب کے کان کھڑے کردیے، اسرائیلی تجزیہ نگار فرماتے ہیں کہ'' عمان اسرائیل کے لیے تہران تک پہنچنے کا ایک اہم راستہ ہے'' اس بیان کو محض ایک تجزیہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسرائیل اور عمان کے نئے تعلقات کو اس پہلو سے ضرور جانچنا چاہیے۔
ایران ، عمان کے مشرق میں واقع ہے۔ سلطان قابوس نے یوں تو آج تک اپنی حدود میں کسی غیرکی مداخلت کی نوبت ہی نہ آنے دی لیکن وقتِ بے رحم کو پلٹنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ اسرائیل اس وقت ایران کے شام میں بڑھتے ہوئے قدموں سے سخت خائف ہے۔ اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ مستقبل میں ایران یہاں مضبوطی پکڑکر مستقل بسیرا کر لے گا، جو اسرائیل کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل نے شام میں ایرانی تنصیبات پر پے درپے حملے کیے ، خوب بمباری کی اور اس کو بے حد نقصان پہنچایا لیکن وہ ایران کے قدموں کو پیچھے نہ ہٹا سکا ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ یہ دورہ ایران کے خلاف بننے جانے والے اسرائیلی اور امریکی جال کا تانا بانا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ عقل حیران ہے کہ جو خود کو بھی بے مقصد یاد نہ کرتے ہوں، ان کو بیس سال بعد اچانک عمان کی یاد کیسے ستا گئی؟ یہ عمان کی یاد ہے یا اسرائیل کا دن نکلنے والا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ سچ ہے کہ ایسے ہی بھولی بسری یادوں کا دامن تھامے رہا تو اسرائیل دنیا کے میلے میں کبھی بچھڑے گا نہیں ۔
اباضی فرقہ عبداللہ بن عباس تمیمی سے منسوب کیا جاتا ہے، جن کا فلسفہ عدم تشدد اور رواداری کا تھا ۔ ان کے پیروکار اباضی دوسری صدی ہجری میں شمالی افریقا کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس وقت زیادہ تر اباضی الجزائر، تیونس، لیبیا اور عمان میں آباد ہیں ۔ عمان اس وقت بھی اباضی فرقے کی تمام فکری اور عملی سرگرمیوں کا مرکز مانا جاتا ہے ۔
اپنے فرقے کے فلسفہ عدم تشدد اور برداشت کی تعلیمات پر عمل پیرا عمان کا شمار ان تین ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے 1979ء کے اسرائیل امن معاہدے کے بعد بھی مصر سے تعلقات منقطع نہیں کیے اورکیمپ ڈیوڈ معاہدے کی مکمل حمایت جاری رکھی ۔ یہ عمان کے اعتدال پسند رویے کا ہی نتیجہ ہے کہ خطے میں موجود بڑی طاقتوں بشمول اسرائیل، سعودی عرب اور ایران نے کبھی اس کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھا ، البتہ امریکا اس کی ایران دوستی پر سخت نالاں رہتا ہے ۔
2017ء میں ریاض میں ہونے والے عرب امریکا مذاکرات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب ممالک کے تمام نمایندوں سے ملاقات کی سوائے عمان کے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمان کے ملٹری ٹریننگ بجٹ کو دو ملین ڈالر سے گھٹا کر صرف پانچ لاکھ ڈالر تک محدود کردیا۔
امریکا کے مخاصمانہ رویے کے باوجود عمان کو مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کی ایک اہم سیڑھی سمجھا جاتا ہے ، کیونکہ اس کا کردار خطے میں ہمیشہ غیر جانبدارانہ رہا ہے، حوثی باغیوںکی قید سے فرانسسی اور امریکی شہریوں کوکئی بار رہا کروایا تو عراق سے ایران کی سرحد غلطی سے پارکرنے والے امریکیوں کو بھی ایران کی قید سے رہا کروانے میں عمان نے اہم کردار ادا کیا ۔
عرب ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے اسرائیل سے اپنے تعلقات پر ہمیشہ پردہ ڈالے رکھا ۔ اس روایت کو توڑتے ہوئے عمان کی حکومت نے اسرائیلی وزیراعظم کے دورۂ عمان کی ایک ایک تفصیل میڈیا کو جاری کر دی ، یوں یہ خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، ملاجلا ردِعمل سامنے آیا۔ کہیں اس دورے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا، کہیں سے آواز آئی کہ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ دورہ کرکے مسلم دنیا کو منقسم کرنے کی سازش کی ہے توکہیں عمان کے بارے میں یہ رائے دی گئی کہ اس نے نیتن یاہوکا استقبال کرکے مسلمانوں کی پشت میں چھرا گھونپا ہے۔
بہرحال اس دورے کے بعد عمان نے اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کا حصہ بلاجھجک تسلیم کرلیا ہے۔ عمان کے امور خارجہ کے وزیرکا کہنا ہے کہ خطے سے تنازعات کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے اسرائیل سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں ، یوں اسرائیل کے معاملے پر مسلم ممالک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوچکے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ صرف عمان کو ہی اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا ذمے دارکیوں قرار دیا جا رہا ہے، اگر عمانی میڈیا نے نیتن یاہوکے دورے کو ایک پُرمسرت موقعے کے طور پر پیش کیا تو قطرکی بات کیوں نہ کی جائے کہ دوحہ میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا ۔
متحدہ عرب امارات کا ذکر کیوں نہ ہو جہاں کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیلی ایتھلیٹ بھی شریک ہوئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات نے تو خطے میں موجود تنازعات کا مکمل ذمے دار اسرائیل کے بجائے صرف ایران کو قرار دے دیا ہے۔ اسرائیل نوازی کے الزامات کی انگلیاں صرف عمان پر اٹھانا آخرکہاں کا انصاف ہے؟ اگر اسرائیل کے لیے کوئی نرم گوشہ مشرقِ وسطیٰ میں بن رہا ہے تو اس کا عمان کی طرح باقی سب اعتراف کیوں نہیں کرتے۔ مسلم ممالک کی منافقانہ پالیسیوں سے عالمِ اسلام کب تک نقصان اٹھاتا رہے گا؟
اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ دورے کے خلاف الجزیرہ کی ایک خاتون رپورٹر نے فرمایا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے کسی بھی تعلق کو رد کرتی ہیں ۔ ان کے اس بیان کے بعد ٹوئٹر پر صرف ایک ہی سوال کی بوچھاڑ ہوئی کہ اگر یہی بات ہے تو پھر دوحہ میں کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیلی ایتھلیٹس کو اسرائیل کے قومی جھنڈے کے ساتھ شرکت کیوں کرنے دی گئی ۔ اس وقت کیوں نہ کہا گیا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کا کوئی بھی تعلق رد کر دینا چاہیے۔ اسرائیل نوازی مشرقِ وسطیٰ کی کسی ریاست کے لیے حلال توکسی کے لیے حرام کیوں بنا دی گئی ؟
ایران اور فلسطین میں یہ دورہ الگ کھلبلی مچا رہا ہے۔ نیتن یاہوکے دورے سے کچھ روز قبل فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے عمان کا دورہ کیا تھا ۔ لہٰذا یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ عمان ، اسرائیل اور فلسطین تنازعے کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی تاریخ کے بعد اس بات کوکیسے تسلیم کرلیا جائے کہ اسرائیل اس معاملے کے حل کے لیے اس قدر بے چین ہے کہ عمان کو ثالث تک بنانے پر تیار ہے۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں عمان نے ہمیشہ مثبت کردار نبھایا ہے، جس کو دیکھتے ہوئے محمود عباس کے حالیہ دورۂ عمان کا مقصد تو فلسطین تنازعے پر عمان کی حمایت کا حصول ہو سکتا ہے لیکن مان لیجیے کہ نیتن یاہو ایسی کوئی سوچ دور دور تک نہیں رکھتے۔
یہ صرف میری غلط فہمی نہیں بلکہ اسرائیل کے ایک مایہ ناز تجزیہ نگار ایہود یاری بھی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ '' فلسطین کے معاملے پر اسرائیل کسی کو ثالث بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا'' انھوں نے ایک ایسی بات بھی کی جس نے سب کے کان کھڑے کردیے، اسرائیلی تجزیہ نگار فرماتے ہیں کہ'' عمان اسرائیل کے لیے تہران تک پہنچنے کا ایک اہم راستہ ہے'' اس بیان کو محض ایک تجزیہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسرائیل اور عمان کے نئے تعلقات کو اس پہلو سے ضرور جانچنا چاہیے۔
ایران ، عمان کے مشرق میں واقع ہے۔ سلطان قابوس نے یوں تو آج تک اپنی حدود میں کسی غیرکی مداخلت کی نوبت ہی نہ آنے دی لیکن وقتِ بے رحم کو پلٹنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ اسرائیل اس وقت ایران کے شام میں بڑھتے ہوئے قدموں سے سخت خائف ہے۔ اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ مستقبل میں ایران یہاں مضبوطی پکڑکر مستقل بسیرا کر لے گا، جو اسرائیل کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل نے شام میں ایرانی تنصیبات پر پے درپے حملے کیے ، خوب بمباری کی اور اس کو بے حد نقصان پہنچایا لیکن وہ ایران کے قدموں کو پیچھے نہ ہٹا سکا ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ یہ دورہ ایران کے خلاف بننے جانے والے اسرائیلی اور امریکی جال کا تانا بانا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ عقل حیران ہے کہ جو خود کو بھی بے مقصد یاد نہ کرتے ہوں، ان کو بیس سال بعد اچانک عمان کی یاد کیسے ستا گئی؟ یہ عمان کی یاد ہے یا اسرائیل کا دن نکلنے والا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ سچ ہے کہ ایسے ہی بھولی بسری یادوں کا دامن تھامے رہا تو اسرائیل دنیا کے میلے میں کبھی بچھڑے گا نہیں ۔