بلین ڈالر ’’پراجیکٹس‘‘ پاکستان میں موجود
دنیا کے 101 ممالک کا دورہ کرنیوالی ٹیم نے سیاحوں کو مشورہ دیا ہے کہ جائیں تو پاکستان ہی جائیں۔
جس طرح سابقہ دور حکومت میں شور مچایا گیا کہ چنیوٹ میں اربوں ڈالر کا لوہا نکل آیا، فوٹو شوٹس ہوئے، واہ واہ ہوئی ، لیکن بعد میں علم ہوا کہ وہ لوہا قابل استعمال ہی نہیں ہے۔
لوہا زیر زمین تھا ،عوام نے کونسا اُسے دیکھنا تھا تاہم وقتی طور پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسا شوشہ چھوڑا گیا لیکن حقیقت میں یہاں اربوں ڈالر پراجیکٹس موجود ہیں، جو نظر بھی آتے ہیں اور اُن پر کام بھی کیا جا سکتا ہے۔جن سے اگر استفادہ کیا جائے تو نہ ہمیں سعودی عرب و امریکا کی ضرورت ہو اور نہ ہی چین و ملائشیا کی۔ یہ پراجیکٹس پاکستان میں موجود 2000 چھوٹے بڑے ''سیاحتی مقامات'' ہیں جو اپنے اندر قدرتی طورپرایسی کشش رکھتے ہیں کہ پوری دنیا سے سیاح یہاں آنے کے لیے ترستے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب زرخیزمیدان بھی موجود ہیں۔قدرتی مناظر میں ساحل سمند ر سے لے کر آسمان کو چھوتی برف پوش چوٹیاں، خوبصورت آبشاریں، چشمے و جھرنے، سرسبز گھنے جنگلات ، وادیاں، جھیلیں اور صحرا شامل ہیں۔ پاکستان میں موئنجو داڑو، بدھ مت کی تاریخی نشانیاں ٹیکسلا اور گندھارا کی قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات موجود ہیں۔
پاکستان کا سوئٹرز لینڈ کہلانے والی وادی سوات کے علاوہ رومان پرور وادی کاغان ، گلیات ،وادی کیلاش ، وادی ہنزہ ،شنگر یلا ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔دنیا کے بیشترممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جب کہ پاکستان کی سرزمین پر17 بڑے دریا بہتے ہیں، چاروں موسم آتے ہیں ۔ اگران مقامات کو بین الاقوامی معیار کی سہولیات دے کر فروغ دیا جائے تو اربوں ڈالر منافع دیں گی جس طرح بھارت کے شہر آگرہ میں تاج محل، دلی میں قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ اور دیگر مقامات سے اربوں ڈالرز منافع حاصل ہو رہا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ورلڈ ٹور آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں دنیا بھر میں سفر کرنے والے سیاحوں کی تعداد 1ارب 25کروڑ سے زیادہ ہے۔ فرانس سب سے آگے ہے جہاں گزشتہ سال 10کروڑ سیاحوں نے رُخ کیا، فرانس کو سیاحت کی مد میں 100ارب ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوئی۔
اسی طرح اسپین، امریکا، چین، اٹلی ،میکسکو، برطانیہ، ترکی ، جرمنی اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سیاحت کے فروغ میں ہمہ وقت کوشاں ہیں اور اربوں ڈالر کا ریونیو اکٹھا کر رہے ہیں۔ جب کہ دنیا کے 34ممالک کا بنیادی ذریعہ آمدن بھی سیاحت ہی ہے۔ ہم گوادر اور کراچی کے درمیان میں سمندر کنارے ایک ٹورازم سٹی بنا سکتے ہیں، دنیا میں بے شمار شہر ایسے ہیں جو ٹور ازم کے نام پر آباد کیے گئے ہیں ۔
لاس ویگاس اس کی ایک بڑی مثال ہے جو دنیا کی 5بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے ۔ اسی طرح سنگاپور، سانتامونیکا(کیلیفورنیا)، کیپ ٹائون، ہانگ کانگ، سڈنی، ہونولولو، میامی، دبئی اوربارسلوناوغیرہ جیسے شہر جو ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے ملک کی اکانومی کے لیے Golden Placesکی حیثیت رکھتی ہیں۔ بالکل انھی شہروں کی طرز پر آپ ٹورسٹ Beach بنا سکتے ہیں،اس کے لیے حکومت کو محض ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کرنا ہوگا، دنیا ان ساحلوں کو دیکھنے اور یہاں ہوٹل بنانے کے لیے خود آجائے گی۔ دبئی نے بھی یہی کام کیا تھا۔
آج اگر دبئی ائیر پورٹ دنیا کا دوسرا سب سے مصروف ائیر پورٹ بن چکا ہے تو یہ یہاں کی مقامی آبادی کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے ہے۔دبئی اسلامی ریاست ضرور ہے یہاں مذہب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ایک سے بڑھ کر ایک بڑی مسجد وہاں تعمیر ہے۔ مگر وہ لوگ سیاحت کے فروغ میں دنیا کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ سیاحوں کو ان کلچر کے مطابق سہولیات دیتے ہیں،آپ دبئی کو چھوڑیں مراکو، مصر اور انڈونیشیا جیسے اسلامی ملکوں کی مثال لے لیں یہ شہر بھی سیاحوں کو سہولیات دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فحش فلمیں سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہیں، لیکن ہم ٹور ازم کو پروموٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ہمارے ہاں دنیا کی 6بڑی چوٹیاں ہیں، لیکن ہم انھیں پروموٹ نہ کر سکے۔ پورا نیپال مائونٹ ایورسٹ کی وجہ سے اربوں ڈالر کماتا ہے جب کہ ہم چند ہزار ڈالر تک محدود ہیں۔ ناران کاغان جیسے سیاحتی مقامات سردیوں کے 5ماہ تک بند رہتے ہیں۔ سوات ، کالام ، بحرین جیسے خوبصورت مقامات سے زمینی راستہ منقطع ہو جاتا ہے۔ جب کہ آپ یورپی ملکوں میں دیکھ لیں جہاں سب سے زیادہ برف باری ہوتی ہے لیکن وہ اس موسم کو بھی کیش کراتے ہیں، سوئٹزر لینڈ جیسے ملک میں 16ہزار فٹ تک مقامات کو سہولیات سے نوازا ہوا ہے۔ اس لیے دنیا بھر سے سیاح وہاں کھنچے چلے جاتے ہیں۔
امریکا میں جہاں کہیں چھوٹا سا بھی پہاڑ ہوگا، وہاں وہ ایک ٹرین کے لیے ٹریک بنا دیا جاتا ہے، کوئی ایک اچھا سا ریسٹورنٹ یا فائیو اسٹار ہوٹل بنا دیتے ہیں اور اُسی جگہ کو وہ اس طرح سے استعمال کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بھی معیشت کو سپورٹ ملتی ہے۔
آپ دور نہیں جائیں آگرہ میں سالانہ 5کروڑ سیاح صرف تاج محل کو دیکھنے آتے ہیں ، جب کہ آگرہ کا رقبہ محض ہمارے چھوٹے سے شہر قصور جتنا ہے لیکن وہاں 200سے زائد بڑے بڑے ہوٹلز موجود ہیں۔ ہمارے ہاں اسی طرز کے تاریخی مقامات بھی کسی سے کم نہیں ہیں، موہنجو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا جیسی تہذیبیں ہی اربوں ڈالر پراجیکٹس ہیں۔ بے شمار قلعے ہیں ، بہاولپور جیسے شہر میں بے شمار قلعے ہیں۔
فورٹ منرو کو پروموٹ کیا جا سکتا ہے ، جس کی 6000فٹ اونچائی ہے ، پھر پاکستان کے صحرا ئوں کو کون نہیں جانتا۔ چولستان میں سفاری جیپ ریلی ، شندور جیسے مقام پر سالانہ میلہ سجتا ہے مگر ہم اسے کیش نہیں کرا سکتے۔ آپ ایران کو دیکھ لیں وہ تاریخی اور مذہبی مقامات کی زیارتیں کروا کر معیشت کو سہارا دیتا ہے۔ پاکستان میں بھی زیارتیںکرائی جا سکتی ہیں، الاش کے لوگ ہر سال 22 اگست کو اپنا دن مناتے ہیں ، یہ وادی رمبر اور وادی بمبورٹ میں منایا جاتا ہے۔
ابھی گزشتہ سال ہی برطانوی بیک پیکر سوسائٹی جو دنیا بھر میں سیاحت کے حوالے سے خاصی مشہور ہے نے پاکستان پر ایک ڈاکیومنٹری بنائی ہے جس میں دکھا یا گیا ہے کہ وادی ہنزہ کے نظارے کریں، شاہراہ قراقرم پر سفر کریں، وادی کاغان اور ناران گھومیں پھریں، پاکستان پر فضاملک ہے،پرامن بھی۔ اس لیے برطانوی بیک پیکر سوسائٹی نے 20 ممالک میں سیاحت کے حوالے سے پاکستان کو پہلا نمبر دیا ہے۔دنیا کے 101 ممالک کا دورہ کرنیوالی ٹیم نے سیاحوں کو مشورہ دیا ہے کہ جائیں تو پاکستان ہی جائیں، قدرتی مناظر سے دل کو لبھائیں، شاہراہ قراقرم سے اسلام آباد اور پھر درہ خنجراب تک سفر کریں، مزہ آجائے گا۔
الغرض پوری دُنیا میں سیاحت کی صنعت تیزی سے پھیل گئی ہے۔ پاکستان سیاحت کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے۔ ہمیں ابھی بھی غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان میں لانے کے لیے کچھ کام کرنا ہوگا۔اب دنیا انٹرنیٹ کی وجہ سے ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ مختلف طریقوں سے حکومت سیاحت کو پروموٹ کر کے اربوں ڈالر ریونیو اکٹھا کر سکتی ہے جس یقینا ملک کا قرض بھی اتر سکتا ہے ، 50لاکھ گھر بھی بن سکتے ہیں اور ایک کروڑ نوکریاں بھی یقینانکل سکتی ہیں!
لوہا زیر زمین تھا ،عوام نے کونسا اُسے دیکھنا تھا تاہم وقتی طور پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسا شوشہ چھوڑا گیا لیکن حقیقت میں یہاں اربوں ڈالر پراجیکٹس موجود ہیں، جو نظر بھی آتے ہیں اور اُن پر کام بھی کیا جا سکتا ہے۔جن سے اگر استفادہ کیا جائے تو نہ ہمیں سعودی عرب و امریکا کی ضرورت ہو اور نہ ہی چین و ملائشیا کی۔ یہ پراجیکٹس پاکستان میں موجود 2000 چھوٹے بڑے ''سیاحتی مقامات'' ہیں جو اپنے اندر قدرتی طورپرایسی کشش رکھتے ہیں کہ پوری دنیا سے سیاح یہاں آنے کے لیے ترستے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب زرخیزمیدان بھی موجود ہیں۔قدرتی مناظر میں ساحل سمند ر سے لے کر آسمان کو چھوتی برف پوش چوٹیاں، خوبصورت آبشاریں، چشمے و جھرنے، سرسبز گھنے جنگلات ، وادیاں، جھیلیں اور صحرا شامل ہیں۔ پاکستان میں موئنجو داڑو، بدھ مت کی تاریخی نشانیاں ٹیکسلا اور گندھارا کی قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات موجود ہیں۔
پاکستان کا سوئٹرز لینڈ کہلانے والی وادی سوات کے علاوہ رومان پرور وادی کاغان ، گلیات ،وادی کیلاش ، وادی ہنزہ ،شنگر یلا ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔دنیا کے بیشترممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جب کہ پاکستان کی سرزمین پر17 بڑے دریا بہتے ہیں، چاروں موسم آتے ہیں ۔ اگران مقامات کو بین الاقوامی معیار کی سہولیات دے کر فروغ دیا جائے تو اربوں ڈالر منافع دیں گی جس طرح بھارت کے شہر آگرہ میں تاج محل، دلی میں قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ اور دیگر مقامات سے اربوں ڈالرز منافع حاصل ہو رہا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ورلڈ ٹور آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں دنیا بھر میں سفر کرنے والے سیاحوں کی تعداد 1ارب 25کروڑ سے زیادہ ہے۔ فرانس سب سے آگے ہے جہاں گزشتہ سال 10کروڑ سیاحوں نے رُخ کیا، فرانس کو سیاحت کی مد میں 100ارب ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوئی۔
اسی طرح اسپین، امریکا، چین، اٹلی ،میکسکو، برطانیہ، ترکی ، جرمنی اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سیاحت کے فروغ میں ہمہ وقت کوشاں ہیں اور اربوں ڈالر کا ریونیو اکٹھا کر رہے ہیں۔ جب کہ دنیا کے 34ممالک کا بنیادی ذریعہ آمدن بھی سیاحت ہی ہے۔ ہم گوادر اور کراچی کے درمیان میں سمندر کنارے ایک ٹورازم سٹی بنا سکتے ہیں، دنیا میں بے شمار شہر ایسے ہیں جو ٹور ازم کے نام پر آباد کیے گئے ہیں ۔
لاس ویگاس اس کی ایک بڑی مثال ہے جو دنیا کی 5بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے ۔ اسی طرح سنگاپور، سانتامونیکا(کیلیفورنیا)، کیپ ٹائون، ہانگ کانگ، سڈنی، ہونولولو، میامی، دبئی اوربارسلوناوغیرہ جیسے شہر جو ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے ملک کی اکانومی کے لیے Golden Placesکی حیثیت رکھتی ہیں۔ بالکل انھی شہروں کی طرز پر آپ ٹورسٹ Beach بنا سکتے ہیں،اس کے لیے حکومت کو محض ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کرنا ہوگا، دنیا ان ساحلوں کو دیکھنے اور یہاں ہوٹل بنانے کے لیے خود آجائے گی۔ دبئی نے بھی یہی کام کیا تھا۔
آج اگر دبئی ائیر پورٹ دنیا کا دوسرا سب سے مصروف ائیر پورٹ بن چکا ہے تو یہ یہاں کی مقامی آبادی کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے ہے۔دبئی اسلامی ریاست ضرور ہے یہاں مذہب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ایک سے بڑھ کر ایک بڑی مسجد وہاں تعمیر ہے۔ مگر وہ لوگ سیاحت کے فروغ میں دنیا کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ سیاحوں کو ان کلچر کے مطابق سہولیات دیتے ہیں،آپ دبئی کو چھوڑیں مراکو، مصر اور انڈونیشیا جیسے اسلامی ملکوں کی مثال لے لیں یہ شہر بھی سیاحوں کو سہولیات دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فحش فلمیں سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہیں، لیکن ہم ٹور ازم کو پروموٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ہمارے ہاں دنیا کی 6بڑی چوٹیاں ہیں، لیکن ہم انھیں پروموٹ نہ کر سکے۔ پورا نیپال مائونٹ ایورسٹ کی وجہ سے اربوں ڈالر کماتا ہے جب کہ ہم چند ہزار ڈالر تک محدود ہیں۔ ناران کاغان جیسے سیاحتی مقامات سردیوں کے 5ماہ تک بند رہتے ہیں۔ سوات ، کالام ، بحرین جیسے خوبصورت مقامات سے زمینی راستہ منقطع ہو جاتا ہے۔ جب کہ آپ یورپی ملکوں میں دیکھ لیں جہاں سب سے زیادہ برف باری ہوتی ہے لیکن وہ اس موسم کو بھی کیش کراتے ہیں، سوئٹزر لینڈ جیسے ملک میں 16ہزار فٹ تک مقامات کو سہولیات سے نوازا ہوا ہے۔ اس لیے دنیا بھر سے سیاح وہاں کھنچے چلے جاتے ہیں۔
امریکا میں جہاں کہیں چھوٹا سا بھی پہاڑ ہوگا، وہاں وہ ایک ٹرین کے لیے ٹریک بنا دیا جاتا ہے، کوئی ایک اچھا سا ریسٹورنٹ یا فائیو اسٹار ہوٹل بنا دیتے ہیں اور اُسی جگہ کو وہ اس طرح سے استعمال کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بھی معیشت کو سپورٹ ملتی ہے۔
آپ دور نہیں جائیں آگرہ میں سالانہ 5کروڑ سیاح صرف تاج محل کو دیکھنے آتے ہیں ، جب کہ آگرہ کا رقبہ محض ہمارے چھوٹے سے شہر قصور جتنا ہے لیکن وہاں 200سے زائد بڑے بڑے ہوٹلز موجود ہیں۔ ہمارے ہاں اسی طرز کے تاریخی مقامات بھی کسی سے کم نہیں ہیں، موہنجو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا جیسی تہذیبیں ہی اربوں ڈالر پراجیکٹس ہیں۔ بے شمار قلعے ہیں ، بہاولپور جیسے شہر میں بے شمار قلعے ہیں۔
فورٹ منرو کو پروموٹ کیا جا سکتا ہے ، جس کی 6000فٹ اونچائی ہے ، پھر پاکستان کے صحرا ئوں کو کون نہیں جانتا۔ چولستان میں سفاری جیپ ریلی ، شندور جیسے مقام پر سالانہ میلہ سجتا ہے مگر ہم اسے کیش نہیں کرا سکتے۔ آپ ایران کو دیکھ لیں وہ تاریخی اور مذہبی مقامات کی زیارتیں کروا کر معیشت کو سہارا دیتا ہے۔ پاکستان میں بھی زیارتیںکرائی جا سکتی ہیں، الاش کے لوگ ہر سال 22 اگست کو اپنا دن مناتے ہیں ، یہ وادی رمبر اور وادی بمبورٹ میں منایا جاتا ہے۔
ابھی گزشتہ سال ہی برطانوی بیک پیکر سوسائٹی جو دنیا بھر میں سیاحت کے حوالے سے خاصی مشہور ہے نے پاکستان پر ایک ڈاکیومنٹری بنائی ہے جس میں دکھا یا گیا ہے کہ وادی ہنزہ کے نظارے کریں، شاہراہ قراقرم پر سفر کریں، وادی کاغان اور ناران گھومیں پھریں، پاکستان پر فضاملک ہے،پرامن بھی۔ اس لیے برطانوی بیک پیکر سوسائٹی نے 20 ممالک میں سیاحت کے حوالے سے پاکستان کو پہلا نمبر دیا ہے۔دنیا کے 101 ممالک کا دورہ کرنیوالی ٹیم نے سیاحوں کو مشورہ دیا ہے کہ جائیں تو پاکستان ہی جائیں، قدرتی مناظر سے دل کو لبھائیں، شاہراہ قراقرم سے اسلام آباد اور پھر درہ خنجراب تک سفر کریں، مزہ آجائے گا۔
الغرض پوری دُنیا میں سیاحت کی صنعت تیزی سے پھیل گئی ہے۔ پاکستان سیاحت کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے۔ ہمیں ابھی بھی غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان میں لانے کے لیے کچھ کام کرنا ہوگا۔اب دنیا انٹرنیٹ کی وجہ سے ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ مختلف طریقوں سے حکومت سیاحت کو پروموٹ کر کے اربوں ڈالر ریونیو اکٹھا کر سکتی ہے جس یقینا ملک کا قرض بھی اتر سکتا ہے ، 50لاکھ گھر بھی بن سکتے ہیں اور ایک کروڑ نوکریاں بھی یقینانکل سکتی ہیں!