مہنگائی مہنگائی اور وعدوں سے انحراف

عمران خان آپ تو بتاتے تھے کہ اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز دینا دراصل رشوت ہے۔


مزمل سہروردی November 03, 2018
[email protected]

ملک میں عمومی صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔ سب ہی کو افسوس ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا مقدمہ بہت کمزور ہے۔ جو کل تک ان دھرنوں کی حمایت کر رہے تھے۔ وزیر اعظم روز اپوزیشن کو دعوت دے رہے تھے کہ اگر دھرنا دینا ہے تو وہ کنٹینر گفٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جو کل تک دھرنوں کو جمہوریت کا حسن کہتے تھے آج دھرنوں کو ملک کے لیے نقصان دہ کہہ رہے ہیں۔

کل تک سول نا فرمانی کو جمہوریت میں جائز قرار دنے والے آج رو رہے ہیں کل تک حساس مذہبی مسئلے پر سیاسی فائدہ اٹھانے والے آج کیوں پریشان ہیں۔ اگر یہ کل جائز تھے تو آج ناجائز کیسے ہیں۔ اگر حکومت وقت کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے تو قوم سے سر عام معافی مانگنے کی بھی ہمت ہونی چاہیے۔ ورنہ تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کہ جو کل بویا تھا وہی آج کاٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔

عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ نیا پاکستان بنے یا نہ بنے عام آدمی کے لیے زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت وقت کی معاشی پالیسی کیا ہے۔ پہلے گیس مہنگی کی گئی ہے۔ پھر بجلی مہنگی کر دی گئی۔ اس کے بعد تمام اشیا ء ضرورت کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔روپے کی قدر میں کمی کر دی گئی۔ ڈالر کی اڑان کو کوئی نہیں پکڑ سکا۔ لیکن حکومت کی اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی ہے اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

اس حکومت نے مہنگائی کرنے میں جمہوری اور آمر سب حکومتوں کا ریکارڈ تو ڑ دیا ہے۔ اتنے قلیل عرصہ میں اتنی مہنگائی کسی بھی حکومت نے نہیں کی ہے۔ اتنے ظلم تو آمروں نے بھی کیے۔ وہ بھی عوام کو زندہ رہنے کا حق دیتے تھے۔ انھیں بھی احساس رہتا تھا کہ لوگوں کو زندہ رہنے دینا ہے۔ لیکن یہ حکومت تو زندگی کا حق چھین رہی ہے۔ کب تک گزشتہ حکومت کا راگ الاپ کر ظلم کریں گے۔ اتنے ظلم تو وہ بھی نہیں کر رہے تھے۔

یہ بات نا قابل فہم ہے کہ حکومت کیا سوچ رہی ہے۔ کیا اسے عام آدمی کی مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ تنخواہ دار طبقہ کے لیے زندہ رہنا مشکل سے مشکل کیا جا رہا ہے۔ تنخواہ پرانی، قیمتیں نئی۔ کیسے ممکن ہے۔ پرانے پاکستان کی حکومتیں ہر سال تھوڑا بہت تنخواہوں میں اضافہ کرتی تھیں جس سے کچھ ریلیف مل جاتا ۔ لیکن اس نئے پاکستان میں ریلیف کا تو کوئی ذکر نہیں۔ بس ظلم ہی ظلم ہے۔ کاروباری اور مزدور تو اور بھی بری حالت کا شکار ہو گئے ہیں۔ نئے پاکستان میں تو کاروبار کا پرانے پاکستان سے بھی برا حال ہے۔

میں حیران ہوں کہاں گئے وہ اسد عمر اور عمران خان جو ہمیں بتاتے تھے کہ پٹرول پر حکومت ظالمانہ ٹیکس لے رہی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہیں ، یہ حکومت نے ٹیکس لگائے ہوئے ہیں، اس لیے پٹرول مہنگا ہے۔ کہاں گئے وہ اسد عمر جو ہر بار جب ماضی میں پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو حساب کتاب لگا کر بتاتے تھے کہ اس میں کتنا ٹیکس ہے۔ پٹرول کی قیمت نہیں ہے۔ اب پٹرول کی قیمت بڑھاتے وقت یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا ہے کہ اب آپ نئے پاکستان میں کتنا ٹیکس لے رہے ہیں۔

حکومت کی کوئی نہ تو کوئی معاشی پالیسی سامنے آرہی ہے اور نہ ہی حکومت کی کوئی معاشی سمت نظر آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بس ہوش کھو بیٹھے ہیں۔ کہاں گئے وہ اسد عمر جو بتاتے تھے کہ ملک میں کتنی بجلی چوری ہے۔ اور کہاں گئے وہ اسد عمر جو اس بجلی چوری کو روکنے کے حل روز قوم کو بتاتے تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس نئے پاکستان میں بھی قوم کو دھوکا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بجلی چوری کے خلاف آپریشن بھی لاہور اور اسلام آباد سے شروع کیا گیا ہے۔

اگر جان کی امان مل جائے تو کوئی اس حکومت سے پوچھنے کی جرات کر سکتا ہے کہ بھائی اسلام آباد اور لاہور میں تو پہلے ہی بجلی چوری بہت کم ہے۔ جہاں مسئلہ ہے وہاں کے لیے کیا پالیسی ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ اندرون سندھ میں بجلی چوری روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ کے پی کے سے بجلی کے بل وصول کرنے کے لیے اس حکومت کی کیا پالیسی ہے۔ اب تو سب جگہ ان کی حکومت ہے۔ کیا نئے پاکستان میں بھی بجلی مہنگی کر کے ہی بجلی کے خسارے کو پورا کیاجائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ابھی وقت دیں ۔ لیکن میرا سوال ہے کچھ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ پھر اس کی تکمیل کے لیے وقت بھی دیا جائے اور انتظار بھی کیا جائے۔ لیکن اگر کچھ ہوتا ہی نظر نہ آئے تو کیا کریں۔ کھیلنے اور ظلم کرنے کے لیے تو وقت نہیں دیا جا سکتا۔ کیا یہ تنقید بھی نہ کی جائے کہ بھائی آپ کچھ نہیں کر رہے۔ آپ کی سمت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کی ترجیحات ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ اپنے وعدوں سے منحرف ہو رہے ہیں۔ آپ اپنے ایجنڈے سے انحراف کر رہے ہیں۔ کیا کرے پورا پاکستان خاموش تماشائی بن جائے۔

یہ عجیب حکومت ہے سوال کریں تو بھی برا مان جاتی ہے۔ اگر یہی پوچھ لیں کہ آپ نے تو کہا تھا کہ کرپشن ختم کریں گے۔ اس جانب ہی کارکردگی بتا دیں۔آپ نے اعلان کیا تھا کہ پچاس بڑے کرپٹ جیل بھیج دیں گے۔ کہاں ہیں وہ پچاس بڑے کرپٹ ،کیوں حکومت ان کے خلاف کیس سامنے نہیں لا رہی۔ آپ جب اپوزیشن میں تھے تو روز کہتے تھے کہ دو سوارب روپے کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔اب اسد عمر صاحب کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس منی لانڈرنگ کے حوالہ سے کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔ جب ڈیٹا تھا ہی نہیں تو الزام کیسے لگاتے تھے۔ منی لانڈرنگ کا سارا شور کیا تھا۔اس حکومت نے اب تک عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ اس نئے پاکستان میں مہنگائی ہی ملی ہے۔ دال روٹی مہنگی ہو گئی ہے۔سارا بجٹ خراب ہو گیا ہے۔ لیکن کسی کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔

کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ کہاں ہے وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ڈالر جو اس حکومت کے آنے کے بعد آنے تھے۔ کہاں ہے وہ جھیل کنارے کھڑا ڈاکٹر جو عمران خان کی حکومت میں پاکستان آرہا تھا۔ سب اس کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیکن وہ تو سرکاری اسپتال تو دور کی بات کسی نجی اسپتال میں بھی نہیں مل رہا۔ آپ تو کہتے تھے کہ نئے پاکستان میں ڈالروں کی بارش ہو جائے گی۔ یہاں تو زر مبادلہ کے ذخائر میں روز بروز کمی ہو رہی ہے۔ آپ تو بتاتے تھے کہ نئے پاکستان میں گھاس کھا لیں گے بھیک نہیں مانگیں گے۔

یہاں تو بھیک ملنے پر جشن منائے جا رہے ہیں۔ بھیک لینے کے لیے شان و شوکت کے ساتھ بارات لے کر جاتے ہیں۔ اور پھر بھیک ملنے پر اعلان فتح کیا جاتا ہے جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو۔سادگی کا نعرہ لگانے والی اس حکومت سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ صدر مملکت کے پچاس لاکھ کا ناشتہ کیسے ہوگیا۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اب وزیر اعظم خصوصی جہاز کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ عام فلائٹ سے کیوں نہیں گئے۔ کوئی جان سکتا ہے کہ تھر میں جب بچے قحط سے مر رہے ہیں تو گورنر سندھ کے لیے ریڈ کارپٹ کیوں بچھایا گیا۔ مرتے بچوں کی عیادت کے لیے ریڈ کارپٹ کونسی جمہوریت کا عکاس ہے۔

عمران خان آپ تو بتاتے تھے کہ اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز دینا دراصل رشوت ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے۔ یہ ترقیاتی فنڈز ملک میں کرپشن کی بنیاد ہیں۔ کوئی اب آپ سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ نے اپنے سو دنوں میں ہی قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو دس دس کروڑ کے فنڈز کیسے دے دیے ہیں۔ کیا یہ اب رشوت نہیں ہے۔ کیا یہ کرپشن نہیں ہے۔ کیا ایک غریب ملک جو قرضوں کے بوجھ میں دبا ہوا ہے اس میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ آپ مہنگائی تو روز کر رہے ہیں۔ یہ کابینہ چھوٹی کب کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں