ووٹ دینے کا معاوضہ یہ ہے
عوام نے اس پارٹی کی آواز پر لبیک اس لیے کہا کہ پرانی حکومت کی من مانی اور کرپشن کے الزامات میں ڈوبی چلی جا رہی تھی۔
ملک بھر اور کراچی کے لوگوں نے پی ٹی آئی کو نہ صرف ووٹ دیا بلکہ بڑے بڑے جلوس اور جشن منایا تھا تاکہ عمران خان کے قدم اس ملک میں جم جائیں ورنہ ان کا سیاسی کیریئر اتنا طویل اور قربانی دینے والا نہ تھا۔
محض کنٹینر پر کھڑے ہوکر علامہ طاہر القادری کی فکری اور عوامی مقبولیت کی قوت پر مقبول ہوتے گئے کیونکہ طاہر القادری کی تقریریں متوسط طبقے اور غریبوں کے حقوق کی ضامن تھیں بلکہ طاہر القادری نے ایک موقع پر نہ صرف غریبوں کے حقوق کی بات کی تھی بلکہ انھوں نے ایک بار تو مارکس اور لینن کا بھی تذکرہ کیا کیونکہ شوکت خانم اسپتال کوئی بین الاقوامی معرکہ نہ تھا بلکہ وہ ایک این جی او کا کارنامہ ہی ہے، نہ تو یہ کوئی ڈیم تھا کہ جسے لاکھوں لوگوں کی سرسبز و شاداب وادیوں سے گزر کر کسانوں کو فصل کا ذمے دار بنانا تھا بلکہ کروڑوں لوگوں کی حیات کا ضامن بننا تھا۔
عوام نے اس پارٹی کی آواز پر لبیک اس لیے کہا کہ پرانی حکومت کی من مانی اور کرپشن کے الزامات میں ڈوبی چلی جا رہی تھی مگر حکومت بناتے ہی یہ بات آتی گئی کہ اس پارٹی میں دور بینی اور سیاسی بصیرت کی بہت کمی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ سی پیک میں سعودی قیادت کو اہم مقام دینے کے صرف چند روز بعد ہی منفی جانب بڑھ رہے تھے اور پاکستان میں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور ان کے ساتھی انقلاب کی تیاری میں مصروف تھے۔
کراچی میں بھی مزدور کسان، دانشور راج کی تیاری جاری تھی اس وقت برصغیر میں انقلاب کے شادیانے بجنے کے قریب تھے ایسے وقت میں شاعری بھی اپنے گرد و نواح کے اثرات میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پاکستان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور حبیب جالب بھارت میں مخدوم محی الدین اور سیکڑوں شعرا انقلابی اشعار سے لوگوں میں جوش و ولولہ پیدا کر رہے تھے حیدر آباد دکن میں تلنگانہ موومنٹ کسانوں نے جاری رکھی تھی اور مخدوم یہ ترانہ لکھ رہے تھے:
یہ جنگ ہے جنگ آزادی' آزادی کے پرچم کے تلے
اس دیس کے رہنے والوں کی مزدوروں کی دہقانوں کی
اسی موقع پر عوام نئی روشنی سے متاثر ہوکر ماؤ اور لینن کے راستوں کو اپنانے کی دوڑ میں مصروف تھے خصوصاً ساحر لدھیانوی عام الفاظ میں اپنا نظریہ سادہ الفاظ میں عوام تک پہنچا رہے تھے اس وقت جو جنگ عالم میں برپا تھی اس کو برصغیر تک شعرا ادبا نہایت خوبصورتی سے عوام تک پہنچانے میں مصروف تھے مگر ساحر لدھیانوی پیغام رسانی کے علاوہ پیش گوئی بھی کر رہے تھے جیسی پیش گوئی مرزا غالب نے آج کے دور پر کی ہے، جیسا کہ کئی سال قبل دنیا میں وہ آسائشیں نہ تھیں جو آج ہیں جب کہ کہیں مال نہ تھے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے طرح طرح کے انواع و اقسام کی مصنوعات، رنگ برنگ کے دنگ کرنے والی مصنوعات کی شاپنگ کے باوجود خریداروں کا دل نہیں بھرتا ہے۔ میلوں لمبی جگہ پر پھر کر بھی اس کا دل خریداری سے نہیں بھرتا اور وہ آخر نکلتے وقت یہ کہتا ہے کہ:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
غالب نے اس دور کی خریداری کو کب محسوس کرلیا تھا۔ خدا نے شعرا میں مستقبل کے واقعات کا ادراک شاعر بھی رکھا ہے اور عوام الناس کو بیدار کرنے کی قوت پیدا کی ہے، خصوصاً جو کلام ساحر نے 60 یا 70 کی دہائی میں لوگوں تک پہنچایا ہے وہ آج تک زندہ و جاوید ہے۔ ساحر کی سیاسی بصیرت دور تک دیکھ لیتی ہے ان کا یہ کہنا کہ ظالم حکمران کس قدر بھی چالاک ہوں اگر ظلم اور زیادتی میں حد سے آگے بڑھ جائیں تو ان کا احتساب خود قدرت کرتی ہے اور پھر ایسی صورت خود ان کے بچاؤ کی تدبیریں کام نہیں آتی ہیں اور وہ خود ظالم اپنے دام میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ساحر کی مشہور زمانہ نظم جو انھوں نے ظلم پر کہی ہے 2018 میں بھی اتنی ہی تازہ ہے جیسے کہ ساحر نے اپنی آنکھوں سے کسی ظلم کو دیکھا ہو اور اس کی قلعہ بندی اور بنکر (Bunker) میں بھی اس کی جاں بخشی ممکن نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے چند اشعار:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہ تند ہے خرمن پہ لپ سکتا ہے
ذرا غور فرمائیے شاعر نے کیا کہا ہے کہ جب ظلم کو چھپانے اور لاش کو غائب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح سے قاتل کا پتا بتا دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ تخت و تاج کا خاتمہ ہوتا ہے۔ گو کہ ساحر اور جالب کی منزل ایک ہے ان کا قاری بھی ایک ہے۔ مگر انداز بیان میں فرق نمایاں ہے۔ ساحر لدھیانوی کی زندگی تو مفلسی میں نہیں گزری مگر جالب کی زندگی معاشی مشکلات کا سفر طے کرتی رہی، مانا کہ دونوں شعرا کی آرزوئیں پوری نہ ہوئیں اور ان کے احباب بھی یوں ہی گزر گئے البتہ وہ اپنا مشن پورا کرگئے۔
موجودہ صورتحال میں دنیا ایک بار پھر مکمل طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں قید ہوچکی ہے۔ پھر بھی ظلم جہاں جہاں بھی ہو رہا ہے ظالم اب اپنے ظلم کا اعتراف کرنے کی قوت نہیں رکھتے اور کوئی عجب نہیں کہ دنیا بھر میں تاج کے خلاف تحریکیں چلنے لگیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دور قلم کا ہے رفتہ رفتہ قلم نے اپنی قوت کو آشکارا کردیا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں قلم کا راج ہے وہ ایک الگ بات ہے مگر جس سرعت سے نجکاری کا پہاڑ بڑھا جا رہا ہے وہ ملک میں ہولناک تحریک کا جواز پیدا کرسکتا ہے، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں عوام کے 65 سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے سر پر سے چھتوں کو چھین لینا کوئی ترقی کا عمل نہیں بلکہ یہ تنزلی کا راستہ ہے۔ جس کو وزیر باتدبیر نے کوارٹروں کی چھتیں گرا کے پیسہ کمانے پر لگایا ہے یہ بالکل غلط راہ ہے ایسی چھوٹی نجکاری قرضے کا پوائنٹ صفر فیصد بھی نہ ہوگا۔
کراچی کے وہ لوگ جو تقریباً 65 برس سے پاکستان کوارٹرز کے مکین ہیں وہاں بلڈوزر چلا کر قرض اتارنا نہایت ہی برا سلوک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر مقامی لیڈر چاہیں گے تو کراچی کے عوام ان کی نفرت پر نکل سکتے ہیں ایسی صورت میں وزیر باتدبیر جو نجکاری کے خود کو ماہر سمجھتے ہیں اگر ان کو اس عمل پر مزید چلنے کی آزادی دی گئی تو حکومت کا زوال جلد ممکن ہے۔ پاکستان کوارٹر کے مکینوں کو بے دخل کرنا ایک غیر انسانی اور غیر عوامی عمل ہوگا جو کسی وقت بھی خرمن کو جلاسکتا ہے کیا واقعی کراچی کے متوسط طبقے کے لوگوں کو بے گھر کرنا واقعی یہ معاوضہ ہے۔