پاک امریکا خفیہ سفارتکاری افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائی

بریک تھرو جنرل کیانی، جان کیری میں سفارتکاری سے ہوا، براہ راست رابطوں میں امریکی سفارتخانے کو بھی بائی پاس کیا گیا


سید طلعت حسین June 20, 2013
بریک تھرو جنرل کیانی، جان کیری میں سفارتکاری سے ہوا، براہ راست رابطوں میں امریکی سفارتخانے کو بھی بائی پاس کیا گیا فوٹو: فائل

اسلام آباد اور واشنگٹن میں مہینوں طویل خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں ہی قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔

دوحہ مذاکرات کا آغاز گوانتاناموبے سے 5 افغان قیدیوں اور طالبان کی قید سے ایک امریکی فوجی کی رہائی کے ساتھ ہو گا۔ سفارتکاروں، فوجی حکام اور دفتر خارجہ کے ذرائع کے تفصیلی انٹرویوز سے معلوم ہوتا ہے کہ قطر میں طالبان کے دفتر کا افتتاح ایک پیچیدہ عمل کا حصہ ہے اور اس عمل کا مقصد ترمیم شدہ افغان آئین کے تحت تمام شراکت داروں کو انتخابی عمل کے ذریعے طاقت کا حصہ دار بنانا ہے۔ اس مذاکراتی عمل میں شریک ایک سفارتکار کے مطابق سفر اب شروع ہوا ہے اور یہ سفر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور انتخابات کے ساتھ ختم ہو گا۔

اس عمل میں شریک دوسرے عناصر ملا عمر کی قیادت میں مکمل ہم آہنگ ہیں۔ طالبان اور غیر پختون گروپس میں مختلف سطح پر مذاکرات ہوئے ہیں اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد آئینی ڈھانچے، آپریشنز میں مرحلہ وار کمی اور حامد کرزئی اگر امن عمل میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تو سیاسی طور پر ان سے نمٹنے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ ایک پاکستانی مذاکرات کار نے کہا کہ ہر ذہن میں اس مذاکراتی عمل کے بارے میں کچھ شکوک ہیں اور اس میں کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں، مگر امریکی انتظامیہ اور پاکستانی پالیسی سازوں نے میڈیا کی نظروں سے اوجھل مذاکرات کے ذریعے اس عمل کو انجام تک پہنچانے کیلیے ہم آہنگی پیدا کر لی ہے، اس حوالے سے سینیٹر جان کیری اور ہم میں براہ راست رابطے بھی ہوئے ہیں اور ان براہ راست رابطوںبعض اوقات امریکی سفارتخانے کو بھی بائی پاس کیا گیا اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی کچھ فاصلے پر رکھا گیا۔

دونوں اطراف کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ زیادہ تر ملا عمر کی قیادت میں طالبان لیڈرشپ کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک فوجی افسر کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس طالبان مسئلے کے 3 حل تھے، پہلا یہ کہ طالبان کو مارو اور ان کی لڑنے کی صلاحیت مستقل طور پر ختم کر دو، مگر اس میں وہ ناکام رہے۔ دوسرا حل تھا کہ طالبان سے شدید لڑائی کرو اور انھیں افغانستان کی نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دو تاکہ وہ افغان آئین اور صدر کرزئی کی قیادت کو مان لیں، مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ تیسرا حل جسے ایک مجبوری بھی کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کو افغانستان کی ایک قانونی طاقت مان لیا جائے، ان سے مذاکرات کیے جائیں اور حامد کرزئی کی حمایت ترک کرنے سمیت ان کے مطالبات مان لیے جائیں اور میرا خیال ہے کہ تیسرے حل پر عمل کیا جا رہا ہے۔

طالبان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی کا واضح اشارہ یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو امن کیلیے ضروری سمجھا جا رہا ہے اور انھیں دوحہ میں مذاکرات کی میز پر لایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل حقانی نیٹ ورک امریکیوں کیلیے انتہائی ناپسندیدہ تھا، سب سے زیادہ فوجی آپریشنز حقانی نیٹ ورک کیخلاف کیے گئے، انھیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا گیا، پاکستانی حدود میں انھیں ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور پاکستان پر بار بار الزامات لگائے گئے کہ قبائلی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ دفتر خارجہ میں ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اب امریکی آپریشنر کیلیے ترجیحی ہدف نہیں ہے اور امریکا کے ساتھ مذاکرات میں شریک ملا عمر کی نمائندہ ٹیم کا وہ اہم حصہ ہیں۔ اس عمل میں گہرا رابطہ 3 طرفہ ہے اور امریکا اسلام آباد کے بغیر طالبان کا مسئلہ اکیلے حل کرنے سے عاجز آچکا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں مذاکرات کیے اور یہاں تک کہ حقانی نیٹ ورک کے نچلے درجے کی قیادت سے بھی مذاکرات کیے گئے مگر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا کیونکہ کوئی بھی گروہ طالبان کی مرکزی قیادت کی منظوری کے بغیر امن عمل آگے نہ بڑھا سکا۔ جیسے جیسے امریکی جنگ کی قیمت بڑھی اور انخلا کا وقت قریب آیا تو اوباما انتظامیہ نے محسوس کیا کہ طالبان کے مسئلے کا حل اسی صورت میں ممکن ہے جب ملا عمر اس عمل کا حصہ بنے۔ دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق سخت رویہ رکھنے والے طالبان امریکی فورسز کوکسی بھی قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں ہیں اور انھیں اس چیز کا احساس ہے کہ وہ فوجی لحاظ سے جیت چکے ہیں اور سفارتی محاذ پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔



اسی موقع پر پاکستان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا شروع کیا اور طالبان کو بتایا کہ امن عمل کا حصہ بن کر وہ عالمی سطح پر پزیرائی حاصل کر سکتے ہیں اور افغان مسئلے کے جلدی حل کے ساتھ ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کا ہدف بھی حاصل کر سکتے ہیں، دوسری صورت میں اس تنازع میں کسی کو مکمل فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔ دفتر خارجہ کے حکام کا مزید کہناہے کہ انھیں واشنگٹن سے مطالبات کی ترتیب کو تبدیل کرنے کیلیے بھی طویل مذاکرات کرنا پڑے، طالبان کو صاف طور پر افغان آئین کو تسلیم کرنے اور تشدد کا راستہ چھوڑنے کے بجائے اعتماد سازی کا موقع دیا جائے۔

حکام نے بتایا کہ ان مذاکرات میں بریک تھرو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ذاتی سفارتکاری کے ذریعے ہوا۔ پاکستان میں جب انتخابات کا جوش و خروش تھا، سابقہ حکومت نے افغان معاملات میں دلچسپی بہت کم کر دی تھی، یہاں تک کہ اہم اجلاسوں کے نوٹس بھی توجہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے تب جنرل کیانی اور جان کیری کے مابین رابطوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جان کیری کے وزیر خارجہ بننے سے قبل بھی دونوں میں بہت اچھے تعلقات تھے اور اب ان میں باقاعدہ رابطہ ہوتا ہے۔ ان رابطوں میں کچھ ہفتے قبل بریک تھرو ہوا، جب طالبان نے اپنے بیانات کا ایک مسودہ واشنگٹن سے شیئر کیا، اس مسودے کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور وائٹ ہاؤس میں سراہا گیا۔

افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارتکار نے بتایا کہ طالبان نے اپنے اس مسودے میں غیر مبہم انداز میں امن سے وابستگی ظاہر کی ہے اور مذاکرات کے ذریعے آئینی عمل شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ افغان سرزمین امریکا کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا بھی کہا گیا ہے، اس بیان میں القاعدہ سے فاصلہ پیدا کرنے کا اہم عنصر بھی شامل ہے۔ اس مسودے پر قطر، پاکستان اور دوسری طاقتوں سے مشاورت کے بعد پیش قدمی کی گئی۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ واشنگٹن کی توقعات سے بہت زیادہ ہے اور واشنگٹن کی خوشی کا اندازہ طالبان کی طرف سے حتمی مسودہ موصول ہونے کے بعد مبارکباد کے پیغامات سے بھی ہوتا ہے۔ سینیئر فوجی حکام کے مطابق اس مذاکراتی عمل سے قبل پاکستان نے طالبان اور غیر پختون گروپوں کے درمیان مذاکرات کا بھی اہتمام کیا جس میں دونوں اطراف سے دشمنی ترک کرنے اور افغانستان میں استحکام لانے پر اتفاق ہوا، یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا اور اس سے پاکستان کی نیت پر شک کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی۔

پاکستانی حکام کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی نے ہر طرح سے کوشش کی کہ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان براہ راست رابطے کو روکا جاسکے۔ یہاں تک کہ دوحہ میں دفتر کھولنے کے حوالے سے بھی کرزئی کا خیال تھا کہ یہ سب کابل میں ان کے دفتر کے ذریعے ہونا چاہیے مگر کسی طرف سے ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ کرزئی کی تنہائی کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ واشنگٹن نے کابل کو بائی پاس کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے اور یہی طالبان کا اہم مطالبہ تھا کیونکہ وہ کابل حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ کرزئی کو غیر پختونوں کے محاذ پر بھی ناکامی ہوئی اور انھوں نے طالبان سے رابطے شروع کر دیے، یہاں تک کہ امن کونسل نے پاکستان پر تنقید میں کرزئی کا ساتھ نہیں دیا۔ ایک سفارتی ذریعے نے پاکستانی حکام اور امن کونسل میں ملاقاتوں کے حوالے سے مواد دکھایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرزئی اور امن کونسل میں کافی فاصلہ ہے اور کونسل نے کرزئی کو 'غیرمستحکم'، 'افغان امن کیلیے خطرہ' قرار دیا۔ ایک غیر ملکی سفارت کار کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں جب کرزئی نے دوحہ میں طالبان کے دفتر کھولنے پر تنقید کی تو انھیں امریکا نے چپ کرایا۔ افغان صدر کا واشنگٹن، طالبان ابتدائی مذاکرات میں شریک نہ کرنے پر نئی سیکیورٹی ڈیل پر مذاکرات ختم کرنے کا بیان انتہائی سخت ہے۔

کرزئی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امن عمل کے حوالے سے امریکا کے بیانات اور عمل میں عدم مطابقت ہے اس لیے افغان حکومت نے کابل میں واشنگٹن کے ساتھ جاری مذاکرات معطل کر دیے ہیں مگر ان مذاکرات کی معطلی سے کابل کو نقصان بھی ہو سکتا ہے کیونکہ کرزئی کو صرف امریکا کی حمایت حاصل ہے، پاکستان اس سے قبل ہی امریکا کو بتا چکا ہے کہ وہ کرزئی کو بچا سکتے ہیں یا افغان امن کو۔ اسلام آباد نے کرزئی کے پاکستان مخالف عناصر سے رابطوں کے ثبوت واشنگٹن کو فراہم کیے ہیں اور ان میں تازہ ترین زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی پر حملہ کرنے والوں کو ہدایات قندھار سے ملی تھیں۔

بلوچستان میں تعینات ایک سینیئر حکومتی شخصیت نے بتایا کہ کابل کے حمایت یافتہ عناصر آخری حملے کر رہے ہیں اور انھیں حامد کرزئی کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کی طرف سے کرزئی کے خلاف ایک اور واضح پیغام گزشتہ ہفتے سامنے آیا، جب کابل میں سہ فریقی مذاکرات ہونے تھے جس میں افغان اور ایساف کمانڈرز کو شرکت کرنا تھی مگر پاکستان نے اصرار کیا کہ مذاکرات کا مقام بدل کر پاکستان کر دیا جائے کیونکہ جنرل کیانی افغانستان نہیں جانا چاہتے۔ دفتر خارجہ کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ہم نے کرزئی کا معاملہ امریکا پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ امریکا کا آدمی ہے اور وہی اس سے معاملات طے کریں گے۔

نو منتخب وزیر اعظم کو اندازہ ہو گیا ہے کہ افغان امن عمل کتنا پیچیدہ ہو چکا ہے اور پاکستان کو اس میں مرکزی کردار ادا کرنا ہے اور وہ جنرل کیانی کے ساتھ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر مرکزی قائدین کی موجودگی میں مستقل بنیاد پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ یہ ملاقاتیں افغان مسئلے سمیت اردگرد بڑے واقعات کے حوالے سے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو افغان مسئلے کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی گئی اور دوحہ میں طالبان کے دفتر کے افتتاح کے دن انھیں پیش رفت کے حوالے سے مکمل طور پر آگاہ کیا گیا۔ ن لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف نے سب سے پہلے آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں افغان مسئلے پر پیش رفت پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں