شام میں لاپتا ہونے والا جاپانی صحافی منظر عام پر آگیا
جاپانی صحافی نے غیر قانونی طور پر شام کی سرحد عبور کرنے پر اپنے ہم وطنوں سے معافی بھی مانگی
جنگ زدہ شام کی کوریج کے لیے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے فری لانس جاپانی صحافی تین سال بعد اپنے ملک لوٹ آئے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپان کے فری لانس صحافی جمپئی یاسودہ تین سال لاپتا رہنے کے بعد اپنے ملک پہنچ گئے۔ وہ ترکی کے راستے شام میں داخل ہوتے ہی شدت پسند جماعت کے کارندوں کے ہاتھوں چڑھ گئے تھے۔
ادلب سے اغوا ہونے والے جاپانی صحافی تین سال تک النصرہ فرنٹ کی قید میں رہے بعد ازاں شامی حکومت کی جانب سے النصرہ کو پسپا کیے جانے کے بعد جاپانی صحافی کو غیر شامی عسکری جماعت حراس الدین کے حوالے کیا گیا جس نے تاوان کی ادائیگی کے بعد صحافی کو رہا کردیا۔
شام میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے گروپ کے سربراہ المرصد کا کہنا ہے کہ جاپانی صحافی کی رہائی بھاری تاوان ادا کرنے کے نتیجے میں ہوئی، یہ رقم النصرہ کو قطر کی معرفت سے ادا کی گئی۔ جاپان نے تاوان کی رقم دہشت گردی میں استعمال ہونے کے خدشے کے پیش نظر رقم دینے سے انکار کردیا تھا۔
فری لانس صحافی جمپئی یاسودہ تنازعات میں گھرے ممالک اور جنگ زدہ علاقوں کی رپورٹنگ کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اغوا ہونے کے بعد ان کی پہلی تصویر سوشل میڈیا پر 2016ء میں منظر عام آئی تھی جس میں ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور خود کو بچانے کے آخری موقع سے استفادے کی اپیل کررہے تھے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپان کے فری لانس صحافی جمپئی یاسودہ تین سال لاپتا رہنے کے بعد اپنے ملک پہنچ گئے۔ وہ ترکی کے راستے شام میں داخل ہوتے ہی شدت پسند جماعت کے کارندوں کے ہاتھوں چڑھ گئے تھے۔
ادلب سے اغوا ہونے والے جاپانی صحافی تین سال تک النصرہ فرنٹ کی قید میں رہے بعد ازاں شامی حکومت کی جانب سے النصرہ کو پسپا کیے جانے کے بعد جاپانی صحافی کو غیر شامی عسکری جماعت حراس الدین کے حوالے کیا گیا جس نے تاوان کی ادائیگی کے بعد صحافی کو رہا کردیا۔
شام میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے گروپ کے سربراہ المرصد کا کہنا ہے کہ جاپانی صحافی کی رہائی بھاری تاوان ادا کرنے کے نتیجے میں ہوئی، یہ رقم النصرہ کو قطر کی معرفت سے ادا کی گئی۔ جاپان نے تاوان کی رقم دہشت گردی میں استعمال ہونے کے خدشے کے پیش نظر رقم دینے سے انکار کردیا تھا۔
فری لانس صحافی جمپئی یاسودہ تنازعات میں گھرے ممالک اور جنگ زدہ علاقوں کی رپورٹنگ کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اغوا ہونے کے بعد ان کی پہلی تصویر سوشل میڈیا پر 2016ء میں منظر عام آئی تھی جس میں ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور خود کو بچانے کے آخری موقع سے استفادے کی اپیل کررہے تھے۔