ہاؤسنگ سوسائٹیز کا فرانزک آڈٹ بڑے پیمانے پر گھپلوں کا انکشاف
ملک بھر میں 5967 ایسی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں جن کی کوئی رجسٹریشن ہی نہیں
ایف آئی اے نے ملک بھر کی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا فرانزک آڈٹ مکمل کرلیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بڑے پیمانے پر گھپلوں کا انکشاف ہوا ہے۔ 631 کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سے 452 کا فرانزک آڈٹ کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ صرف 51 سوسائٹیز قانون کے مطابق بنائی گئی ہیں۔ ملک کی 3186 نجی ہاؤسنگ اسکیموں میں سے 2814 کا آڈٹ بھی کیا گیا تو پتہ چلا کہ صرف 248 قانون کے مطابق ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انجینئرنگ یونیورسٹی ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں کروڑوں کا فراڈ
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 5967 ایسی ہاؤسنگ اسکیمیں بھی ہیں جن کی کوئی رجسٹریشن ہی نہیں۔ کوآپریٹو سوسائیٹیوں کے لیے متنازعہ اراضی کو خریدا گیا جبکہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ٹکڑوں میں منتشر زمین خریدی گئی۔
نجی ہاؤسنگ میں عام لوگوں کیساتھ فراڈ ہوا اور درخواست گزاروں کو پیسے لیکر پلاٹ نہ ملے اور حد سے زیادہ پلاٹ فائل فروخت کرکے بڑی رقم خرد برد کی گئی۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی جانب سے قبضہ گروپوں کو پیسے دیے گئے جب کہ پلاٹس تبادلوں کی مد میں وصول فیس کبھی کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کو ادا نہیں کی گئی۔ پیسے کی گردش کے لیے غیر مصدقہ اکاؤنٹ کھولے گئے جب کہ رجسٹرار آفس اور آڈیٹر سے یہ اکاونٹس چھپائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بڑے پیمانے پر گھپلوں کا انکشاف ہوا ہے۔ 631 کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سے 452 کا فرانزک آڈٹ کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ صرف 51 سوسائٹیز قانون کے مطابق بنائی گئی ہیں۔ ملک کی 3186 نجی ہاؤسنگ اسکیموں میں سے 2814 کا آڈٹ بھی کیا گیا تو پتہ چلا کہ صرف 248 قانون کے مطابق ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انجینئرنگ یونیورسٹی ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں کروڑوں کا فراڈ
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 5967 ایسی ہاؤسنگ اسکیمیں بھی ہیں جن کی کوئی رجسٹریشن ہی نہیں۔ کوآپریٹو سوسائیٹیوں کے لیے متنازعہ اراضی کو خریدا گیا جبکہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ٹکڑوں میں منتشر زمین خریدی گئی۔
نجی ہاؤسنگ میں عام لوگوں کیساتھ فراڈ ہوا اور درخواست گزاروں کو پیسے لیکر پلاٹ نہ ملے اور حد سے زیادہ پلاٹ فائل فروخت کرکے بڑی رقم خرد برد کی گئی۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی جانب سے قبضہ گروپوں کو پیسے دیے گئے جب کہ پلاٹس تبادلوں کی مد میں وصول فیس کبھی کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کو ادا نہیں کی گئی۔ پیسے کی گردش کے لیے غیر مصدقہ اکاؤنٹ کھولے گئے جب کہ رجسٹرار آفس اور آڈیٹر سے یہ اکاونٹس چھپائے گئے۔