کراچی میں امن کی خاطر
قیام پاکستان کے بعد تو یہ شہر مکمل طور پر شہر مہاجرین بن گیا۔
SARGODHA:
ابھی بھی لسانی ذہنیت کے حامل لوگوں کے دلوں سے نفرت کا غبار نہیں نکلا ہے۔ وہ پھر اس شہر کو ہنگامے فساد کی نذر کرانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے مہاجروں کے خلاف کوئی ایسی کارروائی عمل میں آئے کہ وہ لسانیت کی چنگاری کو پھر سے شعلے کا روپ دے سکیں۔
سب ہی جانتے ہیں کہ تیس برس تک یہ شہر نفرت کی آگ میں جھلستا رہا ہے۔ نفرت پھیلانے والوں نے پاکستانیت اور اسلامی بھائی چارے کی قبر تک کھود کر رکھ دی تھی۔ بھائی کو بھائی سے جدا کردیا تھا۔ نفرت کے اس کھیل سے انھوں نے مہاجروں کو وہ نقصان پہنچایا جس کا خمیازہ برسوں تک پورا نہیں ہوسکے گا۔ ہڑتالوں اور ہنگاموں سے معیشت اور صنعت کا بھٹہ بٹھادیا گیا، اس طرح دانستہ یا نادانستہ ''را'' کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کی بھرپورکوشش کی گئی۔
خیر سے مہاجروں کے دلوں میں موجزن پاکستان کی محبت بالآخر رنگ لائی اور اس نے نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کردیا مگر پھر وہی بات کہ ابھی بھی کچھ عناصر شہر کو پہلی جیسی حالت میں واپس لے جانے کے لیے پر تول رہے ہیں، لندن سے تو روز ہی سندھ میں مہاجروں پر ظلم وستم کی داستانیں گھڑی جا رہی ہیں۔
مہاجروں پر ظلم ہی نہیں ان کی نسل کشی کے خلاف اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے احتجاج کیا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ احتجاج میں پانچ افراد سے زیادہ نہیں جڑ پاتے۔ پھر لندن سے واشنگٹن وفود روانہ کیے جاتے ہیں جو امریکی اہم شخصیات سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یہ ملاقاتیں کون طے کراتا ہے، اس بابت بھی سبھی جانتے ہیں۔
کراچی کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ کراچی کی بنیاد 1729 میں پڑی، اس وقت اسے ایک قلعہ بند شہر بنایا گیا تھا۔ اس وقت شہر کی فصیلوں کے اندر جو بھی لوگ آباد تھے وہ تمام مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ اس شہر کو بسانے والا ہندو تاجر بھوجومل خود شکارپورکا رہائشی تھا۔ ان تمام لوگوں کی یہاں آباد ہونے کی وجہ اس شہرکی سنہری بندرگاہ تھی، اس وقت سندھ پرکلہوڑوں کی حکومت تھی۔
تالپور دورکے بعد انگریزوں کا دور شروع ہوا تو یوپی بہار، بمبئی، گجرات، سرحد، بلوچستان اور پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگ آکر کراچی میں آباد ہوئے۔ مختلف علاقوں کے لوگوں کے یہاں آنے سے شہری مسائل تو ضرور پیدا ہوئے مگر زبان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا کیونکہ پورے ہندوستان میں اردو جسے ہندی بھی کہا جاتا ہے عام بول چال کی زبان رہی ہے وہی مشترکہ زبان کراچی میں بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
پھر قیام پاکستان کے بعد تو یہ شہر مکمل طور پر شہر مہاجرین بن گیا۔ اس وقت کراچی کی کل آبادی پونے چار لاکھ تھی پھر مہاجرین کی یہاں آمد سے صرف چار سال بعد یعنی 1951 میں یہ ساڑھے گیارہ لاکھ ہوگئی تھی۔ اس وقت مہاجرین کی رہائش کے مسئلے سے خود قائد اعظم پریشان تھے مگر پاکستان کی محبت میں مہاجرین نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی بستیاں آباد کیں اور ان میں جھونپڑیاں بنا کر رہنے لگے۔
سرکاری ملازمین کے لیے کوارٹرز تعمیر کیے گئے تھے انھیں مہاجر سرکاری ملازمین کو رہائش کے لیے دیا گیا تھا۔ اب اکہتر برس سے وہ ان کوارٹرز میں آباد ہیں ان کی نسلیں یہیں پلی بڑھی ہیں اور اسی جگہ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا ہے۔ وہ جب سے یہاں آباد ہیں انھیں یہاں سے ہٹانے کے لیے کوئی ریڈ نہیں کیا گیا۔ اکثر لوگوں نے اپنے کوارٹرز پر لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق ڈھال لیا ہے۔
اب اکہتر برس سے رہائش پذیر لوگوں کو وہاں سے ہٹانے اور جگہ خالی کرانے کے لیے پولیس فورس کا استعمال کرنا مارنا پیٹنا اور لاٹھی چارج کرنا کسی کو بھی اچھا نہیں لگا۔ اس مار دھاڑ میں کئی ضعیف خواتین زخمی ہوئیں اور بزرگ حضرات کو بھی پولیس کی لاٹھیوں سے سر پر چوٹیں آئی ہیں، گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
قابل تعریف بات یہ ہے کہ رہائشیوں کی جانب سے مزاحمت تو ضرور کی گئی مگر کسی نے بھی پولیس کا مقابلہ کرنے کا سوچا تک نہیں۔ یہ تمام رہائشی سرکاری ملازمین دراصل ان سرکاری ملازمین کی اولاد ہیں جنھوں نے تحریک پاکستان میں دیوانہ وار حصہ لیا تھا اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اس کی محبت میں اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر یہاں چلے آئے تھے۔ یہی وہ اولین ملازمین تھے جو اس وقت حکومت کی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے گھروں سے کاغذ قلم اور پنسل لے کر دفتر جاتے تھے اور سرکاری کاموں کو آگے بڑھاتے تھے۔
پاکستان کوارٹرز کو پولیس کے ذریعے خالی کراتے وقت کئی مقامی سیاسی کارکن بھی موجود تھے جن کی موجودگی سے تقویت پاکر وہاں کے رہائشی غیر قانونی حرکت بھی کرسکتے تھے اور معاملے کو آگے بڑھاسکتے تھے مگر ایسا بالکل نہیں ہوا۔ تاہم کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ بات بگڑ جائے اور ہنگامہ آرائی کی کوئی صورت بن جائے۔ بعد میں ایم کیو ایم بہادر آباد والوں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرکے پولیس کی کارروائی کو زیادتی قرار دیا اور انھوں نے رہائشیوں کے حق میں آواز بلند کی۔
اتفاق سے جس وقت پولیس کارروائی جاری تھی ایم کیو ایم کے ایک سابق نامور رہنما بھی وہاں موجود تھے انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اتنا توکہہ ہی دیا تھا کہ یہ مہاجروں کو پاکستان بنانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ جملہ حالات کو خراب بھی کرسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور شاید آیندہ بھی ایسا نہ ہوسکے اس لیے کہ مہاجر اب اپنے مفادات کے خلاف کسی بھی سازشی حربے کو برداشت نہیں کرسکتے پھر مہاجروں میں بیداری پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مہاجروں نے ہی ڈھائی سال قبل ایک ایسی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی ہے جس نے لسانیت، عصبیت اور فرقہ واریت کے خلاف زبردست جہاد کیا ہے اور نفرت پھیلانے والوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
چنانچہ اب ایسے لوگ اجاگر تو نفرت کی بات نہیں کرتے مگر موقعے کی تلاش میں ضرور لگے رہتے ہیں۔ پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے کا پولیس ایکشن ضرور ان عناصر کی دلی مرادیں پوری کراسکتا تھا اور شہر میں بدامنی پھیلانے کا راستہ ہموار کرسکتا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ وہاں کے رہائشیوں کو درپردہ بھڑکانے کی کوشش کی گئی ہو مگر اب مہاجر ہوشیار ہوگئے ہیں انھوں نے گزشتہ تیس برسوں میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اور اب وہ کسی بھی نام نہاد رہنما کے کہے میں آکر اپنے شہر کو پھر آگ میں نہیں جھونک سکتے اور نہ ہی اپنے ہی ملک کے خلاف کسی سازش کو برداشت کرسکتے ہیں۔
یہ بات بھی حکومت اور عدلیہ کو ضرور نوٹ کرنی چاہیے کہ کراچی سے منتخب ہونے والے ایک سابق وفاقی وزیر نے پاکستان کوارٹرز کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق کے دستاویزات جاری کروائے تھے اگر یہ دستاویزات غیر قانونی تھے تو حکومت کے مجاز ادارے کی جانب سے کیوں اسی وقت انھیں رد نہیں کردیا گیا۔
اب کراچی کے تمام طبقات کی عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے عاجزانہ درخواست ہے کہ پاکستان کوارٹرز ہی کیا، مارٹن کوارٹرز وغیرہ کے رہائشیوں کو بھی بے گھر ہونے سے بچایا جائے اور انھیں یہ جگہ باقاعدہ الاٹ کردی جائے کیا ان کے بزرگوں کی پاکستان سے محبت اور فرض شناسی کا اتنا بھی صلہ انھیں نہیں دیا جاسکتا پھرکراچی کے امن کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔