’’پاکستان سٹیزن پورٹل‘‘ سے مسائل حل ہو جائیں گے
اداروں کو ایسا فعال اور مستعد بنائیں کہ لوگوں کی دہلیز پر ان کے مسائل حل کیے جاسکیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ؟ یہ وہ جملہ ہے جس پر عوام ہمیشہ مرلی بجانے والے حکمرانوں کے آگے بھیڑوں کی طرح گردن ہلاتے رہے ہیں ۔ کوئی دہشت گردی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیکر ''سب سے پہلے پاکستان '' کی دھن سناکر عوام پر حکومت کرتا رہا تو کوئی جمہوریت کی بحالی کو ملک کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے عوام کو اپنی دھن پر نچاتا رہا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی تباہی کو قرار دیتے ہوئے خزانہ خالی ہونے کے Sad Songسنائے جارہے ہیں، اور ساتھ ہی اس کا سبب سابقہ حکومتوں کی بدعنوانی کو ٹھہراتے ہوئے ملکی خزانے میں پیسہ جمع کرانے کی دھن بڑی زور شور سے بجارہے ہیں اور عوام ہمیشہ کی طرح اپنے بنیادی حقوق ، اپنی فلاح و بہبود اور ملکی استحکام کی فکر چھوڑ کر ایک مرتبہ پھر اس نئی مرلی کی دھن پر نہ صرف گردن ہلارہے ہیں بلکہ اس مرتبہ تو پوری طرح جھوم رہے ہیں ۔
یہ اس دھن پر مگن ہوکر ناچنے کا ہی کمال ہے کہ جس طرح 1947میں قیام پاکستان کے فوراً بعد تعمیر پاکستان کی اپیل پر عوام نے اپنا مال و متاع حکومت ِ وقت کے حوالے کیا تھا ، اسی طرح ''نئے پاکستان '' کی تعمیر کی اپیل پر بھی عوام بلا کچھ سوچے سمجھے اپنا مال متاع موجودہ حکومت کے حوالے کررہے ہیں ۔
سوال یہ پید اہوتا ہے کہ 70سال قبل تو ملک نیا بنا تھا اس لیے ضرورت پیش آئی لیکن اس مرتبہ یہ صورتحال کیوں پیش آئی ہے ۔ اور اُس وقت دیے گئے مال و متاع کے ساتھ ساتھ گذشتہ سات عشروں میں حاصل کیے گئے بیرونی امداد و قرضوں، ملکی وسائل سے ہونے والی آمدنی اور ٹیکسز کا حساب کتاب کیا ہے ؟ وہ قرضے اور امداد کہاں اور کیسے خرچ ہوئے ؟ ان سے ملک کی حالت کیوں تبدیل نہیں ہوئی ؟ اور نئی حکومت کے آنے سے صرف 3ماہ قبل اسٹیٹ بینک کی جانب سے دکھائی گئی ملکی خزانے کی مستحکم صورتحال ایک دم دیوالیہ کیسے بتائی جارہی ہے ؟
یہ ہیں وہ سوال جو ہمارے روشن مستقبل اور ملکی اُمور میں بدعنوانی کے خاتمے سے جڑے ہیں ۔اورموجودہ حکومت کی تبدیلی کا نظریہ شفافیت اور احتساب جیسے ان بنیادی نکتوں پر قائم بتایا جارہا ہے۔ ان ہی نکتوں کے مد نظر حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس میں ''پاکستان سٹیزن پورٹل'' کے نام سے ایک شکایت سیل قائم کیا ہے ۔ اس شکایتی سیل کا بنیادی مقصد یہی شفافیت اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنانا اور عوام کو حکومت تک آسان رسائی دینا بتایا جارہا ہے ۔
جہاں تک بات ہے سرکار کے خلاف شکایتوں کے اندراج کی، تو یہ طریقہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ یہ طریقہ مختلف صورتوں میں عرصہ دراز سے ملک میں جاری و ساری ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا شکایتی مرکز ، محکمہ داخلہ کا شکایتی مرکز ، محکمہ پولیس و رینجرز کا شکایتی مرکز اور محتسب اعلیٰ کے ماتحت بھی شکایات کا نظام کام کرتا رہا ہے ۔ لیکن یہ معاشرے کے لیے مکمل طور پر سود مند نہیں رہا کیونکہ شکایت پر کارروائی صرف انفرادی احتساب کا نام ہے جو صرف پبلک سے براہ راست جڑے محکموں کے عملے سے متعلق ہوتی ہیں ۔ جب کہ ہمارا معاشرہ اجتماعی اور دو طرفہ بدعنوانی جیسے رشوت ستانی ، اقربا پروری ، قانونی پیچیدگیوں اور اختیارات میں سیاسی و انتظامی دخل اندازی جیسی برائیوں سے بھرا پڑا ہے۔
ملک میں انسانی بنیادی مسائل کی ابتر صورتحال ہے اور عالمی سطح پر ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اس کی ایک چھوٹی جھلک ان اعداد و شمار میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان بے ایمانی اور بدعنوانی میں 117ویں نمبر پر ، جہالت میں 197ویں ملکوں میں 143ویں نمبر پر ہے یہاں تک کہ بنگلادیش ، فلپائین اور سری لنکا جیسے غریب ممالک بھی ہم سے آگے ہیں۔
برطانوی ادارے کیو ایس کی جانب سے 2018کی درجہ بندی کی جاری کی گئی رپورٹ میں دنیا کی 300بہترین جامعات میں ایک بھی پاکستانی جامعہ شامل نہیں جب کہ سعودی عرب کی 3بھارت کی 6، لبنان کی ایک اور بنگلادیش کی بھی ایک جامعہ شامل ہے ۔ ہم جعلی ادویات میں بھی دنیا میں 13ویں نمبر پر ہیں ۔ دنیا کے طاقتور پاسپورٹ کی انڈیکس میں بھی ہم 90نمبر پر ہیں۔
ہمارا بینکنگ نظام ایسا ہے کہ بقول وزیر اعظم سالانہ 10بلین ڈالر ملک سے منی لانڈر ہوجاتے ہیں ۔ نیب کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے اب تو سپریم کورٹ نے بھی نیب کی بناوٹ اور طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے ۔ یہ حال ہماری انتظامی نااہلی کی بدولت ہے ۔ ایک مسئلہ ملک میں قومی و بین الاقوامی سطح کی NGOsکی بھرماربھی ہے جو غیر ملکی مفادات کے تحت کام کرتی ہیں ۔
وزیر اعظم بتائیں کہ کس طرح ان مسائل کوٹیکنالوجی کے حامل اس ویب پورٹل سے حل کریں گے ۔ جب کہ عمران خان بطور وزیر اعظم اپنے پہلے قوم سے خطاب سے لے کر اب تک کئی بار انتظامی اداروں میں سیاسی مداخلت کو روکنے کے اعلانات کرتے رہے ہیں لیکن عملاً اس کے برعکس کیا جارہا ہے ۔اقربا پروری اور اداروں کے اختیارات میں دخل اندازی جیسے واقعات ان کی حکومت میں بڑے پیمانے پر نظر آئے ہیں۔
آئی جی پنجاب کا سندھ تبادلہ ، منشا بم و پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کا زمینوںپر قبضوں میں ملوث ہونا، تھانوں میں گھس کر پولیس سے تکرار و جھگڑے آئے دن کا کام بن گیا ہے ۔لیکن سب سے نرالہ واقعہ وفاقی وزیر ِ سائنس و ٹیکنالوجی کی محض فون کال نہ اٹھانے پر وزیر اعظم کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کے زبانی احکامات کا عمل بھی ناتجربہ کاری ، اقربا پروری کا کھلا ثبوت اور اداروں میں آزادی و فعالیت پر سوالیہ نشان ثابت ہواہے ۔
قدیم زمانے میں بادشاہوں یا پھر انگریز کے زمانے میں وائسرائے کو یہ اختیارات تھے کہ وہ جسے چاہے ہٹانے کے احکامات جاری کردیتے تھے لیکن یہ نہ تو بادشاہی راج ہے اور نہ ہی عمران خان وائسرائے ہیں بلکہ وہ ایک جمہوری ریاست کے منتخب کردہ وزیر اعظم ہیں جو آئینی و قانونی پابندیوں کے پابند ہیں ۔ ایسے میں اس ویب پورٹل کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے ؟
پاکستان سٹیزن پورٹل کے قیام کا مقصد غریب اور نادار لوگوں کو حکومت تک رسائی اور ان کی داد رسی کے لیے بتایا جارہا ہے ۔اس موقف پر بھی وزیر اعظم زمینی حقائق سے ناواقف نظر آتے ہیں۔ زمینی حقیقتیں یہ ہیں کہ ملک کی 65فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جو ٹیکنالوجی کا استعمال اور تحریری طور پر درخواست دینا تو رہا ایک طرف براہ راست منہ زبانی بھی اپنا مدعا بیان نہیں کرپاتے ۔ ایسے میں کہاں چھاچھرو تھر پارکر ، روہی چولستان اور ڈیرہ مگسی کے سادہ لوح لوگ اس ویب پورٹل پر شکایات بھیجنے کے قابل ہوں گے ؟
غریب کو انصاف و حق دینا چاہتے ہیں تو اداروں کو ایسا فعال اور مستعد بنائیں کہ لوگوں کی دہلیز پر ان کے مسائل حل کیے جاسکیں ۔ اس سے توبراہ راست اسمبلی ارکان کی معرفت مسائل سننے کے دوروں پر مبنی پروگرام کی تجویز بہتر تھی ۔ جن میں وفاقی ، صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کے موقع پر موجود ہونے کی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بھی امید ہے ۔
ویب پورٹل کے تین حصے بنائے گئے ہیں ۔ (1) پاکستانی شہری (2) بیرون ِ ملک پاکستانی (3) غیر ملکی لوگوں کے لیے ۔ دیکھا جائے تو غیر ملکیوں کو ضرورت کیا ہے ہمارے وزیر اعظم کو شکایت کرنے کی ؟ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے پاکستان میں ان کے سفارت خانے موجود ہیں ، اور وہ اپنے لوگوں کے مسائل حل کرتے بھی ہیں ۔ رہی بات بیرون ِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تو ہوسکتا ہے یہ پورٹل ان کے کسی کام آئے لیکن ایک بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ وہ سب اس ملک میں موجود مسائل سے پُر معاشرہ چھوڑکر جن ممالک میں ہیں وہاں کے بجائے یہاں کے اُمور میں کیونکر دلچسپی لیں گے ۔ انتظامی اُمور میں بہتری کے حکومتی اقدامات کابھی کیا پتہ کیسے ہوں گے؟
وزیر اعظم کو یہ بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ملک خواہشات پر نہیں زمینی حقائق کی بنیاد پر ٹھوس قانون سازی اور اس پر نیک نیتی سے عملدرآمد سے چلتے ہیں۔ حکومت کی 3ماہ کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو حکومت ملک میں دن بہ دن مہنگائی میں اضافے کے ایک نکاتی ایجنڈہ پر کام کرتی نظر آرہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ایسی چیز ہے جس سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے اور اس کا براہ راست زیادہ تر اثر غریب عوام پر پڑتا ہے۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں فی بیرل اضافہ ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں فی لیٹر اضافہ کی سفاک پالیسی ہے ۔
دوسری جانب اداروں کو پرائیوٹائز کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے ۔ یہ ساری مہنگائی کے بم اس لیے گرائے جارہے ہیں کہ 7نومبر کو آئی ایم ایف کا وفد جب پاکستان آئے تووہ حکومتی اقدامات دیکھ کر پاکستان کو قرضہ دینے سے انکار نہ کرسکے ۔ اس لیے اس کی تمام تر فرمائشیں پوری کی جارہی ہیں ۔ غلط معاشی پالیسیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے استحصالی ایجنڈہ پر عمل کی بدولت ہی ملک معاشی ابتری کے دلدل میں دھنس چکا ہے ۔ اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
اگر IMFکے قرضوں سے ملکی معیشت سدھرنے کے امکانات ہوتے تو کئی عشروں سے لیا گیا قرض کیوں پاکستان کی معیشت کو سہارا نہ دے سکا ؟ کسی بھی ملک میں بہتری اس کے زمینی حقائق کی بناء پر اختیار کی جانے والی پالیسیوں سے جڑی ہوتی ہے نہ کہ دوسرے ملکوں اور اداروںسے امداد و قرضوں کی بناء پر ان کے مفادات کے لیے کام کرنے سے ۔ پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ دوسروں پر بار بننے کی قوت میں کمی آنی چاہیے ۔
ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہم اس وقت چین سے 22ارب روپے کی مصنوعات درآمد کرتے ہیں جب کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ18ارب ڈالر ہے اگر ہم مصنوعات درآمد کرنے کے بجائے پیداوار کی پالیسی اپنائیں تو یہ خسارہ منافع میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔ جس کے لیے پائیدار ترقی کے اصولوں کی حامل پالیسیاں بنانی ہوں گی ۔ پیسہ پیسہ کرتی یہ حکومت سوئٹرز لینڈ کے بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے 200بلین ڈالر ز کو پاکستان لانے کے لیے قانون سازی کرنے کے بجائے غریب عوام سے چندہ کے نام پر موبائل لوڈ اور ریلوے کرایوں میں زبردستی بھتہ وصول کرنے کے ڈرامے رچائے ہوئے ہے۔
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 3ماہ کی کارکردگی میں ایک بڑا دھچکا ماہ اکتوبر میں ٹیکس وصولیوں کے مقرر کردہ ہدف سے وصولیوں میں 26ارب کا شارٹ فال ہے ۔ دوسری جانب سی پیک کا غور سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے 80فیصد فائدہ چین کو ہے جب کہ ہم صرف 20فیصد فائدے کے حقدار ہیں اور وہ بھی انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور قرضوں کی صورت میں ، ورنہ تجارتی لحاظ سے تو ہماری مصنوعاتی پالیسی ہے نہیں ، جب کہ چین کو اپنی تجارت کے لیے گرم سمندری راستے کی ضرورت تھی جس کے ذریعے وہ یورپ و دیگر دنیا سے باآسانی منسلک ہوسکے۔
تو سی پیک کے موجودہ سیٹ اپ سے بھی ہمیں پائیدار ترقی کی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والے فریق بنیں تو اس کے لیے ملکی بیرونی تجارتی پالیسی پر نئے سرے سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس چندے ، IMFاور دیگر ملکوں سے امداد و قرضے اور پٹرولیم مصنوعات ادھار پر لینے کے ساتھ ساتھ غریب عوام پر مالی بوجھ ڈال کر اُن کے جینے کے دروازے بند کرنے کے پروگرام کے علاوہ کوئی بھی معاشی مہارتی پالیسی نظر نہیں آتی ۔
اس لحاظ سے ملک میں معیشت لاوارث نظرآرہی ہے ، خارجہ پالیسی بھی واضح نہیں اور گورننس کو تو پتلی تماشہ کا کھیل بنادیا گیا ہے ۔ کہاں گائے کا تنازعہ اور حل آئی جی کا تبادلہ؟ حکومتی جماعت کو جن چیزوں پر اپوزیشن میں بیٹھ کر اعتراض تھا اقتدار میں آکر انھی پر عمل کررہی ہے ۔
رہی بات بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات پر کارروائیاں، تویہ کام تو نیب اور اینٹی کرپشن محکمے بھی کررہے ہیں لیکن نہ وہ مؤثر ہیں اور نہ ہی حکومت کوئی دوسری پالیسی دے سکی ہے ۔ جب کہ یہ ویب پورٹل بھی ان ہی محکموں کے توسط سے کام کرنے کے نظام کو Followکرے گا تو پھر کیا فائدہ ایسی تبدیلی کا ؟
ان حقائق کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شکایتی سیل محض ٹیکنالوجی کا استعمال اور سطحی مسائل سے وابستہ ہے جب کہ ملک کے تمام تر مسائل گڈ گورننس اور اداراتی وقومی آئینی برابری کی بنیاد کی پالیسیوں سے جڑے ہیں جو صرف ملک کو کثیرقومی معاشرہ تسلیم کرتے ہوئے قوموں کو ملکی و عوامی فیصلوں میں مساوی حقوق دینے ، اداروں سے روایتی بیوروکریسی کو حاصل مراعتی پالیسی کے خاتمے کے مؤثر آئینی اقدامات اور حکومت و سرکاری عملداروں کو پبلک سرونٹ کی تعریف کا پابند بنانے سے ممکن ہے۔
ان کاموں کے لیے ملک میں محکماتی قانون سازی ، پارلیمانی کمیشن کے ماتحت مانیٹرنگ کا مؤثر نظام اور آئینی تحفظ و اختیارات کو صوبائی خودمختاری کے ماتحت نچلی سطح پر منتقلی جیسے بنیادی کام ہی معاشرے کے روشن مستقبل کی امید بن سکتے ہیں۔
ملک میں ادارے تبھی مضبوط ہوں گے جب انھیں آزادی سے کام کرنے دیا جائے گا۔ جس کے لیے حکومت کے پاس سندھ میں کام کرنے والا واٹر کمیشن اس کی ایک مثال ہے جو بیڈ گورننس کی وجہ سے تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کے حامل صوبہ میں عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لیے حقیقی معنوں میں بھرپور مانیٹرنگ اور بہترین و مؤثر اقدامات کررہا ہے۔ شفافیت اور اداروں کی آزادی و فعالیت ہی ملک کے موجودہ مسائل کا حل ہے ،ور نہ یہ پورٹل و معاشی اقدامات تو صرف پانچ سال پورے کرنے کے لیے دیے گئے لولی پوپ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہیں۔