واپسی اور یادیں

واپسی پر پھر غلط رستے پر نکل کر دائیں بائیں واپسی کی نشانیاں ڈھونڈتے دیکھ کر ایک خاتون نے کار روکی۔


Hameed Ahmed Sethi November 04, 2018
[email protected]

گزشتہ دو ماہ یورپ، امریکا، کینیڈا قیام اور سفر کے دوران میں تو بھول ہی گیا تھا کہ سڑکوں پر دوڑتی موٹروں میں ایک لازمی پرزہ ہارن بھی ہوتا ہے، لیکن واپس پاکستان پہنچتے ہی ہوائی اڈے ہی پر معلوم ہو گیا کہ ہارن کے بغیر تو کسی موٹر کا وجود ہی ادھورا ہے۔ یہاں پہنچتے ہی ہارن نہ سننے کی دو ماہ کی اداسی دو تین منٹ ہی میں دور ہو گئی، اس کے ساتھ ہی بے ہنگم ٹریفک نے اداسی اور اکیلے پن کی کیفیت کو رفوچکر کر دیا اور پھر شعر کے اس مصرعے نے بھی خود کو سچ کر دکھایا کہ

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

دراصل بیرون ملک رہتے، گھومتے اور وہ بھی یورپ امریکا کے ماحول میں تنہائی اور خاموشی کچھ عرصہ قیام کے بعد کاٹنے کو دوڑنے لگتی ہے۔

ان ملکوں میں ہر کوئی اپنی ذات میں گم پایا جاتا ہے کسی کو پرواہ نہیں ہوتی کہ سامنے سے آنے یا قریب سے گزرنے والا بھی ان جیسا انسان ہے۔ اس لیے گھورتے ہوئے گزرنا تو چھوڑیئے کم از کم نظریں ملانا بھی معیوب سمجھتا ہے اور نظر انداز کر کے چپ چاپ گزر جاتا ہے۔ بھئی حد ہوگئی بے اعتنائی کی۔ ہم نے تو یہاں تک نوٹ کیا کہ سڑک یا فٹ پاتھ پر بالکل سامنے سے آتا شخص بھی کافی فاصلے سے پلٹا کھا لیتا ہے تا کہ ٹکرا نہ جائے جب کہ ہمارا ہم سڑک اور نہیں تو بے خیالی میں کہنی ضرور دے مارتا ہے۔

دو ماہ قیام کے دوران کم از کم پندرہ بیس جگہ جانا ہوا۔ ہر شہر میں کشادہ سڑکیں، سڑکوں پر دو رویہ سرسبز درخت، پیدل چلنے کے لیے ہموار فٹ پاتھ، ایک ایسے ہی لاہور شہر کے شاندار بازار کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ٹھڈا لگ کر چارو شانے چت گرتا شخص یاد آ گیا۔

نیویارک کی ایک مارکیٹ میں میرے دوست نے موٹر کار روکی تو اسی وقت ایک دوسری کار برابر آکھڑی ہوئی، اس میں سے ایک فیملی اتری جس کے ایک آٹھ سال کے بچے نے قریب پڑا کسی اور کا پھینکاگتے کا خالی Bowl زمین پر سے اٹھایا اور بھاگتا ہوا اسے گاربیج والے Bin میں پھینک کر دوڑتا ہواواپس اپنی فیملی سے آ ملا۔ مجھے شرمندگی کی حالت میں اپنے شہروں کی مارکیٹیں یاد آئیں جو اکثر گندگی سے بھری رہتی ہیں جن میں چلتے لوگ تھوکتے ہی نہیں ناک سڑک کر پھینکتے بھی دیکھے جاتے ہیں اور ہم پھربھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں سرعام تھوکنے کی سزاجرمانہ ہے۔

مجھے یہاں سڑکوں، مارکیٹوں اورپبلک پلیسز پر اتنی صفائی دیکھنے کو ملی جو ہمارے گھروں میں بھی کم پائی جاتی ہے۔ یہاں دو ماہ کے عرصہ میں بیشمار جگہوں پر جانے کے دوران کسی دوسرے کا ٹکرانا تو دور کی بات غلطی سے چھو جانا بھی یاد نہیں۔ ہمارے بازاروں میں قریب سے گزرتے لوگ ٹکر بھی ماردیں تو معذرت خواہ نہیں ہوتے۔ یہاں غلطی سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بھی آجائیں تو سوری بولتے سنے جب کہ ذرا فاصلہ پر آنے جانے والوں کی مڈھ بھیڑ کا امکان ہو تو راستہ بدل لیتے ہیں تاکہ آمنے سامنے چلے آنے والوں کے آپس میں چھو جانے کی گنجائش بھی نہ رہے۔

کسی دکان کا یا Mall کے داخلی خارجی راستے ہوتے ہیں کوئی گاہک داخل ہونے تو کوئی باہر نکلنے کے لیے ایک ہی دروازہ کھول لیتا ہے۔ ان میں سے جو شخص پہلے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو تو وہ پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ پکڑے رکھتا ہے تاکہ دوسرا اندر آئے یا باہر نکل جائے یہ Courtesy ہر کالا گورا برائون اور پیلا امریکی بلکہ بچہ تک دکھاتا ہے اور اس مرحلہ پر مسکراہٹ یا Thank You کا تبادلہ بھی دیکھا۔ ہماری خود غرضی کا البتہ یہ عالم ہے کہ دروازہ ایک شخص کھولے تو نکل دوسرا جاتا ہے۔

روزمرہ کی اور بہت سی باتیں چھوٹی چھوٹی ضرور ہیں لیکن بڑی اہم اور کردار سازی کی بنیاد رکھتی ہیں اور عظمت انسانی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ابھی دو ہفتے قبل میں ہیوسٹن میں بیٹے کے گھر سے سیر کے لیے نکلا، موسم خوشگوار تھا، میں بے خیالی میں سرسبز درختوں کا مزہ لیتا ان کے درمیان چلتا دور نکل گیا۔ واپسی کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ رستہ بھول گیا ہوں، ادھر ادھر دیکھ کر واپسی کی نشانیاں تلاش کر رہا تھا کہ ایک شخص نے پوچھا کیا گھر کا رستہ بھول گئے ہو۔ اس نے گھر اور علاقے کی تفصیل سے گوگل کی مدد سے رستہ بتایا۔

واپسی پر پھر غلط رستے پر نکل کر دائیں بائیں واپسی کی نشانیاں ڈھونڈتے دیکھ کر ایک خاتون نے کار روکی اور مجھے گھر پر ڈراپ کرنے کی آفر کی، میں نے شکریے کے ساتھ انکار کیا تو قریب سے گزرتے ایک شخص نے باتیں سن کر کہا وہ سیر کرنے اپنے دو پالتو کتوں کے ہمراہ نکلا ہے اور اسی سڑک پر جا رہا ہے جو میری منزل ہے۔ یوں تھوڑی ہی دیر میں تین اشخاص نے خود مدد کی آفر دے کر مجھے بیٹے کے گھر پہنچا دیا۔

اس کالم کی تحریر کے دوران پاکستان میں ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں دھرنے ہوئے، جلسے ہوئے، جلوس نکلے، رستے بند ہوئے۔ عدلیہ کے ہر فیصلے میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے۔ احتیاط صرف اس حد تک لازم ہے کہ اس اختلاف میں تصادم کی کوئی راہ پیدا نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں