آزادیٔ اظہار کا پہلا قانون

امریکا،یورپ،ایشیا اورافریقا کے عوام جانتے ہیں کہ صحافی کس جرات سے سچ لکھ رہے ہیں اورکچھ اس کی سزامیں جان سے جارہے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

2 نومبر کا دن، دنیا میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے عافیت کے بین الاقوامی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ چین، روس اور مصر میں بہت سے صحافی (ان میں چند ادیبوں کو بھی شامل کرلیجیے) پسِ دیوارِ زنداں ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تین ملکوں میں قید صحافیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ایک برادر ملک کے زندانی ہیں، اس کے باوجود اسی ملک کے سربراہ جمال خشوگی کے قتل پر سب سے زیادہ برافروختہ ہیں اور بڑھ چڑھ کر بیان دے رہے ہیں۔

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک صحافت ایک قابل تکریم اور بڑی حد تک محفوظ پیشہ سمجھا جاتا تھا، ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران بڑے بڑے جید صحافی گرفتار ہوتے تھے، جیل کاٹتے تھے، ان کے اخبار جن چھاپہ خانوں سے شائع ہوتے تھے، وہ بحق سرکار ضبط ہوتے تھے اور جرمانہ ادا کرکے ان چھاپہ خانوں کی ''رہائی'' ہوتی تھی، لیکن ایسا شاذ و نادر ہوتا تھا کہ کسی صحافی کی جان سچ لکھنے کی پاداش میں چلی جائے۔

اب یہ ہمارے برصغیر کا ہی نہیں، ساری دنیا کا چلن ہے۔ بطور خاص تیسری دنیا میں یہ حکومتوں کا وتیرہ ہوچکا ہے کہ جس صحافی کی لکھت پسند نہ آئے، اسے غائب کردو، جیل میں ڈال دو یا قتل کردو۔ بہتوں کے گلے میں ''غدارِ وطن'' کا تمغہ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔

2 نومبر 2018ء سے ایک دن پہلے امریکا میں قائم ''فریڈم ہاؤس'' نے آزادیٔ صحافت کے بارے میں جو سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، اس میں انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے پاکستان کا نام مسلسل زوال پذیر ہے۔ انٹرنیٹ کے آزادانہ استعمال کے حوالے سے پاکستان کی صورت حال خراب ہے اور اسے 100 میں سے 73 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

''قومی سلامتی'' کے نام پر انٹرنیٹ کی سہولتوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کے علاقے میں یہ بات عام ہے۔ سیاسی ویب سائٹس، آزادانہ خبریں اور تبصرے دینے والی ویب سائٹس پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ آزادیٔ صحافت کا حال پوری دنیا میں دگرگوں ہے۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ 2016ء اور 2017ء کے درمیان 182 صحافی قتل کیے جاچکے ہیں اور ان کی سب سے زیادہ تعداد ایشیا اور پیسفک علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔

تاریخ ہمیں پریشان کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر سوئیڈن کو لیجیے۔ مغربی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک، فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروے سے جڑا ہوا۔ جمہوری اصولوں پر اپنے ملک کی بنیادیں استوار کرتا ہوا۔ 15 ویں صدی میں مشینی چھاپہ خانے کی ایجاد نے علوم و فنون کو اس تیزی سے پھیلایا تھا کہ یورپ کسی اور انداز سے سوچنے لگا تھا۔ 1644ء میں دنیا کا عظیم شاعر ملٹن تحریر کی آزادی کا کھلم کھلا حامی ہوچکا تھا اور یہ اسی کے خیالات کے اثرات تھے جنھوںنے 2 دسمبر 1766ء کو سوئیڈن کی پارلیمنٹ سے آزادیٔ اظہار کی حفاظت کے لیے قانون منظور کرایا تھا۔ دنیا کا پہلا قانون جس نے آزادیٔ تحریر کی بات کی۔

ملٹن نے 1644ء میں Aeropagitica لکھی تھی۔ اس نے کتابوں کی اشاعت سے پہلے ان کے سنسر کیے جانے کی سخت مخالفت کی تھی۔ کننگھم کا کہنا ہے کہ اس پمفلٹ میں بجا طور پر آزادیٔ تحریر کے حق میں پہلا پُرزور اصرار ہے۔ یہ دراصل ملٹن کی وہ تقریر ہے جو اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ سنسر کے ذریعے ایک اچھی کتاب کا قتل،ایک انسان کے قتل سے کم نہیں۔

یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ برطانیہ کے شاہ چارلس دوم کے عہد میں ملٹن کی دو کتابیں جلادی گئیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیں چھپے ہوئے لفظوں کو پڑھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ وہ انجیل مقدس کی مثال دیتا ہے جس میں خدا نے آدم و حوا کو یہ آزادی بخشی کہ وہ شجر ممنوع کو چکھیں۔ اسی تسلسل میں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ انسان دو معاملات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔

شاہ ہنری ہشتم کے زمانے میں کتابوں کی چھپائی پر شاہی کنٹرول عائد کیا گیا۔ یہ اپریل 1638ء تھاجب ایک سیاسی کارکن لل برن نے انگلستان میں وہ کتابیں درآمد کیں جو بادشاہ وقت کے خیال میں فساد انگیز تھیں۔ یہ کتابیں بحق سرکار ضبط ہوئیں۔ اس پر 500 پونڈ کا جرمانہ عائد ہوا اور 2 میل کے فاصلے تک لل برن کو جیل یوں لے جایا گیا کہ اس کی پشت پر درے مارے جاتے رہے۔ اس ظالمانہ سزاکے خلاف ملٹن نے اپنا پمفلٹ لکھا اور اسے برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ 50 برس تک ملٹن کے ان خیالات پر کسی نے کان نہ دھرے، یہ 1695ء تھا جب انگلستان میں اخباروں اور کتابوں کی آزادانہ اشاعت کی اجازت ملی اور یہ ملٹن کے خیالات کا ثمر تھا۔

اگر ہم اپنی تاریخ کو پلٹ کر دیکھیں تو اس زمانے میں ہم پلاسی کی جنگ ہار چکے تھے۔ 1644ء میں ملٹن آزادی تحریر کے حق میں کتابچہ لکھ رہا تھا۔ 1632ء میں شاہجہاں مغلوں کی رواداری کے اصولوں کو روند رہا تھا اور مندروں کو تہس نہس کررہا تھا۔ 1644ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی مدراس (چنائی) میں قلعہ سینٹ جارج تعمیر کررہی تھی۔ آزاد ہندوستان کے پیروں کے لیے بیڑیوں کا اہتمام ہورہا تھا۔

یورپ اور ہندوستان کے مزاج کا فرق دیکھنا ہو تو ان معاملات کا تقابلی جائزہ لیجیے اور اس پر بھی نظر ڈالیے کہ امریکی آئین تحریر کرنے والے پریس کی آزادی پرکس قدر اصرار کررہے تھے۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چند دوسرے سیاستدان، صحافیوں کو کتنی ہی شدت سے ''عوام دشمن'' کہیں، لیکن امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا کے عوام جانتے ہیں کہ صحافی کس جرات سے سچ لکھ رہے ہیں اور کچھ اس کی سزا میں جان سے جارہے ہیں۔

27 اکتوبر کو دانشور اور صحافی رابرٹ فسک کی ایک تحریر شائع ہوئی ہے، خشوگی کے قتل اور آزادیٔ تحریر پر ایک بھرپور طنزیہ تحریر، ہمارے آئی اے رحمان نے بھی آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹنے کے حوالے سے پہلی نومبر 2018ء کو ایک مضمون لکھا ہے جس میں پی ایم ایل (این) اور پی ٹی آئی دونوں کو ہی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ صحافی دیکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ آزادیٔ صحافت، تحریر اور تقریر کی بیباکی، کسی حکومت کو گوارا نہیں ہے۔ حکومت، اس کی ہو یا اُس کی، سب ہی اس کے خواہاں ہیں کہ لکھنے والوں کے قلم کو زنگ لگتا رہے اور ان کے سامنے رکھی ہوئی دوات عتاب کے خوف سے سوکھتی رہے۔ ایسے میں فیضؔ صاحب یاد آتے ہیں:

اُدھر نہ دیکھو کہ جو بہادر

قلم کے یا تیغ کے دھنی تھے

جو عزم و ہمت کے مدعی تھے


اب ان کے ہاتھوں میں صدقِ ایماں کی

آزمودہ پرانی تلوار مُڑ گئی ہے

جو کج کُلہ صاحبِ حشم تھے

جو اہلِ دستارِ محترم تھے

ہوس کے پُر پیچ راستوں میں

کُلہ کسی نے گِرُو ہے رکھ دی

کسی نے دستار بیچ دی ہے

اِدھر بھی دیکھو

جو اپنے رخشاں لہو کے دینار

مُفت بازار میں لُٹا کر

نظر سے اوجھل ہُوئے

اور اپنی لحد میں اس وقت تک غنی ہیں،

اُدھر بھی دیکھو

جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر

جہاں سے رخصت ہوئے

اور اہلِ جہاں میں اِس وقت تک نبی ہیں

یہ پڑھتے ہوئے سوئیڈن کی پارلیمنٹ کے وہ اراکین یاد آتے ہیں جنھوں نے 2 دسمبر 1766ء کو آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ اظہار کا قانون لکھا تھا، ہم ان میں سے کسی کا نام نہیں جانتے لیکن ان عظیم لوگوں کو جھک جھک کر سلام کرتے ہیں۔
Load Next Story