مرض مریض اور غذا

سبزیاں، پھل، ترکاریاں، اناج، پھول اور دودھ وغیرہ عام اور سہولت سے ملنے والی اشیاء ہیں مگر ہم ہیں کہ جو چیزیں ہمیں۔۔۔

سبزیاں، پھل، ترکاریاں، اناج، پھول اور دودھ وغیرہ عام اور سہولت سے ملنے والی اشیاء ہیں مگر ہم ہیں کہ جو چیزیں ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں انہی کو پسند کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

انسانی جسم کی صحت کے لیے جسم کے ہر چھو ٹے او ربڑے حصے کی حفاظت اور صحت ضروری ہے۔

مرض دراصل کسی ایک عضو کی کیفیت میں تبدیلی کا نام نہیں ہوتا بلکہ یہ کئی اعضاء کی کار کردگی میں نقص واقع ہو نے کی نشان دہی ہو تی ہے۔ علاوہ ازیں بیماری کا باعث بننے والے عناصر بھی انسانی جسم کا ضروری حصہ بنا دیے گئے ہیں۔ موجودہ دور کے سب سے خطرناک امراض ذیابیطس،بلڈ پریشر، گردے ناکارہ ہو نا، دل کا ناکا رہ ہونا،گھنٹیا، نقرس اور ہیپاٹائیٹس وغیرہ کہیں باہر سے حملہ آور نہیں ہو تے بلکہ ان تمام امراض کی وجہ بننے والے عناصر کی ایک مخصوص مقدار کا جسم میں پایا جانا صحت کے لیے لازمی ہو تا ہے۔

مثال کے طور پر ایک صحت مند انسانی جسم میں شوگر کی نارمل مقدار 80 ملی گرام سے 120 ملی گرام تک کاپایا جا نا ماہرین کے نزدیک صحت مندی کی علامت ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مذکورہ مقدار جب ضرورت سے زیادہ بڑھتی ہے یا اس کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے تو خطرناک مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔فی زمانہ ہر دوسرا فرد شوگر کے نام سے خائف ہے۔ اسی طرح طبی ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر اور قلبی امراض کا سبب بننے والے ماد ے کو لیسٹرول کی مناسب مقدار 170 ملی گرام سے 200 ملی گرام تک انسانی جسم کی لازمی ضرورت خیال کی جاتی ہے۔

یہاں ایک اہم نکتہ قابلِ غور ہے کہ مذکورہ مقدار وں میں کمی یا زیادتی پیدا ہو نے کی ہر دو صورتوں میں مرض تصور کیا جاتا ہے۔جیسا ماہرین جانتے ہیں کہ یورک ایسڈ کی مناسب مقدار میں زیادتی تو باآسانی کنٹرول کی جا سکتی ہے مگر یورک ایسڈ کی کمی کی صورت میں جو جسمانی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دور کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ مذکورہ عناصر یا مادے پیدا کیسے ہوتے ہیں؟ جواب نہایت آسان اور انتہائی سادہ ہے۔وہ یہ کہ ہمارے جسم کی پرورش اور نشو و نما ہماری خوراک سے ہوتی ہے۔

ہمارا جسم چونکہ ایک خود کار مشین کی طرح سے کام کرتا ہے۔ اسے مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے غذا ئی ایندھن کی ضرورت ہو تی ہے۔ ہم جس قدر متوازن اور غذائیت سے بھرپور غذاؤں کا استعمال کریں گے اسی قدر ہمارابدن زیادہ صحت مند،مضبوط اور توانا رہے گا۔ جسمانی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والے درکار عناصر ہم اپنی خوراک سے حاصل کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ غذا کے ماہرین ہمیشہ متوازن اور مناسب غذا پر زور دیتے ہیں۔ماہر اور سمجھدار معالجین بھی اپنے مریضوں کو غذائی پر ہیز کی تلقین کرتے ہیں تاکہ جسم میں کسی بھی عنصر کی بڑھی ہوئی مقدار اعتدال پر آجائے۔قار ئین، اعتدال اور میانہ روی ایسے ہتھیار ہیں جن کو اپنا کر ہم نہ صرف صحت مند رہ سکتے ہیں بلکہ زندگی کے ہرمرحلے کو بآسانی عبور بھی کر سکتے ہیں۔

دورانِ مطب لا تعداد مریض پرہیز کا نام سن کر پریشان دکھائی دینے لگتے ہیں جب کسی یورک ایسڈ اور کولیسٹرول کی زیادتی میں مبتلاء مریض کو گوشت چھوڑنے کو کہا جائے تو وہ عجیب سا منہ بنا کر کہتا ہے گوشت نہیں کھانا تو کھا نا کیا ہے؟بھلے آدمی کیا کائنات میں صرف گوشت ہی رہ گیا ہے۔ خدائے ذو الجلال کی بیشمار نعمتیں موجود ہیں۔


سبزیاں، پھل، ترکاریاں، اناج، پھول اور دودھ وغیرہ عام اور سہولت سے ملنے والی اشیاء ہیں مگر ہم ہیں کہ جو چیزیں ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں انہی کو پسند کرتے ہیں۔ پر ہیز کرنے والے شاید اس اہم پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ پرہیز صرف اور صرف بیماری کی حد تک ہے جو نہی مرض سے خلاصی ہوئی آپ خدا کی تمام نعمتوں سے پھر سے استفادہ کر سکتے ہیں مگر حدِ اعتدال میں رہ کر۔ یوں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پرہیز کا تعلق مرض سے ہے مریض سے نہیں۔

آج ہمارے ارد گرد لا تعداد لوگ لاکھوں، کروڑوں کے ما لک ہونے کے با وجود انتہائی بے مزہ اور معمولی طرز کی غذائیں کھا تے ہوئے عام دیکھے جا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر شوگر کے مریض کروڑ پتی ہوتے ہوئے بھی پھیکی خوراک کھاکر زندگی کی مٹھاس سے دور رہنے کے پابند ہیں۔

بلڈ پریشر اور امراضِ قلب میں مبتلا افراد چٹخارے اور چسکارے دار نمکین اور تلی ہوئی چیزوں سے دور رہ کر زندگی کے حقیقی مزوں سے محروم رہنے پر مجبور ہیں۔ایسا صرف اس لیے ہوا ہے کہ ان افراد نے اپنے نصیب کا 'میٹھا' و' نمکین ''عمر کے تناسب سے نہیں استعمال کیا بلکہ افراط و تفریط کا مظاہرہ کر کے خود اپنے اور خود سے جْڑے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن گئے۔مندرجہ بالا نظریے کی صداقت کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک انسان سائنسی ارتقاء اور جدید سہولتوں سے بہرہ ور نہیں ہوا تھا اس کی زندگی کئی کئی صدیوں پر محیط ہوتی تھی۔ فی زمانہ بھی پرانے طور اطوار کے لوگ نہ صرف طویل عمری بلکہ صحت اور تن درستی سے محظوظ ہو تے دیکھے جا سکتے ہیں۔

قارئین کرام! نہ تو ہم جدید سائنسی سہولتوں کے مخالف ہیں اور نہ ہی غار کی سی زندگی کے حق میں ہیں بلکہ ان تمام معروضات پیش کرنے کا مقصد صرف اتناہے کہ ہم اپنی خوراک،لباس،معمولات اور طور اطوار میں فطری طرز ِ زندگی کو شامل رکھیں۔ کھانے پینے اور دیگر روز مرہ معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کی روش ہمیں لا تعداد الجھنوں اور مسائل سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔یہاں جدید اور سائنسی سہولتوں میں سے صرف دو کے با رے آپ سے سوال کرتا ہوں ۔امید ہے آپ پوری امانت اور صدقِ دل سے مجھے اس کا جواب دیں گے۔

چائے ،سگریٹ اور کولا مشروبات ترقی یافتہ زمانے کے ایسے زہر ہیں جن سے چند خوش نصیب ہی محفوظ ہو نگے۔ سگریٹ کو ہی لے لیجیے !روزانہ لاکھوں لوگ لاکھوں کروڑوں روپے اس زہر کی خریداری پر یہ جانتے ہوئے بھی خرچ کرتے ہیں کہ'' تمباکو نوشی''صحت کے لیے مْضر ہے۔ ہم بھی کمال دوہرے معیار کے لوگ ہیں کہ پہلے بیماری خریدتے ہیں اور پھر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ روزانہ ہزاروں لوگ اس کی بھینٹ بھی چڑھتے ہیں۔ اسی طرح چائے اور کولا مشروبات ہیں ،جن کے بے دریغ استعمال سے انسانی جسم لا تعداد عوارض میں گرفتار ہورہا ہے۔ کوئی صاحبِ علم مجھے ان کا کوئی ایک مفید اور ضروری استعمال بتائے تا کہ میرے جیسا '' روایت پسند'' بھی جدید اور سائنسی ایجادات سے مستفید ہو نے والوں میں شامل ہو سکے۔

راقم با وثوق طور پر یہ کہتا ہے اگر دنیا سے صرف یہ چیزیں چائے سگریٹ اور کولا مشروبات نکال دی جائیں تو انسان 50 فیصد سے زیادہ امراض کے خطرات سے محفوظ ہو جائے۔المختصر یہ کہ طبی ماہرین اور حکمائے قدیم کے مطابق ہماری صحت اور تن درستی کا راز متوازن اور فطری غذاؤں کے استعمال میں پو شیدہ ہے۔ روز مرہ استعمال کی غذاؤں میں دودھ،شہد، پھل، سبزیاں، دالیں، ترکاریاں اور اناج لازمی شامل کیے جائیں۔گوشت،مچھلی، انڈا اور چکنائیاں وغیرہ مناسب مقدار مگر اپنے معالج کے مشورے کے مطابق استعمال کریں۔

کھانے پینے کے معمولات میں کم ازکم 8 گھنٹوں اور زیادہ سے زیادہ 12 گھنٹوں کا وقفہ ضرور کرنا چاہیے۔ کھاتے وقت ہر مو قعے کو آخری مو قع نہ خیال کریں ۔بلکہ چند نوالوں کی گنجائش رکھ کر کھا نا ختم کر دینا چاہیے۔اپنی خوراک میں چٹخارے اور چسکارے دار غذائیں کم سے کم شامل کریں ورنہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو نے کے لیے تیار ہو جائیں۔ چینی ،چکنائیاں اور نمک ممکنہ حد تک کم مقدار میں استعمال کریں۔گا ہے بگاہے اپنے معالج سے طبی معائنہ اور مشورہ کرتے رہیں۔ انشاء اللہ آ پ خاطر خواہ حد تک بیماریوں کے حملوںسے بچے رہیں گے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حفظانِ صحت کے زریں اصولوں کو اپنا کر ہم کافی حد تک صحت مند زندگی سے طویل مدت تک لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

ضروری نوٹ: انڈا اور دہی،گوشت اور مچھلی،دودھ اور تْر شی،ہموزن شہد اور گھی،چاول اور سرکہ اور شہد و خربو زہ ایک ساتھ کبھی نہ کھائے جائیں ورنہ کئی ایک بدنی مسائل پیدا ہو نے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سگریٹ، چائے ،کافی اور کولا مشروبات سے ممکنہ حد تک پرہیز کریں ہاں البتہ سبز چائے اور قہوہ مخصوص مقدار میں استعمال کر نے میں کوئی قبا حت نہیں ہے۔موسمی پھل اور سبزیوں کا استعمال لازمی کر نا چاہیے۔ موسم کی مناسبت سے پید ا ہو نے والے پھل اور سبزیاں فطری طورپر ہمارے لئے عمدہ اور مفید ثابت ہو تی ہیں۔لہٰذا ہم فطری راستے کو اپناکر نہ صرف اپنی صحت و تن درستی قائم رکھ سکتے ہیں بلکہ اپنے لئے لا تعداد آسانیوں کا حصول بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔
Load Next Story