یہاں کوئی بھی ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھتا
اس شخص کوایف ایس ایف کاسربراہ مقرر کردیاگیا۔ایک لحاظ سے پوراملک مسعود محمودکے تسلط میں آگیا
1972ء مارچ کامہینہ تھا۔ بدلتا ہوا موسم۔ لاہورمیں پولیس اہلکاروںمیں اپنی قلیل تنخواہوں کے متعلق سخت بے چینی تھی۔ڈالرکے تناسب سے دیکھا جائے توپولیس کانسٹیبل صرف بتیس ڈالرتنخواہ وصول کررہاتھا۔اس وقت ایک امریکی ڈالرپاکستانی کرنسی کے چودہ روپے کے برابر بنتا تھا۔یعنی پولیس اہلکارکی ماہانہ آمدنی حددرجہ کم تھی۔
پولیس اہلکاروں کے اندر یہ چھبن،اس درجہ بڑھ گئی کہ انھوں نے ہڑتال کا اعلان کردیا۔یونیفارم پہننے والی نظم وضبط کی پابند فورس کی طرف سے یہ ایک انہونی چیزتھی۔تھوڑے عرصے کے بعدہڑتال ملک گیربن گئی۔ ملتان، حیدرآباد،لائل پور، چارسدہ اور پشاور ہرشہرمیں قیامت برپاہوگئی۔ذوالفقارعلی بھٹوجیساذہین آدمی بھی پریشان ہوگیا۔اس ہڑتال کوکیسے ختم کیا گیا۔ طاقت کے زورپر،کیاکیامظالم ہوئے۔یہ سب کچھ تاریخ کاحصہ ہے۔شنیدہے کہ کئی ہڑتالی پولیس والوں کو چھتوں سے نیچے پھینکاگیا۔بہرحال یہ معاملہ وقتی طورپر قابومیں آگیا۔
اس تمام معاملے نے بھٹوکی سوچ پربے حداثر کیا۔ اسے احساس ہونے لگاکہ کسی بھی سرکاری ملازم کااصل خاصہ ذاتی وفاداری ہے۔ٹکاخان سے مشورہ کے بعدبھٹونے ایف ایس ایف کی بنیادرکھی۔دیکھتے ہی دیکھتے تعدادپندرہ ہزار فعال،مضبوط نوجوانوں تک پہنچ گئی۔حق نوازٹوانہ اس کا پہلا سربراہ تھا۔ مگر تھوڑے عرصے بعدمسعودمحمودنام کاپولیس افسر بھٹو کا اعتمادحاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔انڈین پولیس سروس کایہ افسربرطانیہ کی مشہورقانونی درسگاہ لنکزاِن کاپڑھا ہواتھا۔اعلیٰ تعلیم یافتہ،خوش گفتار،مغربی تہذیب میں گندھا ہوایہ نوجوان افسروزیراعظم کو بھاگیا۔
اس شخص کوایف ایس ایف کاسربراہ مقرر کردیاگیا۔ایک لحاظ سے پوراملک مسعود محمودکے تسلط میں آگیا۔وہ جسے چاہتا، گرفتار کر سکتا تھا۔کسی بھی مخالف سیاستدان پرزندگی تنگ کرسکتاتھا۔ایف ایس ایف پاکستان کے ہرضلع میں موجودتھی۔یعنی اس افسر کے پنجے ملک کے ہرشہری کی شاہ رگ میں دھنسے ہوئے تھے۔ بھٹوسے مکمل وفاداری کادعوی اس کی طاقت کااصل راز تھا۔ بھٹونے یقین کرلیاتھاکہ مسعودمحموداسکاپالتو افسر ہے۔ دنیا ادھرکی اُدھر ہو جائے،اس کی جانثاری تبدیل نہیں ہوگی۔ مسعود محمود خوشامدکے فن کابادشاہ تھا۔بھٹوجیسے ذہین آدمی کو شیشے میں اُتارناکوئی آسان کام نہیں تھا۔مگراب مسعود، وزیراعظم بھٹوکادستِ راست تھا۔پورے ملک میں مضبوط ترین افسران،اس کی خوشنودی حاصل کرنے کونوکری کی معراج سمجھتے تھے۔ وقار جیسا مضبوط سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ بھی مسعود سے گھبراتا تھا۔
دیکھاجائے تواصل قوت صرف اورصرف مسعودکی تھی۔977ء میں جب فوج نے بھٹوکی حکومت کا تختہ اُلٹا،توشروع شروع میں گرفتارہونے والوں میں مسعود محمودبھی شامل تھا۔حراست کے محض چندگھنٹے بعداسے جنرل چشتی کے سامنے پیش کیاگیا۔کیاآپ یقین کرسکتے ہیں کہ مسعودمحمودنے کیاحرکت کی۔آپکے ذہن میں ہوگاکہ اس نے بڑی تمکنت کے ساتھ جنرل چشتی کو کہا ہوگا کہ اسے گرفتارکیوں کیا گیا۔شائدیہ بھی کہاہو گاکہ وہ اپنے محسن یعنی بھٹوکے ساتھ کھڑاہواہے۔جہاں اس کے لیڈر کا پسینہ گرے گا،وہاں اسکاخون گرے گا۔مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ مسعودمحمودنے ایساکچھ نہیں کہا۔وہ ایک کمزور آدمی کی طرح بکھرگیا۔جاتے ہی جنرل چشتی سے معافی مانگنی شروع کردی۔
سارے فوجی افسرحیران ہوگئے کہ وہ مردِآہن جو ملک کے مقدرکامالک تھا، صرف چندگھنٹوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ یہ وہی مسعودمحمودتھاجس کے اعترافی بیان پر ذوالفقار علی بھٹوکوپھانسی کے تختے پر لٹکا دیاگیا۔ وفادار ترین افسر،حکومت بدلنے کے صرف چندگھنٹوں بعدنہ صرف بدترین دشمن بن گیابلکہ بھٹوکے خلاف ہرطرح کابیان دینے کے لیے خودبخود تیار ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی فطری کمزوری یعنی خوشامدپسندی نے اس کی آنکھوں کے سامنے پٹی باندھ دی اوروہ ایک کمزور بندے کووفاداراورپسندیدہ ترین افسر گردانتا رہا۔دراصل یہ پاکستان کے ہرحکمران کی فطری کمزوری ہے۔
بھٹوکے دورکے بعد،جنرل ضیاء الحق کا دور آیا۔ایک ایساسیاہ ترین وقت،جسکی گرفت سے ہماراملک آج تک نہیں نکل سکا۔جنرل ضیاء الحق کے لگائے ہوئے پودے، آج کانٹوں بھرے درخت بن چکے ہیں۔بہرحال غلام اسحق خان اور چند دیگر حضرات جوبھٹوکے دستِ راست تھے، ضیاء الحق کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔غلام اسحق خان وہ شخص تھا،جس نے بھٹواورپی این اے کے درمیان کامیاب مذاکرات کی اطلاع پہنچائی تھی۔ کامیاب مذاکرات کے اعلان سے پہلے ہی جنرل ضیاء الحق نے بھٹوکی حکومت کاقلع قمع کر ڈالا۔ مسعود محمودتوبھٹوکوپھانسی لگوانے کے بعدامریکا چلا گیا۔ مگر غلام اسحق خان،نئے فوجی صدر کا دستِ راست بن گیا۔کیاحیرت کی بات نہیں کہ ان جیسے افسروں نے ہردورکے حکمرانوں کوقابورکھنے کاگُرکتنی کامیابی سے سیکھ لیااوراسے کمال ہنرسے استعمال کیا۔
آگے چلیے۔ نوازشریف بھی اپنے دورِاقتدار میں ہر طرح کے میرٹ کومسلسل نظراندازکرتے رہے۔ وزیراعلیٰ کے طورپران کے نزدیک ہروہ افسربہترین تھا،جوانھیں صرف یس سر،یس سر کہتا تھا۔میرٹ پرکام کرنے والے افسران کووہ دشمن سمجھتاتھا۔پہلی باروزیراعظم بننے کے بعدبھی نوازشریف کایہی وتیرہ رہا۔افسروں کے نام نہیں لکھناچاہتا۔کیونکہ مقصدکسی کی کردارکشی نہیں۔ مگر نواز شریف جب وزیراعظم بنا،تواس سے منسلک افسران نے قیامت خیزکرپشن کی۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوتا رہا۔اس کے نزدیک ایک افسرکے پورے پاکستان کی سرکاری ہاؤسنگ اسکیموں میں ڈیڑھ سو پلاٹ تھے۔
نوازشریف کی بنیادی طبیعت میں خوشامدپسندی شامل تھی اورہے۔لائق اورمحنتی افسروں سے انھیں سخت چڑتھی۔ اس کی زبان پرصرف ایک فقرہ رہتا تھا۔''اے افسر،ساڈابندہ ہے،کہ دوسر یاں داں''۔یعنی یہ افسر ہمارابندہ ہے کہ دوسروں کا۔ محترمہ بینظیربھٹوحددرجہ ذہین تھیں۔مگران کے شوہر نامدارنے خاص مالیاتی اور صوبائی عصبیت کے حامل اہلکار کے سواکسی بھی افسرکوان کے نزدیک نہ آنے دیا۔جنرل پرویز مشرف بھی صرف اورصرف اپنے سیکریٹری طارق عزیز کے بل بوتے پرمعاملات حل کرتے رہے اورمکمل طورپر ناکام ہوگئے۔
اب حالیہ چندسالوں کی طرف آتاہوں۔ شہباز شریف کوبلاشرکت غیرے،پورے دس برس پنجاب کا اقتدارحاصل رہا۔سیاہ اورسفیدکے مالک رہے۔ ان کے اردگرد خوشامدیوں کا ایک ایساگروہ جمع ہوگیا کہ شہبازشریف زمینی حقائق سے مکمل طورپرلاتعلق ہوگئے۔شہبازشریف کے متعلق ایک تاثر پھیلایا گیا کہ وہ حددرجہ محنتی ہیں۔ ''شہباز اسپیڈ'' جیسی اصطلاح تخلیق کی گئی جو مکمل طورپرافسانوی تھی۔ پروپیگنڈے کاایساطوفان مچایاگیاکہ معلوم ہوتا تھا کہ پنجاب میں فقیدالمثال ترقی ہورہی ہے۔بس چندماہ بعد،چین اور امریکا کے صدوربھی وزیراعلیٰ سے مشورہ کرینگے کہ آپ نے اپنے صوبے میں اتنی ترقی کس طرح کرواڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ چندافسروں نے شہبازشریف کو بربادکرڈالا۔غلط مشورے دے دیکرپوری بیوروکریسی میں شدیدگروہ بندی پیدا کرڈالی۔اورتواور،وزیراعلیٰ کوماڈل ٹاؤن جیسے بھیانک واقعہ میں بھی غلط مشاورت دے دیکرقتل جیسے سنگین کھیل میں ملوث کردیاگیا۔
یہی افسر کبھی پنجاب کوچلاتے رہے اور مرکز میں جاکرکبھی وزیراعظم کی گودمیں بیٹھ گئے۔ نتیجہ کیاہوا۔آج شہبازشریف اوران کاپوراخاندان،نوازشریف اور ان کا پورا خاندان حددرجہ مصائب میں مبتلاہے۔ان کے اردگردجتنے وفادارترین افسرتھے،انھوں نے حکومت جاتے ہی آنکھیں بدل لیں۔ان میں سے جس پربھی ہاتھ ڈالاگیا،وہ ایک منٹ سے پہلے ''وعدہ معاف گواہ''بن گیا۔طوطے کی طرح بتانے لگاکہ اس نے توکچھ نہیں کیا۔سب کچھ تومیاں صاحبان کے احکامات پرہوتارہا۔وہ تومکمل طور پر بے قصورہیں۔ان افسروں نے حالات کوبدلتے دیکھ کراپنا قبلہ اس تیزی سے تبدیل کیاکہ انسان حیران ہوجاتاہے۔دوبارہ عرض کرونگا کہ نام نہیں لکھناچاہتا۔یہ پابندی میں نے اپنے اوپرخود لگائی ہوئی ہے۔ورنہ جتنی تفصیل سے سرکاری معاملات کو جانتاہوں،اگرلکھ دوں،توقیامت برپاہوجائیگی۔
بہرحال آج کی صورتحال پرغورکرنابھی بے حدضروری ہے۔میاں صاحبان کے دورکے کئی افسران، تحریک انصاف کے اکابرین کوباورکرواچکے ہیں کہ وہ توصرف میرٹ پرکام کرتے رہے ہیں۔وہ توپروفیشنل سول سرونٹ ہیں۔ ان کا کسی گروپ،گروہ یاکسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف کے کرتادھرتا،ان سرکاری جادوگروں کے چنگل میں آچکے ہیں۔ تحریک انصاف کو باورکراناہے کہ وہ تبدیلی اور انقلاب کے داعی ہیں۔اب نئے مسعودمحمودبھی پیدا ہوچکے ہیں۔ نئے غلام اسحق خان بھی جنم لے چکے ہیں۔ ان کا پوراگروہ اقتدارکااصل مالک بن چکا ہے۔ جو کھیل انھوں نے پنجاب اورگزشتہ مرکزی حکومتوں میں کھیلا،وہی جاری وساری ہے۔دکھ صرف ایک ہے کہ ہمارے بدقسمت ملک میں کوئی بھی مقتدرشخص ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھتا۔دیکھیے،انجام کیاہوتاہے؟
پولیس اہلکاروں کے اندر یہ چھبن،اس درجہ بڑھ گئی کہ انھوں نے ہڑتال کا اعلان کردیا۔یونیفارم پہننے والی نظم وضبط کی پابند فورس کی طرف سے یہ ایک انہونی چیزتھی۔تھوڑے عرصے کے بعدہڑتال ملک گیربن گئی۔ ملتان، حیدرآباد،لائل پور، چارسدہ اور پشاور ہرشہرمیں قیامت برپاہوگئی۔ذوالفقارعلی بھٹوجیساذہین آدمی بھی پریشان ہوگیا۔اس ہڑتال کوکیسے ختم کیا گیا۔ طاقت کے زورپر،کیاکیامظالم ہوئے۔یہ سب کچھ تاریخ کاحصہ ہے۔شنیدہے کہ کئی ہڑتالی پولیس والوں کو چھتوں سے نیچے پھینکاگیا۔بہرحال یہ معاملہ وقتی طورپر قابومیں آگیا۔
اس تمام معاملے نے بھٹوکی سوچ پربے حداثر کیا۔ اسے احساس ہونے لگاکہ کسی بھی سرکاری ملازم کااصل خاصہ ذاتی وفاداری ہے۔ٹکاخان سے مشورہ کے بعدبھٹونے ایف ایس ایف کی بنیادرکھی۔دیکھتے ہی دیکھتے تعدادپندرہ ہزار فعال،مضبوط نوجوانوں تک پہنچ گئی۔حق نوازٹوانہ اس کا پہلا سربراہ تھا۔ مگر تھوڑے عرصے بعدمسعودمحمودنام کاپولیس افسر بھٹو کا اعتمادحاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔انڈین پولیس سروس کایہ افسربرطانیہ کی مشہورقانونی درسگاہ لنکزاِن کاپڑھا ہواتھا۔اعلیٰ تعلیم یافتہ،خوش گفتار،مغربی تہذیب میں گندھا ہوایہ نوجوان افسروزیراعظم کو بھاگیا۔
اس شخص کوایف ایس ایف کاسربراہ مقرر کردیاگیا۔ایک لحاظ سے پوراملک مسعود محمودکے تسلط میں آگیا۔وہ جسے چاہتا، گرفتار کر سکتا تھا۔کسی بھی مخالف سیاستدان پرزندگی تنگ کرسکتاتھا۔ایف ایس ایف پاکستان کے ہرضلع میں موجودتھی۔یعنی اس افسر کے پنجے ملک کے ہرشہری کی شاہ رگ میں دھنسے ہوئے تھے۔ بھٹوسے مکمل وفاداری کادعوی اس کی طاقت کااصل راز تھا۔ بھٹونے یقین کرلیاتھاکہ مسعودمحموداسکاپالتو افسر ہے۔ دنیا ادھرکی اُدھر ہو جائے،اس کی جانثاری تبدیل نہیں ہوگی۔ مسعود محمود خوشامدکے فن کابادشاہ تھا۔بھٹوجیسے ذہین آدمی کو شیشے میں اُتارناکوئی آسان کام نہیں تھا۔مگراب مسعود، وزیراعظم بھٹوکادستِ راست تھا۔پورے ملک میں مضبوط ترین افسران،اس کی خوشنودی حاصل کرنے کونوکری کی معراج سمجھتے تھے۔ وقار جیسا مضبوط سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ بھی مسعود سے گھبراتا تھا۔
دیکھاجائے تواصل قوت صرف اورصرف مسعودکی تھی۔977ء میں جب فوج نے بھٹوکی حکومت کا تختہ اُلٹا،توشروع شروع میں گرفتارہونے والوں میں مسعود محمودبھی شامل تھا۔حراست کے محض چندگھنٹے بعداسے جنرل چشتی کے سامنے پیش کیاگیا۔کیاآپ یقین کرسکتے ہیں کہ مسعودمحمودنے کیاحرکت کی۔آپکے ذہن میں ہوگاکہ اس نے بڑی تمکنت کے ساتھ جنرل چشتی کو کہا ہوگا کہ اسے گرفتارکیوں کیا گیا۔شائدیہ بھی کہاہو گاکہ وہ اپنے محسن یعنی بھٹوکے ساتھ کھڑاہواہے۔جہاں اس کے لیڈر کا پسینہ گرے گا،وہاں اسکاخون گرے گا۔مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ مسعودمحمودنے ایساکچھ نہیں کہا۔وہ ایک کمزور آدمی کی طرح بکھرگیا۔جاتے ہی جنرل چشتی سے معافی مانگنی شروع کردی۔
سارے فوجی افسرحیران ہوگئے کہ وہ مردِآہن جو ملک کے مقدرکامالک تھا، صرف چندگھنٹوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ یہ وہی مسعودمحمودتھاجس کے اعترافی بیان پر ذوالفقار علی بھٹوکوپھانسی کے تختے پر لٹکا دیاگیا۔ وفادار ترین افسر،حکومت بدلنے کے صرف چندگھنٹوں بعدنہ صرف بدترین دشمن بن گیابلکہ بھٹوکے خلاف ہرطرح کابیان دینے کے لیے خودبخود تیار ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی فطری کمزوری یعنی خوشامدپسندی نے اس کی آنکھوں کے سامنے پٹی باندھ دی اوروہ ایک کمزور بندے کووفاداراورپسندیدہ ترین افسر گردانتا رہا۔دراصل یہ پاکستان کے ہرحکمران کی فطری کمزوری ہے۔
بھٹوکے دورکے بعد،جنرل ضیاء الحق کا دور آیا۔ایک ایساسیاہ ترین وقت،جسکی گرفت سے ہماراملک آج تک نہیں نکل سکا۔جنرل ضیاء الحق کے لگائے ہوئے پودے، آج کانٹوں بھرے درخت بن چکے ہیں۔بہرحال غلام اسحق خان اور چند دیگر حضرات جوبھٹوکے دستِ راست تھے، ضیاء الحق کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔غلام اسحق خان وہ شخص تھا،جس نے بھٹواورپی این اے کے درمیان کامیاب مذاکرات کی اطلاع پہنچائی تھی۔ کامیاب مذاکرات کے اعلان سے پہلے ہی جنرل ضیاء الحق نے بھٹوکی حکومت کاقلع قمع کر ڈالا۔ مسعود محمودتوبھٹوکوپھانسی لگوانے کے بعدامریکا چلا گیا۔ مگر غلام اسحق خان،نئے فوجی صدر کا دستِ راست بن گیا۔کیاحیرت کی بات نہیں کہ ان جیسے افسروں نے ہردورکے حکمرانوں کوقابورکھنے کاگُرکتنی کامیابی سے سیکھ لیااوراسے کمال ہنرسے استعمال کیا۔
آگے چلیے۔ نوازشریف بھی اپنے دورِاقتدار میں ہر طرح کے میرٹ کومسلسل نظراندازکرتے رہے۔ وزیراعلیٰ کے طورپران کے نزدیک ہروہ افسربہترین تھا،جوانھیں صرف یس سر،یس سر کہتا تھا۔میرٹ پرکام کرنے والے افسران کووہ دشمن سمجھتاتھا۔پہلی باروزیراعظم بننے کے بعدبھی نوازشریف کایہی وتیرہ رہا۔افسروں کے نام نہیں لکھناچاہتا۔کیونکہ مقصدکسی کی کردارکشی نہیں۔ مگر نواز شریف جب وزیراعظم بنا،تواس سے منسلک افسران نے قیامت خیزکرپشن کی۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوتا رہا۔اس کے نزدیک ایک افسرکے پورے پاکستان کی سرکاری ہاؤسنگ اسکیموں میں ڈیڑھ سو پلاٹ تھے۔
نوازشریف کی بنیادی طبیعت میں خوشامدپسندی شامل تھی اورہے۔لائق اورمحنتی افسروں سے انھیں سخت چڑتھی۔ اس کی زبان پرصرف ایک فقرہ رہتا تھا۔''اے افسر،ساڈابندہ ہے،کہ دوسر یاں داں''۔یعنی یہ افسر ہمارابندہ ہے کہ دوسروں کا۔ محترمہ بینظیربھٹوحددرجہ ذہین تھیں۔مگران کے شوہر نامدارنے خاص مالیاتی اور صوبائی عصبیت کے حامل اہلکار کے سواکسی بھی افسرکوان کے نزدیک نہ آنے دیا۔جنرل پرویز مشرف بھی صرف اورصرف اپنے سیکریٹری طارق عزیز کے بل بوتے پرمعاملات حل کرتے رہے اورمکمل طورپر ناکام ہوگئے۔
اب حالیہ چندسالوں کی طرف آتاہوں۔ شہباز شریف کوبلاشرکت غیرے،پورے دس برس پنجاب کا اقتدارحاصل رہا۔سیاہ اورسفیدکے مالک رہے۔ ان کے اردگرد خوشامدیوں کا ایک ایساگروہ جمع ہوگیا کہ شہبازشریف زمینی حقائق سے مکمل طورپرلاتعلق ہوگئے۔شہبازشریف کے متعلق ایک تاثر پھیلایا گیا کہ وہ حددرجہ محنتی ہیں۔ ''شہباز اسپیڈ'' جیسی اصطلاح تخلیق کی گئی جو مکمل طورپرافسانوی تھی۔ پروپیگنڈے کاایساطوفان مچایاگیاکہ معلوم ہوتا تھا کہ پنجاب میں فقیدالمثال ترقی ہورہی ہے۔بس چندماہ بعد،چین اور امریکا کے صدوربھی وزیراعلیٰ سے مشورہ کرینگے کہ آپ نے اپنے صوبے میں اتنی ترقی کس طرح کرواڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ چندافسروں نے شہبازشریف کو بربادکرڈالا۔غلط مشورے دے دیکرپوری بیوروکریسی میں شدیدگروہ بندی پیدا کرڈالی۔اورتواور،وزیراعلیٰ کوماڈل ٹاؤن جیسے بھیانک واقعہ میں بھی غلط مشاورت دے دیکرقتل جیسے سنگین کھیل میں ملوث کردیاگیا۔
یہی افسر کبھی پنجاب کوچلاتے رہے اور مرکز میں جاکرکبھی وزیراعظم کی گودمیں بیٹھ گئے۔ نتیجہ کیاہوا۔آج شہبازشریف اوران کاپوراخاندان،نوازشریف اور ان کا پورا خاندان حددرجہ مصائب میں مبتلاہے۔ان کے اردگردجتنے وفادارترین افسرتھے،انھوں نے حکومت جاتے ہی آنکھیں بدل لیں۔ان میں سے جس پربھی ہاتھ ڈالاگیا،وہ ایک منٹ سے پہلے ''وعدہ معاف گواہ''بن گیا۔طوطے کی طرح بتانے لگاکہ اس نے توکچھ نہیں کیا۔سب کچھ تومیاں صاحبان کے احکامات پرہوتارہا۔وہ تومکمل طور پر بے قصورہیں۔ان افسروں نے حالات کوبدلتے دیکھ کراپنا قبلہ اس تیزی سے تبدیل کیاکہ انسان حیران ہوجاتاہے۔دوبارہ عرض کرونگا کہ نام نہیں لکھناچاہتا۔یہ پابندی میں نے اپنے اوپرخود لگائی ہوئی ہے۔ورنہ جتنی تفصیل سے سرکاری معاملات کو جانتاہوں،اگرلکھ دوں،توقیامت برپاہوجائیگی۔
بہرحال آج کی صورتحال پرغورکرنابھی بے حدضروری ہے۔میاں صاحبان کے دورکے کئی افسران، تحریک انصاف کے اکابرین کوباورکرواچکے ہیں کہ وہ توصرف میرٹ پرکام کرتے رہے ہیں۔وہ توپروفیشنل سول سرونٹ ہیں۔ ان کا کسی گروپ،گروہ یاکسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف کے کرتادھرتا،ان سرکاری جادوگروں کے چنگل میں آچکے ہیں۔ تحریک انصاف کو باورکراناہے کہ وہ تبدیلی اور انقلاب کے داعی ہیں۔اب نئے مسعودمحمودبھی پیدا ہوچکے ہیں۔ نئے غلام اسحق خان بھی جنم لے چکے ہیں۔ ان کا پوراگروہ اقتدارکااصل مالک بن چکا ہے۔ جو کھیل انھوں نے پنجاب اورگزشتہ مرکزی حکومتوں میں کھیلا،وہی جاری وساری ہے۔دکھ صرف ایک ہے کہ ہمارے بدقسمت ملک میں کوئی بھی مقتدرشخص ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھتا۔دیکھیے،انجام کیاہوتاہے؟