پرتشدد معاشرتی کلچر

ہماری نوجوان نسل کو اس پر تشدد مزاج کے خلاف ایک مضبوط جنگ لڑنی ہے


سلمان عابد November 05, 2018
[email protected]

THESSALONIKI: مسئلہ محض مذہبی سیاسی کارکنوں کا ہی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ہمیں قیادت اور کارکنوں سمیت عوامی مزاج میں تشدد, غصہ, بغاوت, نفرت اور تعصب کا کلچر بالادست ہوگیا ہے جس نے معاشرے کے مجموعی مزاج کو پرتشدد بنا کر ہماری اپنی تصویر کو بدنما بنادیا ہے ۔مسئلہ صرف اپنے ہی ملک کا نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری جو تصویر بن رہی ہے یا اسے مختلف طور طریقوں سے بنا کر پیش کیا جارہا ہے وہ منفی ہے ۔سیاسی , مذہبی , لسانی اور سماجی بنیادوں پر جو معاشرے میں تقسیم موجود ہے اس میں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا کلچر غالب ہوگیا ہے۔ یہ بحران کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ معاشرے کے وہ تمام طبقات جو طاقت میں ہیں یا جو رائے عامہ کی تشکیل کو ممکن بناتے ہیں وہ سب اس مزاج کو پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر طبقہ چاہے وہ سیاسی یا مذہبی رجحان رکھتا ہے اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتا ہے ۔ اسے اپنے خلاف ہونے والے ہر فیصلے میں اپنے خلاف تعصب یا نفرت نظر آتی ہے ۔معاشرے کا حقیقی حسن سیاسی اورسماجی اہم آہنگی کا عمل ہوتا ہے ۔ اس سے مراد ایک دوسرے کے مختلف نظریات, سوچ, فکر اور اطوار سے اختلافات کے باوجودان کو بردباری سے برداشت کرنے اور اکٹھے رہنے کا عمل ہوتا ہے ۔ محض اپنے مخالف نظریات اورسوچ کی بنیاد پر نفرت کا جذبہ اوراس کو برادشت نہ کرنا یا ختم کرنا ایک منفی اور متعصب معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جو معاشرے کے حسن کو بربادکردیتا ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی نظام ناکامی سے دوچار ہے ۔

جب ریاست, حکومت اورمعاشرے کا مجموعی نظام ایک مہذب معاشرہ کو پیدا کرنے میں ناکام ہو تو یہ ناکامی اجتماعی طور پر قبول کی جانی چاہیے۔ ہمارے یہاں مذہبی اورسیاسی بنیادوں پر مزاحمتی عمل یا احتجاج کا انداز اب ایک پر تشدد اور اذیت ناک کلچر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں ، ان کا جواز پیش کرتے ہیں۔ حیرانی اس وقت بھی ہوتی ہے جب پڑھے لکھے افراد بھی منفی سرگرمیوں کا ڈھٹائی سے جواز پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر انصاف کا عمل اداروں کے مقابلے میں افراد کے ہاتھوں میں دے دیا جائے یا اس کی حمایت کی جائے تو پھر اس معاشرے کو بربریت پر مبنی معاشرے کا ہی نام دیا جائے گا ۔جب معاشرے میں قانو ن کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوجائے اور افراد کی قانونی بالادستی کو جواز کے طور پر پیش کیا جائے گا تو یہ عمل کل اس کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں سیاسی اور مذہبی کارکنوں کا جب احتجاج ہوتا تھا تو اس میں کئی انسانی پہلووں کی قدر کی جاتی تھی ۔ مثال کے طور پر بچوں, عورتوں , بزرگوں , بیمار افراد , باراتی , جنازوں کو آگے بڑھ کر راستہ دیا جاتا تھا ۔لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔

مجھے سب سے زیادہ افسوس مذہبی کارکنوں کو دیکھ کر ہوتا ہے جو اسلام کی تعلیم و تربیت سے بھی محروم ہوگئے ہیں اور معاشرے کے لیے مثال بننے کے بجائے خوف کی علامت بن گئے ہیں۔ مسئلہ ان مذہبی اورسیاسی کارکنوں کا ہی نہیں بلکہ ان کی قیاد ت کا ہے جو خود اپنے مزاج ,گفتگومیں پرتشدد مزاج کے حامی بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پرنوجوان نسل جس انداز میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور جھوٹ پر مبنی خبریں دے رہے ہیں وہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ریاست اورحکومت تمام سیاسی اورمذہبی فریقین کے ساتھ بیٹھ کر احتجاج کا ایک نیا کوڈ آف کنڈکٹ ترتیب دے اور اس پر سب اپنا اپنا اتفاق دے کر اس پر سختی سے عملدرآمد کے نظام کو ممکن بنائیں ۔مہذہب معاشروں کی طرح احتجاج کے لیے ہمیں بڑے پارکس بنادیے جائیں جہاں وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں ۔ سڑکوں کو بلاک کرنا اور شہری زندگی کو مفلوج کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمارے اہل دانش کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے میں ایسے تمام مذہبی اورسیاسی افراد کی حمایت نہ کریں جو پرتشدد کلچر کی حمایت کرتے ہیں ۔

یہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اندر اپنے ہی کارکنوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اورایسے لوگ جو ان کے اندر آکر لوگوں کو اذیت دینے , لوٹ مار کرنے اورمجرمانہ عمل کرتے ہیں ان کے خلاف خود احتسابی کے نظام کو موثر اور شفاف بنائیں ۔کیونکہ اس منطق کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے کہ لوگ اپنی مرضی کے فیصلوں کو طاقت کے زور پر سب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔

ہماری نوجوان نسل کو اس پر تشدد مزاج کے خلاف ایک مضبوط جنگ لڑنی ہے۔ یہ جنگ سوشل میڈیا پر بھی لڑی جائے اورنفرت کے مقابلے میں محبت,امن اور رواداری کے کلچر کو متبادل بیانیہ کے طورپر پیش کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ نفرت کا کاروبار کر رہے ہیں اس پر سائبر کرائم ایکٹ کو فعال بھی کرنا ہوگا اور نئی نسل کو باور کرانا ہوگاکہ وہ ایسے اقدام سے گریز کریں جو نفرت پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ تعلیمی درس گاہوں میں رواداری پر مبنی کلچر کو زیادہ مضبوط اور فعال کرنا ہوگا۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر رواداری پر مبنی بیانیہ کی تشہیر اور نوجوان نسل کی اس تناظر میں مختلف سرگرمیوں کا فروغ دانش گاہوں کا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے ۔تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین کو شامل کرنا ہوگا جو سماج کو مہذب بنانے میں مدد گار ہو۔

رواداری پر مبنی معاشرہ کسی ایک فریق کی جنگ نہیں۔ یہ پورے معاشرے کی جنگ ہے۔ معاشرے کے تمام فریقین کو اس اہم ذمے داری میں اپنا اپنا کردار اورحصہ ڈالنا ہوگا ۔وگرنہ مہذب معاشرہ کی جنگ بہت پیچھے رہ جائے گی اورا س کے ذمے دا ر ہم سب ہی ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں