کراچی 300 دن کا منصوبہ
رہائش سے منسلک ہی دیگر مسائل میں ایک مسئلہ قیمتوں میں اضافہ بھی ہے
حال ہی میں حکومت کی جانب سے کراچی کے لیے 300 دن کا منصوبہ تیار کرنے کی خبر آئی، توقع تھی کہ اس خبر میں شہریوں کے لیے کافی کچھ ہوگا، مگر افسوس بظاہر ایسا کچھ نہ تھا۔ خبر کے مطابق منصوبے کے تحت دھابیجی فریٹ پراجیکٹ کے تحت کراچی سے اندرون ملک سامان کی ترسیل ہوگی، تمام کنٹینرز اور درآمدی سامان کی ترسیل فریٹ ٹرینوں کے ذریعے ہوگی۔ ایسٹ، ویسٹ وہارف سے فریٹ ٹرین سامان کی ترسیل کرے گی۔ اس کے علاوہ کراچی لوکل ٹرینوں کو آپریشنل کیا جائے گا۔ کراچی کے علاقوں لانڈھی، ملیر، بن قاسم اور دھابیجی تک ہر آدھے گھنٹے بعد لوکل ٹرین چلے گی۔
کسی بھی خبر میں عام طور پر خاص خاص باتیں ضرور شامل ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ اس منصوبے میں کچھ اور بھی چھوٹی باتیںہوں جو شاید میڈیا میں نہیں دی گئیں، مگر یہ دو اہم منصوبے کراچی کے شہریوں کے لیے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ لوکل ٹرین تو پہلے بھی چلتی تھیں، بس اس کا دورانیہ دوبارہ سے بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ بھی شہر کے ایک کنارے ہی چلتی ہے، جس میں شہر کا بڑا اکثریتی علاقہ نہیںآتا۔ اسی طرح ٹرین کی دوسری سہولت مال برداری سے ہے، اس کا بھی کراچی کے شہریوں کی کسی سہولت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ کراچی کے بیشمار بڑے مسائل حل کے منتظر ہیں، ان مسائل سے متعلق راقم نے کئی مرتبہ کالم لکھ کر حکومت کی توجہ دلانے کی کوشش بھی کی ہے، مگر افسوس اہم مسائل پر وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔
پاکستان اسٹیل ملز کے مسئلے پر توقع تھی کہ اس کی نجکاری کرکے یا کوئی واضح پالیسی کا اعلان کرکے یہاں کے ملازمین کو ذہنی تناؤ سے نجات دلائی جائے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس ادارے میں پچیس ہزار ملازمین کام کرتے ہیں، گویا کراچی کے پچیس ہزار گھرانوں کا رزق اس ادارے سے وابستہ ہے، مگر افسوس پہلے پیپلز پارٹی، پھر نواز اور اب موجودہ عمران خان کی حکومت میں بھی ان ملازمین کو چار، چار ماہ سے قبل تنخواہ ہی نہیں ملتی، اصولاً تو موجودہ حکومت کو کم ازکم یہ اعلان تو کرنا چاہیے تھا کہ اس ادارے کے ملازمین کو ہر ماہ وقت پر تنخواہیں دی جائیں گی۔
اسی طرح رہائش کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل اس شہر میں گھمبیر صورتحال اختیار کرچکے ہیں، اس پر بھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں دیکھنے میں آئی۔ راقم نے اپنے کئی کالموں میں ذکر کیا تھا کہ کراچی کے سہراب گوٹھ کے علاقے سے آگے سپر ہائی وے کے قریب اسیکم نمبر 33 کی بہت سی رہائشی سوسائیٹیوں پر افغانی لوگوں نے قبضہ کرکے پکے گھر تعمیر کرلیے ہیں، عدالتوں کی جانب سے ان قابضین کو ہٹانے کے احکامات بھی جاری ہوچکے مگر کوئی انھیں بیدخل نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ ان سوسائیٹز میں عام شہریوں نے بکنگ کراکے، برسوں اپنے پیسے قسطوں میں جمع کراکے پلاٹ حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا مگر تمام اقساط ادا کرنے کے بعد بھی وہ اپنی زمین حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ سوسائیٹز تقریباً پینتیس سال پرانی ہیں، جب کہ دوسری طرف پاکستان کواٹرز اور دیگر جگہوں پر جہاں برسوں سے لوگ قانونی طور پر رہ رہے تھے، ان کے خلاف یہ کہہ کر آپریشن کیا جارہا ہے کہ معاہدے کی مدت ختم ہوچکی، حالانکہ یہ زمین اس ریاست کی ہے، کسی کی ذاتی نہیں، اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولت مفت فراہم کرے۔
رہائش سے منسلک ہی دیگر مسائل میں ایک مسئلہ قیمتوں میں اضافہ بھی ہے، کراچی میں مختلف مافیاؤں نے وہ کھیل کھیلا ہے کہ آج یہاں دو کمروں کا مکان بھی کروڑ کے لگ بھک پہنچ گیا ہے اور ایک چھوٹے مکان کے بھی کرائے بیس، بائیس ہزار سے کم نہیں۔ ان مافیاؤں کو کوئی لگام نہیں دیتا، نہ ہی کراچی کے رہنے والوں کے لیے کوئی رہائشی اسکیم پیش کی جارہی ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں راقم نے اس سلسلے میںکئی تجاویز اپنے کالم میں پیش کی تھیں، جس کے بعد کراچی سے ایم کیو ایم کی ممبر اسمبلی کشور زہرہ نے رہائشی قرضوں اور سہولت سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ توقع تھی کہ اس بل کے پاس ہونے سے مڈل کلاس لوگوں کے لیے بلاسود قرضے اور مکانات کا حصول ممکن ہوجائے گا، مگر نئی حکومت آنے کے بعد اس بل کا بھی کچھ پتہ نہیں کیا بنا، نہ ہی کراچی کے شہریوں کے لیے کوئی اور منصوبہ سامنے آیا۔
کراچی میں بلند و بالا عمارتوں کی بے ہنگم تعمیرات کے خلاف بھی راقم نے کئی کالم لکھے تھے، عدالتی حکم پر ان کی تعمیرات پر پابندی عارضی طور پر یقیناً لگی ہوئی ہے مگراس کے لیے مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔ شہر کے گنجان علاقوں میں بلند و بالا عمارات کھڑی کرکے بلڈرز تو اپنے پیسے بنا لیتے ہیں مگر شہریوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اس عمل سے صرف پانی، بجلی، اور پارکنگ یا ٹریفک کے مسائل ہی جنم نہیں لیتے بلکہ ہنگامی صورتحال کے حوالے سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں، مثلاً عمارت میں خدانخواستہ آگ لگ جائے تو لوگ کیسے باہر نکلیں گے؟ فائر بریگیڈز اور ایمبولینس کیسے جائے حادثہ تک پہنچ کر لوگوں کی مدد کریں گی؟ اس شہر کی آبادی کے اعتبار سے نہ اسپتال ہیں، نہ ایمبولینس اور نہ ہی فائر ٹینڈرز ہیں، خدانخواستہ کبھی کوئی قدرتی آفت آگئی تو اتنے بڑے شہر کی حالت کیا ہوگی کہ جہاں عمارتیں کھڑے کھڑے خود گر جاتی ہیں۔
بلند و بالا عمارتوں تک تجاوزات ہٹاکر راستہ صاف رکھنا، فائر ٹینڈرز کی تعداد اور استعداد بڑھانا بھی اس شہر کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے، مگر کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا، کیا ہم کسی حادثے کے منتظر ہیں۔
اسی طرح بچوں اور نوجوانوں کے لیے یہاں کھیل کے میدان، پارک نہیں ہیں، جو ہیں ان کو شاید 'پٹے' پر یا پھر 'بھتے' پر دے دیا گیا ہے۔ پارکس اور میدانوں کو باؤنڈری اور گیٹ لگا کر کمرشل استعمال میں دے دیا گیا ہے، نوجوانوں کی ٹیم میچ کھیلے تو پیسہ دے، بچے جھولا جھولیں تو ٹکٹ لیں۔ پھر بات اس پر ختم نہیں ہوتی، بعض پارک جہاں لوگو ں کی بڑی تعداد آتی ہے، پارکنگ کے نام پر فیس وصول کی جاتی ہے۔
ایک پیلی ٹوپی پہن کر کوئی بھی شخص موٹر سائیکل والے سے بھی دس بیس روپے فیس لے لیتا ہے، حالانکہ فیس بھی پانچ روپے طے ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تمام اسپتالوں اور مارکیٹوں وغیرہ کے آگے فٹ پاتھ پر بھی بائیک پارکنگ کے نام پر یہ 'بھتہ خوری' جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کے آنے سے کیا نئی تبدیلی آئی؟ فٹ پاتھ تو عوام کے پیدل چلنے کے لیے ہوتے ہیں، اس پر پارکنگ قائم کرنے کی اجازت کون دے رہا ہے اور عوام سے پارکنگ فیس کیوں لی جا رہی ہے؟ پارکنگ قائم کرنا تو ہر ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے، آخر ان اداروں کو پابند کیوں نہیں کیا جاتا؟ کراچی میں کتنے ہی بڑے مالز، شاپنگ سینٹرز وغیرہ ہیں کہ جہاں آنے والے لوگوں کی گاڑیوں کو فٹ پاتھ اور سڑک کے کنارے قطار در قطار کھڑا کرکے پارکنگ فیس لی جاتی ہے اور اس سبب مین شاہراہیں تک تنگ ہوجاتی ہیں اور صبح و شام ٹریفک جام رہتا ہے۔
اس شہر کے مسائل بہت ہیں، مگرکون ہے جو ان کو حل کرے؟ کیا نئی حکومت کے نئے پاکستان میں بھی سب پرانا چلتا رہے گا؟ کیا 300 دن منصوبے کے بعد بھی اس کی حالت یہی رہی گی؟
کسی بھی خبر میں عام طور پر خاص خاص باتیں ضرور شامل ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ اس منصوبے میں کچھ اور بھی چھوٹی باتیںہوں جو شاید میڈیا میں نہیں دی گئیں، مگر یہ دو اہم منصوبے کراچی کے شہریوں کے لیے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ لوکل ٹرین تو پہلے بھی چلتی تھیں، بس اس کا دورانیہ دوبارہ سے بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ بھی شہر کے ایک کنارے ہی چلتی ہے، جس میں شہر کا بڑا اکثریتی علاقہ نہیںآتا۔ اسی طرح ٹرین کی دوسری سہولت مال برداری سے ہے، اس کا بھی کراچی کے شہریوں کی کسی سہولت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ کراچی کے بیشمار بڑے مسائل حل کے منتظر ہیں، ان مسائل سے متعلق راقم نے کئی مرتبہ کالم لکھ کر حکومت کی توجہ دلانے کی کوشش بھی کی ہے، مگر افسوس اہم مسائل پر وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔
پاکستان اسٹیل ملز کے مسئلے پر توقع تھی کہ اس کی نجکاری کرکے یا کوئی واضح پالیسی کا اعلان کرکے یہاں کے ملازمین کو ذہنی تناؤ سے نجات دلائی جائے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس ادارے میں پچیس ہزار ملازمین کام کرتے ہیں، گویا کراچی کے پچیس ہزار گھرانوں کا رزق اس ادارے سے وابستہ ہے، مگر افسوس پہلے پیپلز پارٹی، پھر نواز اور اب موجودہ عمران خان کی حکومت میں بھی ان ملازمین کو چار، چار ماہ سے قبل تنخواہ ہی نہیں ملتی، اصولاً تو موجودہ حکومت کو کم ازکم یہ اعلان تو کرنا چاہیے تھا کہ اس ادارے کے ملازمین کو ہر ماہ وقت پر تنخواہیں دی جائیں گی۔
اسی طرح رہائش کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل اس شہر میں گھمبیر صورتحال اختیار کرچکے ہیں، اس پر بھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں دیکھنے میں آئی۔ راقم نے اپنے کئی کالموں میں ذکر کیا تھا کہ کراچی کے سہراب گوٹھ کے علاقے سے آگے سپر ہائی وے کے قریب اسیکم نمبر 33 کی بہت سی رہائشی سوسائیٹیوں پر افغانی لوگوں نے قبضہ کرکے پکے گھر تعمیر کرلیے ہیں، عدالتوں کی جانب سے ان قابضین کو ہٹانے کے احکامات بھی جاری ہوچکے مگر کوئی انھیں بیدخل نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ ان سوسائیٹز میں عام شہریوں نے بکنگ کراکے، برسوں اپنے پیسے قسطوں میں جمع کراکے پلاٹ حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا مگر تمام اقساط ادا کرنے کے بعد بھی وہ اپنی زمین حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ سوسائیٹز تقریباً پینتیس سال پرانی ہیں، جب کہ دوسری طرف پاکستان کواٹرز اور دیگر جگہوں پر جہاں برسوں سے لوگ قانونی طور پر رہ رہے تھے، ان کے خلاف یہ کہہ کر آپریشن کیا جارہا ہے کہ معاہدے کی مدت ختم ہوچکی، حالانکہ یہ زمین اس ریاست کی ہے، کسی کی ذاتی نہیں، اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولت مفت فراہم کرے۔
رہائش سے منسلک ہی دیگر مسائل میں ایک مسئلہ قیمتوں میں اضافہ بھی ہے، کراچی میں مختلف مافیاؤں نے وہ کھیل کھیلا ہے کہ آج یہاں دو کمروں کا مکان بھی کروڑ کے لگ بھک پہنچ گیا ہے اور ایک چھوٹے مکان کے بھی کرائے بیس، بائیس ہزار سے کم نہیں۔ ان مافیاؤں کو کوئی لگام نہیں دیتا، نہ ہی کراچی کے رہنے والوں کے لیے کوئی رہائشی اسکیم پیش کی جارہی ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں راقم نے اس سلسلے میںکئی تجاویز اپنے کالم میں پیش کی تھیں، جس کے بعد کراچی سے ایم کیو ایم کی ممبر اسمبلی کشور زہرہ نے رہائشی قرضوں اور سہولت سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ توقع تھی کہ اس بل کے پاس ہونے سے مڈل کلاس لوگوں کے لیے بلاسود قرضے اور مکانات کا حصول ممکن ہوجائے گا، مگر نئی حکومت آنے کے بعد اس بل کا بھی کچھ پتہ نہیں کیا بنا، نہ ہی کراچی کے شہریوں کے لیے کوئی اور منصوبہ سامنے آیا۔
کراچی میں بلند و بالا عمارتوں کی بے ہنگم تعمیرات کے خلاف بھی راقم نے کئی کالم لکھے تھے، عدالتی حکم پر ان کی تعمیرات پر پابندی عارضی طور پر یقیناً لگی ہوئی ہے مگراس کے لیے مستقل پالیسی کی ضرورت ہے۔ شہر کے گنجان علاقوں میں بلند و بالا عمارات کھڑی کرکے بلڈرز تو اپنے پیسے بنا لیتے ہیں مگر شہریوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اس عمل سے صرف پانی، بجلی، اور پارکنگ یا ٹریفک کے مسائل ہی جنم نہیں لیتے بلکہ ہنگامی صورتحال کے حوالے سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں، مثلاً عمارت میں خدانخواستہ آگ لگ جائے تو لوگ کیسے باہر نکلیں گے؟ فائر بریگیڈز اور ایمبولینس کیسے جائے حادثہ تک پہنچ کر لوگوں کی مدد کریں گی؟ اس شہر کی آبادی کے اعتبار سے نہ اسپتال ہیں، نہ ایمبولینس اور نہ ہی فائر ٹینڈرز ہیں، خدانخواستہ کبھی کوئی قدرتی آفت آگئی تو اتنے بڑے شہر کی حالت کیا ہوگی کہ جہاں عمارتیں کھڑے کھڑے خود گر جاتی ہیں۔
بلند و بالا عمارتوں تک تجاوزات ہٹاکر راستہ صاف رکھنا، فائر ٹینڈرز کی تعداد اور استعداد بڑھانا بھی اس شہر کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے، مگر کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا، کیا ہم کسی حادثے کے منتظر ہیں۔
اسی طرح بچوں اور نوجوانوں کے لیے یہاں کھیل کے میدان، پارک نہیں ہیں، جو ہیں ان کو شاید 'پٹے' پر یا پھر 'بھتے' پر دے دیا گیا ہے۔ پارکس اور میدانوں کو باؤنڈری اور گیٹ لگا کر کمرشل استعمال میں دے دیا گیا ہے، نوجوانوں کی ٹیم میچ کھیلے تو پیسہ دے، بچے جھولا جھولیں تو ٹکٹ لیں۔ پھر بات اس پر ختم نہیں ہوتی، بعض پارک جہاں لوگو ں کی بڑی تعداد آتی ہے، پارکنگ کے نام پر فیس وصول کی جاتی ہے۔
ایک پیلی ٹوپی پہن کر کوئی بھی شخص موٹر سائیکل والے سے بھی دس بیس روپے فیس لے لیتا ہے، حالانکہ فیس بھی پانچ روپے طے ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تمام اسپتالوں اور مارکیٹوں وغیرہ کے آگے فٹ پاتھ پر بھی بائیک پارکنگ کے نام پر یہ 'بھتہ خوری' جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کے آنے سے کیا نئی تبدیلی آئی؟ فٹ پاتھ تو عوام کے پیدل چلنے کے لیے ہوتے ہیں، اس پر پارکنگ قائم کرنے کی اجازت کون دے رہا ہے اور عوام سے پارکنگ فیس کیوں لی جا رہی ہے؟ پارکنگ قائم کرنا تو ہر ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے، آخر ان اداروں کو پابند کیوں نہیں کیا جاتا؟ کراچی میں کتنے ہی بڑے مالز، شاپنگ سینٹرز وغیرہ ہیں کہ جہاں آنے والے لوگوں کی گاڑیوں کو فٹ پاتھ اور سڑک کے کنارے قطار در قطار کھڑا کرکے پارکنگ فیس لی جاتی ہے اور اس سبب مین شاہراہیں تک تنگ ہوجاتی ہیں اور صبح و شام ٹریفک جام رہتا ہے۔
اس شہر کے مسائل بہت ہیں، مگرکون ہے جو ان کو حل کرے؟ کیا نئی حکومت کے نئے پاکستان میں بھی سب پرانا چلتا رہے گا؟ کیا 300 دن منصوبے کے بعد بھی اس کی حالت یہی رہی گی؟