روشنی اونچے مکانوں کو ہی کیوں راس آئے
مرد کاروں سے نکل کر ایک کنارے پر کھڑے اپنی قیمتی کاروں کو تباہ ہوتا دیکھتے رہے
پچھلے تین دن ہمارے ملک پاکستان میں سڑکوں پر جو مظاہرے ہوئے، ان پر کیا کیا دل رویا مت پوچھیے۔ ایک غریب بچہ اپنی گدھا گاڑی پر کیلے رکھے جا رہا تھا، مظاہرین نے دھاوا بولا اور اس غریب کے سارے کیلے لوٹ لیے۔(پھر کسی نے فیس بک پر ویڈیو چلائی کہ یہ سارے کیلے کسی امیر شخص نے خرید کر مظاہرین کے لیے وقف کر دیے تھے،لہٰذا غریب کیلے والے کو لوٹا نہیں گیا) سیکڑوں موٹرسائیکلیں ان کے مالکان سے چھین کر آگ کے الاؤ میں پھینک دیں، اسی طرح سیکڑوں کاریں توڑ پھوڑ ڈالیں، بے چاری عورتیں، بچے، مرد کاروں سے نکل کر ایک کنارے پر کھڑے اپنی قیمتی کاروں کو تباہ ہوتا دیکھتے رہے۔
قیمتی سرکاری بسیں جلا دی گئیں، ٹرکوں کو جلادیا گیا۔اگرچہ علماء کرام ایسا کرنے کا حکم نہیں دیتے بلکہ وہ توڑ پھوڑ کو پسند نہیں کرتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ وہ توڑ پھوڑ کرنے والوں پر نگاہ رکھیں۔مگر کچھ کارکن انتہائی جذباتی ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچی بستیوں،ورکشاپوں ،خانہ بدوشوں کے غریب اور مایوس نوجوان لوٹ مار کی نیت سے ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتے اور لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں،جس کا سارا الزام قائدین پر عائد ہو جاتا ہے۔میری محترم علماء کرام اور سیاسی قائدین سے بھرپور التماس ہے کہ وہ کسی بھی احتجاج سے قبل ہر علاقے میں کارکنوں کی ٹیم تشکیل دیں جو توڑ پھوڑ کرنے والوں پر کڑی نگاہ رکھیں اور انھیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیں۔
31 اکتوبر، یکم نومبر اور 2 نومبر 2018 یہ تین دن بھی ہماری تاریخ میں لکھے گئے۔ ہمارے رونے دھونے کا مزید سامان دے کر یہ دن گزر گئے۔ اربوں، کھربوں کے قرض میں دبے پاکستان کو اربوں کا نقصان پہنچا کر یہ دن گزر گئے۔ مزدور دیہاڑی نہ لگا سکے، ریڑھی والے، خوانچہ فروش باہر نہیں نکلے۔ ان تین دنوں میں گلی محلے کے پرچون فروشوں سے ادھار دال، آٹا، گھی، چاول لے کر غریبوں نے کام چلایا۔ ان تین دنوں میں ایسی ایسی آوازیں سنائی دیں کہ دل دہل گئے۔ یہ آوازیں اور یہ ہمارا ملک پاکستان۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ تین دن تک اس ادھ موئے پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا رہا، جہاں کرپشن اس بلندی پر پہنچ چکی ہے کہ کرپشن کے بادشاہ کھلے عام کہہ رہے ہیں ''بینکوں میں اربوں کے جعلی کھاتے کھولے جاتے ہیں، ہم پر مقدمہ بناؤ، ہم عدالتوں میں Defend کریں گے، ہم ثابت کریں گے کہ یہ جعلی کھاتے جائز ہیں''۔ اور کیا دیکھنے کو باقی ہے، اور کیا سننے کو رہ گیا ہے؟
اس ملک پر چاروں طرف سے دشمن حملہ آور ہیں۔ یلغار! یلغار! کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ وقت کے اکبر اعظموں نے تلواریں نیام سے نکال رکھی ہیں، تلواریں ہیں، للکاری ہیں اور نہتے لوگ سامنے ہیں جنھیں کہا جا رہا ہے، بھاگ جاؤ، جان بچاؤ، ہم گلو بٹ ہیں، ہمارا مشغلہ گاڑیاں توڑنا ہے، آگ لگانے، جلانے والے دوسرے ہیں۔ جو جو کام جس جس کو دیا گیا ہے وہ وہ کام کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے جو پیسے دیے تھے وہ ان تین دنوں میں برابر ہوگئے۔ اب چین سے پیسے آرہے ہیں! ''اللہ ہی خیر کرے'' دانشور تبصرہ کر رہے ہیں ''یہ کرپشن پیس ملک ہے، اسے کرپشن سمیت چلنے دیں'' گویا کرپشن بھی ایک ''نظام'' ہے جس کے تحت ملک چلائے جاتے ہیں ، معیشت کو دھکیلا جاتا ہے، جیسے جس کا من چاہے عمل کرے، جو اور جتنا جس کے ہاتھ لگے لے اڑے، اور اڑ کر ملک سے باہر لے جائے۔
باہر کے بینک بھرے، باہر محل کو شرماتے اپارٹمنٹ خریدے، مکانات بنائے، پلازہ بنائے، باہر نوکریاں کرے، باہر کے مہنگے ترین اسپتالوں میں علاج کروائے اور مر جانے پر عام قبرستانوں میں نہیں اپنے ذاتی فارم ہاؤسوں میں تدفین کرے۔ یہ ہے ''کرپشن پیس'' نظام۔ باقی رو لیا، افسوس! کہ یہاں ''اپنوں'' نے بھی وہ وہ رنج دیے ہیں تو بے گانوں سے شکوہ کیسا! عرصہ گزرا ایک ذوالفقار علی بھٹو آیا تھا، اس نے آواز لگائی۔ صدیوں سے گھیراؤ میں لاچار، مجبور ہوکر اس کی آواز پر دوڑے۔ وہ آواز لگاتا رہا، غریب اس کی آواز پر دوڑتے رہے۔
مگر اس بھٹو کی پارٹی میں ''کالی بھیڑیں'' بھی تھیں۔ وہ ''کالی بھیڑیں'' بھٹو کے ساتھ نہیں تھیں ، اور وہی ہوا۔ جب بھٹو پر برا وقت آیا تو وہ اکیلا رہ گیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر اس بھٹو نے ''انکار'' بلند کیا، وقت اور ''لوگ'' اسے ''مارنا'' چاہتے تھے مگر وہ ''امر'' ہوگیا۔ ایسا ہوتا ہے، رہنما کے ساتھ کالی بھیڑیں آ ملتی ہیں۔ قائد اعظم نے بھی تو اپنی جیب کے کھوٹے سکوں کا ذکر کیا تھا۔ آج پھر ایک عمران سامنے آیا ہے، اس نے بھی ''انکار'' کی آواز بلند کی ہے۔ وہ بھی ظالم کو، جابر کو، لٹیروں، چوروں، ڈاکوؤں، غاصبوں، قاتلوں، قابضوں کا انکاری ہے۔ وہ انھیں نہیں مانتا۔ صدیوں کے گھیراؤ والے عوام اس عمران کے ساتھ ہولیے، وہ سامنے آگیا ہے اور اس نے انہونے کام شروع کردیے ہیں۔
تمام حکومتی عمارتیں اس نے خالی کروالی ہیں، حکمرانوں کے لیے بھینسیں تھیں، حکمران اور ان کے گھر والے اصلی دودھ پیتے تھے اور غریب ملاوٹ زدہ دودھ۔ تھر کے بچے آج بھی بھوکے مر رہے ہیں اور ''پاس ہی رہنے والوں تک'' تھر کے مرتے بچوں کی معصوم چیخیں نہیں سنائی دے رہیں۔ عمران خان ظلم و جبر کا نظام بدلنا چاہتا ہے، مگر قائداعظم اور بھٹو کی طرح اس کی تحریک انصاف میں بھی کالی بھیڑیں گھس آئی ہیں۔ قائداعظم اور بھٹو کی طرح عمران کو بھی اپنی پارٹی میں شامل کالی بھیڑوں کا پتا ہے، اور عمران کو تو قائداعظم اور قائداعظم کے تجربوں کے بعد ''کالی بھیڑوں'' کا زیادہ پتا ہے۔ اور ان کے بارے میں چوکنا ہے۔ اعظم سواتی کا واقعہ سب کے سامنے آچکا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے 62-1-F کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔
اب فیصلے کا انتظار ہے۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا۔ اب عمران خان کی کالی بھیڑوں کو سفید ہونا پڑے گا، ورنہ دوسری صورت میں انھیں ''لٹیروں'' میں شامل ہونا پڑے گا۔ عمران خان بہت بڑی امید بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ بھینسوں، کاروں اور حکومتی عمارتوں کو ''عوامی'' بنانے پر عمران کا مذاق اڑانے والے منہ کی کھائیں گے۔ میرے ایک دوست، میرے دفتر کے ساتھی، شاعر انوار حبیب مجھے یاد آگئے ہیں۔ انوار حبیب بڑا جی دار بندہ تھا، اس کا ساتھ میں نے بھی نبھایا، ہم کلرکوں اور چپراسیوں کے ساتھی تھے، اور افسران کی بالادستی کو روکتے تھے۔ اس پاداش میں ہم حوالات میں بند ہوئے، انوار حبیب نوکری سے نکالا گیا، اور میں تنزلی کا شکار ہوا۔ پھر سروسز ٹریبونل سے ہم جیت کر بحال ہوئے۔ انوار حبیب بہت اچھا شاعر تھا، اس کے بڑے بھائی مجیب بھی شاعر تھے اور جالب کے دوست تھے، ان دونوں کے والد علی گڑھ کے نامی گرامی آدمی تھے۔ بہت پڑھے لکھے، پنڈت اور شاستری کی سندیں ان کے پاس تھیں اور گاندھی جی تک ان کے مراسم تھے، ان کا نام پنڈت حبیب الرحمن شاستری تھا۔
انوار حبیب کا کلام پڑھیے:
آؤ بڑھ کر کسی مینار پہ قبضہ کرلیں
تاکہ دنیا میں برابر کا اندھیرا ہوجائے
روشنی اونچے مکانوں کو ہی کیوں راس آئے
انوار حبیب جیسے گمنام بڑے لوگوں کی سوچیں پوری ہونے کا وقت آگیا ہے۔