مسدس حالی
مسدس کو چھپے ڈیڑھ صدی ہونے کو آئی ہے لیکن اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ ہوئی ہے
KANO:
عربی کے شاعر، زبیر ابن ابی سلمیٰ کا قول ہے کہ سب سے بہتر شعر جو تم کہہ سکتے ہو وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو لوگ کہیں کہ سچ کہا ہے۔
حالیؔ کی مسدس ''مد و جزر اسلام'' اس قول پر پوری اترتی ہے۔ سچ کے ساتھ اس میں دو خوبیاں وہ بھی ہیں جن کا ذکر ہمارے قدما نے کیا ہے یعنی سادگی اور جوش۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ جنھیں یہ قدرت ہوتی ہے کہ وہ شعر کے ذریعے سے دلوں میں اثر پیدا کردیں انھیں ایک ایک لفظ کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں لفظ لوگوں کے جذبات پر کیا اثر رکھتا ہے اور اس کے استعمال کرنے یا نہ کرنے سے بیان میں کیا خوبی پیدا ہوتی ہے۔ مسدس ''مد و جزر اسلام'' کا لکھنے والا ایسا ہی شاعر ہے۔
اس نظم کے محرک سرسید تھے۔ انھیں حالیؔ کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اندازہ تھا اور اس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اس کا بھی ادراک تھا۔ انھوں نے حالیؔ سے کہاکہ مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان ایک ایسی پر اثر نظم میں بیان ہونی چاہیے جو انھیں سوتے سے جگادے، اور ان میں فکر و عمل کی شمع پھر سے روشن کردے۔
مسدس حالیؔ 1879ء میں مکمل ہوئی۔ حالیؔ اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ''ہر چند کہ اس حکم کی بجا آوری مشکل تھی اور اس خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا لیکن ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی۔ دل ہی سے نکلی تھی، دل ہی میں جاکر ٹھہری۔ برسوں کی بجھی ہوئی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا ہوا اور باسی کڑھی میں ابال آیا۔ ایک افسردہ دل اور بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواتر حملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے، انھیں سے کام لینا شروع کیا۔ اور ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ دنیا کے مکروہات سے فرصت بہت کم ملی اور بیماریوں کے ہجوم سے اطمینان کبھی نصیب نہیں ہوا، مگر بہرحال دل میں دھن لگی رہی۔ بارے الحمدﷲ بہت سی دقتوں کے بعد ایک ٹوٹی پھوٹی نظم اس عاجز بندے کی بساط کے موافق تیار ہوگئی اور ناصح مشفق سے شرمندہ نہ ہونا پڑا۔ صرف ایک امید کے سہارے پر یہ راہ دور دراز طے کی گئی ہے، ورنہ منزل کا نشان نہ اب تک ملا ہے نہ آیندہ ملنے کی توقع ہے''۔
حالیؔ نے اس مسدس کے آغاز میں چند بند بطور تمہید لکھ کر پہلے عرب کی اس ابتر حالت کا نقشہ کھینچا ہے جو ظہور اسلام سے پہلے تھی اور جو زمانۂ جاہلیت کہلاتا ہے۔
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
پھر اسلام کا چاند نکلتا ہے اور اﷲ کے رسولؐ کی تعلیم سے یہ ریگستان دفعتاً سر سبز و شاداب ہوجاتا ہے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
٭٭٭٭
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈرنہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
حالیؔ نے پھر یہ ذکر کیا ہے کہ کس طرح اﷲ کے رسولؐ امت کی کھیتی کو ہرا بھرا چھوڑ کر اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ پھر بتایا ہے کہ مسلمانوں نے کس طرح دینی اور دنیاوی ترقی میں تمام عالم پر سبقت حاصل کی اور پھر اس کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے تنزل کا حال بیان کیا ہے اور قوم کے لیے اپنے ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں آکر مسلمان دیکھ سکتے ہیں کہ کون تھے اور کیا ہوگئے۔
حالیؔ لکھتے ہیں ''اگرچہ اس جاں کاہ نظم میں جس کی دشواریاں لکھنے والے کا دل اور دماغ ہی خوب جانتا ہے، بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہوا ہے اور نہ ہوسکتا تھا مگر شکر ہے کہ جس قدر ہوگیا اتنی امید بھی نہ تھی''۔
موضوع کی نوعیت، حقیقت بیانی اور زبان و بیان کی سادگی اور بے ساختگی نے مسدس حالیؔ کو بے پناہ مقبولیت بخشی اور یہ ہماری قومی شاعری کی اولین سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس نظم نے سر سید کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے حالی کو خط میں لکھا ''بے شک میں اس کا محرک ہوں اور میں اس کو اپنے اعمال حسنہ میں سمجھتا ،ہوں جب خدا روز محشر مجھ سے پوچھے گا کہ تو کیا لایا ہے تو میں عرض کروںگا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں''۔
مسدس کو چھپے ڈیڑھ صدی ہونے کو آئی ہے لیکن اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ ہوئی ہے، یہ اب تک اتنی بار چھپی ہے کہ شاید ہی کوئی دوسری کتاب چھپی ہو اور اتنی مقبول ہوئی ہو کہ بار بار چھپے۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں ''اس نظم کی روانی حیرت انگیز ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دریا امڈا چلا آرہا ہے۔ شروع سے آخر تک ایک عجیب تسلسل ہے، جس کا تار کہیں نہیں ٹوٹتا اور پڑھنے والے کو ایک لمحے کے لیے بھی کہیں رکنے کی نوبت نہیں آتی۔ جوش کی وہ فراوانی ہے گویا ایک چشمہ ابل رہا ہے۔ باوجود ادبی خوبیوں کے سادگی کا یہ عالم ہے کہ اس پر ہزار صنایع بدایع، قربان ہیں اور ہزار خوبیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کی بنت صداقت پر ہے۔ ادب میں حسن و خوبی کا آخری معیار صداقت یا حقیقت ہے۔ شعر کی نسبت جو یہ کہا گا ہے کہ اسے حقیقت یعنی زندگی اور واقعات زندگی سے وابستہ ہونا چاہیے وہ اس پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ یہ مسدس ہماری قومی زندگی کا کامل مرقع ہے جس میں ہمارے خد و خال صاف نظر آتے ہیں''۔
''مسدس حالیؔ'' زندہ جاوید کتابوں میں سے ہے، اس کی درد بھری آواز ہمیشہ دلوں کو تڑپاتی رہے گی اور اس کے دردمندانہ اقوال دلوں میں گھر کیے بغیر نہیں رہیں گے۔